داراشکوہ: شاہجہاں کا لاڈلا مفکر، شاعر اور صوفی ولی عہد


کتاب

اورنگ زیب جانشینی کی جنگ ہار گئے تھے

شاہ جہاں کی علالت کے بعد جانشینی کی جنگ میں اورنگ زیب بھاری پڑ گیا

اگر پاکستان کے ڈرامہ نگار شاہد ندیم کی بات کو تسلیم کیا جائے تو اورنگزیب کے ہاتھوں دارا کی شکست نے ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کا بیج بو دیا تھا۔

اس جنگ میں اورنگ زیب ایک بڑے ہاتھی پر سوار تھا۔ ان کے پیچھے تیر کمان سے لیس 15000 سوار تھے۔ اس کے دائیں طرف اس کا بیٹا سلطان محمد اور سوتیلے بھائی میر بابا تھے۔

سلطان محمد کے ساتھ نجاوت خان کا ایک دستہ تھا۔ اس کے علاوہ ، مزید 15000 فوجی مراد بخش کی کمان میں تھے۔ اورنگ زیب لمبے ہاتھی پر بھی بیٹھا تھا۔

اویک چند کہتے ہیں ‘ابتدا میں دونوں افواج کے درمیان مقابلے کی ٹکر ہوئی ۔ لیکن پھر اورنگ زیب نے حقیقی قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔

اس نے اپنے ہاتھی کی چاروں ٹانگوں کو زنجیروں سے باندھوا لیا تاکہ وہ نہ تو وہ نہ آگے جا سکے اور نہ پیچھے پھر اس نے چیخ کر کہا ، ’مردانِ دلاوران بہادر! وقت مقرر’ یعنی بہادروں اپنی جانبازی دکھانے کا وقت آگیا۔ انھوں نے اپنے ہاتھ اوپر کی طرف اٹھائے اور اونچی آواز میں کہا ، ‘یا خدا! یا خدا! میں ہارنے سے بہتر مرنے کو ترجیح دوں گا’۔

دارا کو ہاتھی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا

اویک چند نے مزید کہا ‘اس کے بعد خلیل اللہ خان نے دارا سے کہا کہ آپ جیت رہے ہیں۔ لیکن آپ لمبے ہاتھی پر کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ آپ خود کو کیوں خطرہ میں ڈال رہے ہیں؟ اگر ایک تیر بھی آپ کو چھو گیا تو کیا ہو گا آپ ہاتھی سے نیچے اتریں اور گھوڑے پر سوار ہو کر لڑائی کریں۔

’دارا ہاتھی سے اتر گئے اور جب ان کے فوجیوں نے ان کا ہاتھی خالی دیکھا تو افواہیں پھیلنے لگیں اور انھیں شک ہوا کہ کہیں دارا پکڑے تو نہیں گئے یا لڑائی میں ان کی موت تو نہیں ہو گئی۔ فوجی گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگے اور اسی دوران اورنگزیب کی فوج انھیں روند ڈالا۔‘

اطالوی مورخ نکولا منوچی نے اپنی کتاب ‘اسٹوریہ ڈو موگور’ میں اس لڑائی کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔

منوچی لکھتے ہیں ،’دارا کی فوج کے پاس پیشہ ور فوجی نہیں تھے۔ ان میں سے بہت سے یا تو نائی تھے یا قصاب یا عام مزدور تھے۔ دارا نے دھوئیں کے بادلوں کے بیچ اپنے گھوڑے کو آگے بڑھایا۔ بہادر دکھائی دینے کی کوشش کرتے ہوئے ، اس نے حکم دیا کہ نقارے بجتے رہیں۔ اس نے دیکھا کہ دشمن ابھی کچھ فاصلے پر تھا اس کی طرف سے نہ تو کوئی حملہ ہوا ہے اور نہ ہی فائرنگ ہوئی ہے۔ دارا اپنے فوجیوں کے ساتھ آگے بڑھتا چلا گیا۔

’جونھی وہ اورنگزیب کے لشکر کے پاس آیا، اورنگزیب کی فوج نے توپوں اور اونٹوں پر سوار بندوقوں برداروں کی مدد سے نے ان پر حملہ کردیا۔

دارا اور اس کے سپاہی اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں تھے۔ منوچی مزید لکھتے ہیں ’جب اورنگ زیب کی فوج کے گولوں نے دارا کے سپاہیوں کے سر اور دھڑ اڑانے شروع کیے تو دارا نے حکم دیا کہ اورنگ زیب کی توپوں کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ان کی توپوں کو بھی آگے لایا جائے لیکن یہ جان کر ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی کہ آگے بڑھنے کے چکر میں ان کی فوجیوں نے اپنی توپیں پیچھے چھوڑ دی ہیں۔‘

چوروں کی طرح آگرہ کے قلعے تک پہنچے

مشہور مورخ جدوناتھ سرکار نے اورنگزیب کی سوانح عمری میں اس جنگ میں دارا کی شکست کو بھی بیان کیا ہے۔

سرکار لکھتے ہیں ‘گھوڑے پر چار پانچ میل بھاگنے کے بعد ، دارا شکوہ تھوڑا سا آرام کرنے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ اگرچہ اورنگزیب کے سپاہی اس کے پیچھے نہیں آ رہے تھے لیکن جب بھی دارا اپنی گردن پیچھے کی جانب موڑتے انہیں اورنگ زیب کے سپاہیوں کے ڈھول کی آوازیں سنائی دیتیں ۔

ایک وقت وہ اپنے سر پر پہنے خود کو کھولنا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس کی پیشانی کی کھال کو کاٹ رہا تھا لیکن اس کے ہاتھ اتنے تھکے ہوئے تھے کہ وہ انھیں اپنے سر تک نہیں لے جا پا رہا تھا’۔

سرکار نے مزید لکھا ہے ’رات نو بجے کے قریب ، دارا کچھ گھڑسواروں کے ساتھ چوروں کی طرح قلعہ آگرہ کے مرکزی دروازے پر پہنچا۔ ان کے گھوڑے بری طرح تھک چکے تھے اور ان کے فوجیوں کے ہاتھوں میں مشعلیں نہیں تھیں۔ شہر میں اس طرح خاموشی چھائی ہوئی تھی جیسے کوئی ماتم ہو رہا ہو۔ ایک لفظ کہے بغیر دارا اپنے گھوڑے سے اتر کر اپنے گھر میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر دیا۔

’دارا شکوہ مغل بادشاہت کی جنگ ہار چکے تھے۔‘

کتاب

شکوہ مغل بادشاہت کی جنگ ہار چکے تھے

ایک چھوٹے ہاتھی پر بٹھا کر دہلی کی سڑکوں پر گھما گیا

آگرہ سے فرار ہونے کے بعد ، دارا پہلے دہلی اور پھر پنجاب اور پھر افغانستان چلا گیا۔

وہاں ملک جیون نے انہیں دھوکے سے اورنگ زیب کے سرداروں کے حوالے کردیا۔ انہیں دہلی لایا گیا تھا اور نہایت بے عزتی کے ساتھ دہلی کی سڑکوں پر گھومایا گیا۔

دارا آگرہ اور دہلی کے لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ دارا کو بےعزت کر کے دلی کی سڑکوں پر گھما کر اورنگ زیب یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ صرف لوگوں کی محبت کی وجہ سے ہندوستان کا بادشاہ بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتا ۔

فرانسیسی مورخ فرانسواں برنیئر نے اپنی کتاب ‘ٹریولز ان مغل انڈیا’ میں ، دارا کی اس عوامی تذلیل کو ایک انتہائی مایوس کن انداز میں بیان کیا۔

برنیئر لکھتے ہیں ‘دارا ایک چھوٹے ہاتھی کی پشت پر ایک بیٹھا تھا۔ اس کے پیچھے اس کا 14 سالہ بیٹا سپہر شکوہ ایک اور ہاتھی پر سوار تھا۔ اورنگ زیب کا غلام نذربیگ ننگی تلوار لے کر ان کے پیچھے چل رہا تھا۔ اسے حکم دیا گیا تھا کہ اگر دارا بھاگنے کی کوشش کرتا ہے یا کوئی اسے بچانے کی کوشش کرتا ہے تو فوری طور پر اس کا سر قلم کر دیا جائے۔

کتاب

دارا شکوہ کو بے عڑت کرنے کے لیے دلی کی سڑکوں پر گھمایا گیا

دنیا کے سب سے امیر شاہی گھرانے کا وارث پھٹے ہوئے کپڑوں میں اپنی ہی عوام کے سامنے بےعزت ہو رہا تھا۔ اس کے سر پر ایک بدصورت سا صافہ بندھا ہوا تھا اور اس کی گردن میں نہ تو کوئی زیورات تھے اور نہ ہی کوئی جواہرات۔

برنیئر مزید لکھتے ہیں ‘دارا کے پاؤں زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے ، لیکن اس کے ہاتھ آزاد تھے۔ اگست کی چلچلاتی دھوپ میں انھیں دہلی کی سڑکوں پر چلایا گیا جہاں ان کی طوطی بولتا تھا۔ اس دوران انھوں نے ایک بار بھی اپنی نظریں نہیں اٹھائیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر دونوں طرف کھڑے لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں۔

ایک شال ایک بھکاری کی طرف پھینک دی گئی

ایوک چندا نے بتایا کہ ایک بھکاری بھاری آواز میں کہہ رہا تھا ،اے دارا ایک زمانے میں آپ اس زمین کے مالک ہوا کرتے تھے۔ جب آپ اس سڑک سے گزرتے تھے تو آپ مجھے کچھ دیتے تھے۔ آج آپ کے پاسں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہ سن کر دارا نے اپنے کندھوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور شال کھینچ کر بھکاری کی طرف پھینک دی۔ اس واقعے کے چشم دید گواہوں نے یہ کہانی شہنشاہ اورنگزیب کو سنائی۔

پریڈ ختم ہوئی تو دارا اور اس کے بیٹے سپہر کو خیر آباد کے جیلروں کے حوالے کر دیا گیا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp