کارپوریٹ دنیا


ایک ایسی میٹنگ کا کمرہ جہاں تقریباً 22 افراد کے بیٹھنے کا اِنتظام ہو۔ وہاں ایک شخص اپنی کرسی باہر سے لے کر آئے تاکہ جانسن کے دائیں بائیں رکھی خالی کرسیوں پہ نہ بیٹھنا پڑ جائے۔ اس پر جانسن کا رویہ! پوری میٹنگ میں خاموش۔ نہ ہاں میں جواب نہ۔ نہ میں۔ کسی بات پہ اِتفاق نہ اعتراض، تو پھر وہ میٹنگ میں تھا کیوں؟

شاید اِس لیے وہ کرایہ دار نہیں بلکہ مالک ہو گا۔ میرے مصافحہ کے لیے بڑھے ہوئے ہاتھ کو یکسر نظر انداز کے چلے جانا اور آج بھی کسی گرم جوشی سے ہیلو کہنے کی بجائے صرف مدد کے لیے آگے بڑھنا اور بغیر شکریہ سنے آگے بڑھ جانا۔ میرے لیے جانسن کا کردار دلچسپی سے خالی نہیں تھا، مجھے آج اس کی ہمدردی سے ایسا لگا کہ وہ مزاجاً بُرا نہیں ہے مگر اس کی ذات کے ساتھ کچھ ایسا ضرور وابستہ ہے جس نے اسے دوسروں سے اور دوسروں کو اس کو خود سے الگ تھلگ رکھا ہوا ہے۔

ایک سال کے دورانیہ میں، میں نے پہلی بار اسے اس روز میٹنگ میں دیکھا تھا اورپھر اسٹورمیں، مگر اس کے بعد بارہا ہمارا آمنا سامنا ہوا۔ گاڑی پارک کرتے، گاڑی گیراج سے نکالتے، بچوں کو پارک لے جاتے ہوئے یا واپسی میں، شاپنگ اسٹور میں۔ لابی میں، میل چیک کرتے ہوئے کوریڈورمیں۔ وہ نظر بچا کر خامشی سے نکل جانا چاہتا مگرمیں کسی نہ کسی بہانے اسے ہیلو کہنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتی۔

منفرد لوگوں سے ملنا اور ان کے تجربات سن کر زندگی یا دُنیا کو سمجھنا، شاید میرے مزاج کا سب سے اہم پہلو ہے۔ جانسن کی شخصیت میں بھی وہی پراسراری تھی جس نے مجھے اپنی جانب متوجہ کیا ہوا تھا۔

عجیب ملک تھا کینیڈا بھی۔ دُنیا کے بہت بڑے حصے پر محیط، پوری دُنیا کے ہر رنگ و نسل کے انسانوں کا بہاؤ تھا اس میں۔ نئی زندگی کے آرزومند ہر مُلک سے اس جانب دوڑے چلے آئے تھے، جیسے سارے خوابوں کی تعبیر یہیں ملتی ہو۔ کچھ بن جاتے، کچھ بنے بنائے بگڑ جاتے۔ سنورنا، بگڑنا تقدیروں اور تدبیروں سے بھی آگے نکل چکا تھا۔ زندگی کی بہتی روانی میں، معنی و مفہوم کی طرح قدریں اور سوچیں بھی بدل رہی تھیں۔

میں بھی ایک سال سے یہاں تھی۔ اس کیپیٹل ازم کی شکار دُنیا میں رنگ برنگی روشنیوں، مصنوعی خوشیوں اور چمکداربازاروں کے ہجوم میں، جہاں تقریباً ہر شخص نے خود کو اپنی مرضی سے گروی رکھا ہوا تھا۔ مارگیج کے پُر فریب نام پر۔

اس سماج کا حصہ بننے کی کوشش میں ہر شخص زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی دُھن میں مشینی اور غیرجذباتی زندگی جی رہا تھا۔ میرے لیے یہ نظام ناپسندیدہ اور شاطرانہ تھا لہٰذا میں اپنے ہی ڈھنگ سے جینے کی کوشش کر رہی تھی۔ زیادہ تر افراد جو مجھے ملے۔ ان کا کینیڈا آنے کا مقصد پیسے کا حصول اور اپنے بچوں کو انگریزی زبان میں ماہر کرنا تھا۔ زندگی کا کوئی تیسرا مقصد ان کے سامنے نہیں تھا۔ ان کے لیے ترقی، شعور، علم اور عرفان، سب کچھ پیسہ تھا۔ میں شعوری طور پر لوگوں سے قریب ہونے یا دوستیاں رکھنے سے گھبرا رہی تھی، مگر کچھ پرانے جاننے والوں کو علم ہوا تو پیغام مِلا کہ وہ لوگ مجھ سے ملنے آئیں گے۔

افراد توتین ہی تھے، میاں بیوی اور ایک بیٹی مگر چونکہ دُور سے آ رہے تھے لہٰذا یہ طے تھا کہ وہ رات رُکیں گے۔ پارکنگ کا مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ عین وقت پر پریشانی سے بچنے کے لیے میں نے بلڈنگ کی اِنتظامیہ سے رابطہ کیا مگر معلوم ہوا کہ میری اپنی پارکنگ کے سوا کوئی دوسری پارکنگ دستیاب نہیں ہو سکے گی، مجھے مہمانوں کی گاڑی کو فائن ٹکٹ سے بچانے کی فکر لگ گئی۔ کیا کروں؟ کسی کو بلڈنگ میں جانتی بھی نہیں تھی کہ پوچھ لوں۔

اس اُدھیڑ بن میں تھی کہ سامنے سے آتے ہوئے جانسن پر نظر پڑی، مجھے خواہ مخواہ ہنسی آ گئی، جو آدمی کسی سے بات کرنے کا روادار نہ تھا۔ میں اسے اپنی مشکلات حل کرنے کا ذریعہ سمجھ رہی تھی۔ خیر۔ میں نے جیسے ہی اپنی پریشانی کا ذِکر کیا، نو وریزکہتے ہوئے، جانسن نے مجھے اپنا پارکنگ نمبر بتایا۔

اور تمہاری گاڑی؟ میں نے پوچھا۔

میں آج کل ڈرائیو نہیں کرتا۔ ”اس نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

اگلا جملہ تھا کہ ”جب تک دل چاہے میں اس کے پارکنگ ایریا کو استعمال کر سکتی ہوں۔

یہ سوچتے ہوئے کہ کتنا ہمدرد ہے، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔

رسمی مسکراہٹ کی ہلکی سی لہر دکھائی دی تھی، پھر غائب۔

یہ لو،

اس نے جیب سے کی چین نکالی اور اس میں سے پارکنگ گیٹ کھولنے والا فوب نکال کر مجھے تھما دیا اور چلتا بنا۔

اور میں تمہیں یہ فوب واپس کیسے کروں گی؟ میں نے ذرا اونچی آواز میں پوچھا۔

اوہ۔ وہ مڑا اور بولا۔ میرا فون نمبر لے لو۔ جب اس کی ضرورت نہ رہے کال کر دینا میں آ کر لے جاؤں گا۔

اوہ ڈیئر ”میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ اس مُلک میں جہاں بغیر کسی مفاد کے کوئی کسی کے پاس لمحہ بھر کھڑا رہنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یہ مانوس اجنبی میری مشکلات حل کرنے کے لئے تیار تھا۔

مہمان ایک رات گزار کر چلے گئے۔

میں جانسن کوفوب واپس کرنا چاہتی تھی لہٰذامیں نے اسے فون کیا۔

بولا۔ میں لینے آ جاؤں۔

کم آن۔ میں تمہیں واپس کرنے آتی ہوں۔

نہیں تکلیف مت کرو۔ مجھے اپنا سویٹ نمبر بتادو۔

پر آ جاؤ۔ 909 میں نے کہا۔ اچھا اگر آ ہی رہے ہو تو چائے ساتھ پیتے ہیں۔

فون چند ثانیے خاموش رہا، پھر جانسن کی آواز سنائی دی، کتنے لوگ ہیں۔

صرف تم آ رہے ہو۔ میں اکیلی ہوں۔ I am an asocial personمیں نے کہا۔

جواب آیا۔ ، OK

موسم ابھی تک خراب تھا۔ اپریل آدھا گزر چکا تھا مگر برف باری ہو رہی تھی۔

پندرہ منٹ بعد جانسن آ گیا۔

میں نے چائے کے دو کپ میز پر رکھے جو کہ لمبی چوڑی فرنچ ونڈو کے قریب تھی۔

چائے پینے کے دوران جانسن نے مجھے کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتایا۔ وہ نیٹیو امریکن تھا جنہیں ابھی حال ہی میں کینیڈا میں فرسٹ نیشن کا درجہ دیا گیا تھا۔

میرے پوچھنے پر کہ وہ لوگوں سے دُور دُور یا الگ تھلگ رہنا چاہتا ہے یا کوئی اور بات ہے، اس نے بڑی سادگی اور شائستگی سے مجھے بتایا کہ وہ پولیس کی اجازت کے بغیر ایک سو کلومیٹر کے ایریا سے زیادہ آگے نہیں جا سکتا، کیونکہ اس پر کیس چل رہا ہے۔

اور وہ کیس کیا ہے؟ میں نے پوچھتے ہوئے یہ ضرور کہا کہ اگر وہ مناسب نہ سمجھے تو نہ بتائے۔

جانسن نے کرسی پیچھے کی طرح کھسکا کر چند لمحوں کے لیے اپنی آنکھیں موند لیں اور بولا۔ تم جانتی ہومیرا تعلق فرسٹ نیشن سے ہے۔

ہاں، مگر اس کا پولیس سے کیا تعلق؟ میں نے پوچھا۔

ہم بہت آسان ٹارگٹ ہوتے ہیں۔ ہم پہ الزام لگانا نہایت آسان ہوتا ہے۔ کسی بھی قضئیے، جھگڑے، بحثابحثی، منہ ماری، منشیات فروشی یا دیگر چھوٹے بڑے کیس میں اگرنیٹیوامریکن انوالو ہے تو سو فیصد یقین رکھو کہ قصوروار وہی ٹھہرایا جائے گا۔ الزام لگانے والا جانتا ہے کہ کوئی بھی ہمیں ملزم نہیں بلکہ ہر ایک مجرم سمجھے گا حتیٰ کہ یہاں کا قانون بھی۔ آج بھی ہزاروں کی تعداد میں افریقن امریکن یہاں کی جیلوں میں ٹھنسے ہوئے ہیں جو وکیلوں کی فیسیں ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے مقدمہ نہیں لڑ سکتے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments