کیا شہ مات ہونے جا رہی ہے؟


\"masoom-rizvi\"گردوغبار کا ایسا طوفان اٹھا ہے، جس نے بیش تر سیاسی چہرے خاک آلود کر ڈالے۔ تحریک انصاف کے دھرنے نے الزامات کی جنگ چھیڑ رکھی ہے، تو اعتزاز احسن پاناما لیکس بل پر کڑے الزامات سے دوچار ہیں۔ ایم کیو ایم کی اندرونی جنگ نے بھی ایسے براہ راست الزامات کو جنم دیا ہے، جس کا انجام کسی کے حق میں بھی اچھا ثابت نہ ہو گا۔ پاکستان میں یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب چوراہوں پر کپڑے دُھلتے ہیں تو انجام کچھ اچھا نہیں ہوتا۔

پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر اعظم، ان کی بیٹی، بیٹوں، داماد اور سمدھی یعنی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نوٹس کے بعد نون لیگ پریشان کن صورت حال سے دوچار ہے۔ جس کا اظہار وزرا کی باڈی لینگویج اور بھونڈے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ عمران خان دو نومبر کے دھرنے کے اعلان پر قائم ہیں۔ اس صورت حال کا نون لیگ کے پاس بھڑکیلے بیانات کے علاوہ کوئی جواب نہیں۔ گزشتہ دھرنے کی طرح، حکومت کو اس بار اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تعاون کی کوئی خاص امید نہیں۔ گو کہ وزیر اعظم رابطوں کیلئے کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں دھرنے کی تو شاید مخالف ہوں، مگر پاناما لیکس تحقیقات پر حکومت کو مشکل میں دیکھنے کی تمنا ضرور رکھتی ہیں۔

عمران خان، جہانگیر ترین، علیم خان توپوں کی زد پر ہیں، تو خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور سیاسی نوٹنکی کے دیگر شرکا بھی گولہ باری سے محفوظ نہیں۔ اعتزاز احسن ایک بار پھر پرانے الزامات کا نشانہ ہیں، چوں کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا پیش کردہ پاناما لیکس بل انہی کا بنایا ہوا ہے، جو حکومت کے گلے میں اٹک چکا ہے، وزیر داخلہ نے ایک بار پھر اعتزاز احسن کو سکھوں کی فہرستیں اور گیس پرمٹ پر نشانہ بنایا ہے، جب کہ اعتزاز کچھ دن پہلے ہی پارلیمنٹ میں وضاحت کر چکے ہیں اور ساتھ یہ دعوت بھی دے چکے ہیں کہ حکومت صرف الزامات تک محدود نہ رہے بلکہ مقدمات قائم کرے، اس کھلے چیلنج کے بعد یہ الزامات بوکھلاہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔

نومبر کا مہینا، نون لیگ کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے، ڈان میں چھپنے والی اسٹوری کی تلوار اب بھی لٹکی ہوئی ہے، عسکری حکام اس معاملے کو بے نتیجہ نہیں چھوڑنا چاہتے، آج نہیں تو کل حکومت کو بہرحال جواب دینا پڑے گا، کہ یہ اسٹوری کس نے لیک کی۔ تحریک انصاف کا دھرنا، پانامہ لیکس سپریم کورٹ کیس، پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا پیش کردہ پانامہ لیکس تحقیقاتی بل، نئے آرمی چیف کی تعیناتی جیسا بڑا مرحلہ بھی منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ ضروری نہیں نئے آرمی چیف کی ترجیحات جنرل راحیل شریف جیسی ہوں، ماضی پر نظر ڈالیں تو جب بھی سیاست دان، دست و گریباں ہوئے، سنگین الزامات، تحاریک، سیاسی بے چینی، نتیجہ کبھی جمہوریت کے حق میں نہیں آیا، انہتر سال بعد بھی ہمارے جمہوری قائدین سیاسی بلوغت تک نہ پہنچ سکے تو پھر غیر جمہوری قوتوں کو کیا دوش دینا۔ غداری، کرپشن، غیر آئینی عمل اور دیگر سنگین الزامات ماضی میں کئی بار گل کھلا چکے ہیں، اگرچہ اس وقت یہ تاثر موجود ہے، کہ فوج سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، مگر کڑی نگاہ ضرور رکھتی ہے۔ کسی کو نہیں پتا، کہ کب کون ایوب خان، ضیاالحق یا پرویز مشرف بن جائے۔

خیر سے ابھی نون لیگ کی مدت حکومت میں ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے۔ پاناما لیکس کا گھیرا کسی نہ کسی طور وزیر اعظم خاندان کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ معاملے کو ٹالنے اور طول دینے والی نون لیگ کی حکمت عملی کا نتیجہ بہرحال یہ ہی نکلنا تھا۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے سب کچھ داو پر لگا دیا ہے۔ پاکستان عوامی تحریک سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں دھرنے میں شامل نہیں۔ عمران خان پر سولو فلائٹ کا الزام بھی عائد کیا گیا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سولو فلائٹ اگر کامیاب ہو جاتی ہے، تو تحریک انصاف کا گراف کہاں پہنچ جائے گا۔ یقینی طور اپوزیشن جماعتیں بھی یہ بات بخوبی جانتی ہیں، تمام جماعتیں اگلے عام انتخابات کی تیاری کر رہی ہیں، پانامہ لیکس کے مسئلے پر نون لیگ نے بھی متبادل حکمت عملی تیار رکھی ہو گی۔ اگر شریف خاندان پر الزامات درست ثابت ہوتے ہیں، تو ایک تو نون لیگ کے لیے کڑا مرحلہ ہو گا، اور اگر بات وزیر اعظم کی ذات تک جا پہنچی تو پھر یہ مرحلہ قیامت خیز بن سکتا ہے۔

ادھر پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے یکایک گورنر سندھ پر گولہ باری کر کے پنڈورا بکس کھول دیا ہے۔ ابھی تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا، کہ مصطفیٰ کمال نے اچانک ڈاکٹر عشرت العباد کو کیوں چنا۔ بہرحال دوسری جانب گورنر سندھ نے انہیں گھٹیا، کم ظرف قرار دیتے ہوئے طارق عظیم قتل کیس، سانحہ 12 مئی، سانحہ بلدیہ، امدادی رقوم اور چائنا کٹنگ سے اسلحہ خریدنے اور فوج کے خلاف استعمال کرنے تک کے بے شمار سنگین الزامات، جواب آں غزل کے طور پر پیش کر ڈالے۔ اس سارے قضیے سے ایم کیو ایم پاکستان اور لندن، دونوں خود کو دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اس کو اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔

عوام میں یہ تاثر راسخ ہوتا جا رہا ہے، کہ پاک سرزمین پارٹی تمام تر دعووں اور پرجوش پریس کانفرنسوں کے باوجود عملی میدان میں کہیں نہیں ہے۔ اگر اس تھیوری کو درست مانا جائے تو گورنر سندھ کو ہدف بنانا فرسٹریشن قرار دیا جا سکتا ہے، یا پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خبروں میں رہنے کا ایک گر۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر عشرت العباد چودہ سالوں سے گورنر سندھ کے عہدے پر کامیابی سے فائز ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ سیاسی حلقوں میں بھی مقبول ہیں۔ اس کے باوجود مصطفیٰ کمال الزامات کا اس طرح جواب دینا، ان کے شایان شان ہرگز نہیں تھا۔ یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مصطفیٰ کمال کے پاس گنوانے کے لیے کچھ نہیں جب کہ عشرت العباد کا معاملہ قطعی مختلف ہے۔ الزامات نئے نہیں مگر نوعیت اتنی سنگین ہے کہ تحقیقات میں دونوں طرف کی شخصیات کو نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو گا۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ دو بڑی جماعتوں کے سربراہان مشکلات کا شکار ہیں۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری مفاہمانہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں تو میاں نواز شریف پاناما لیکس کی ان دیکھی زنجیروں میں بری طرح جکڑے ہوئے۔ جماعت اسلامی اور قاف لیگ واضح طور پر نون لیگ مخالف کیمپ کا حصہ ہیں۔ ایم کیو ایم اندرونی جنگ کے باعث بے اثر ہے۔ اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمان، میاں نواز شریف کے بائیں اور دائیں ضرور موجود ہیں، مگر موجودہ صورت حال میں کچھ زیادہ نہیں کر پائیں گے، یہی صورت حال محمود اچکزئی کی بھی ہے،۔ دوسری جانب تحریک انصاف رائے ونڈ کے کامیاب جلسے کے بعد کرپشن یا یوں کہیں پاناما لیکس پر عوامی فضا بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اگر عمران خان اسلام آباد دھرنے کو طول دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینی طور پر وزیر اعظم اور نون لیگ کڑے فیصلوں پر مجبور ہو جائیں گے۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سیاسی فضا ایک بار پھر شدید افراتفری اور بے یقینی سے دوچار ہے۔

شطرنج کی بساط پر 64 خانے اور دونوں کھلاڑیوں کے پاس 16 مہرے ہوتے ہیں، جس میں ایک بادشاہ، ایک وزیر، دو فیل، دو گھوڑے، دو رخ اور آٹھ پیادے شامل ہوتے ہیں۔ شطرنج کھیلنے والے بخوبی واقف ہیں اگر بادشاہ گر جائے تو باقی پندرہ مہرے بھی پیادے بن جاتے ہیں۔ جب بادشاہ کو گرایا جاتا ہے تو صرف ایک لفظ بولا جاتا ہے، \’شہ مات\’، اور پھر کھیل ختم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments