عمران خان کا مطالبہ ماننے کا ایک قابل عمل حل


\"adnan-khan-kakar-mukalima-3\"

سنہ 2013 کے انتخابات سے پہلے خان صاحب کو پورا یقین تھا کہ وہ عوامی و ”حساس“ حلقوں میں مقبولیت کی بلندی کو چھو رہے ہیں اور اس وجہ سے وہ پورے ملک میں کلین سویپ کر کے کم از کم دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت بنائیں گے۔ بدقسمتی سے انتخابی مہم کے عین آخری دن وہ ایک بھیانک سازش کے تحت کنٹینر سے گرا دیے گئے اور انہیں ایسی چوٹ آئی کہ وہ صاحب فراش ہو گئے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ اس چوٹ سے مکمل صحت پانے میں انہیں مزید کئی برس لگیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ جس سیڑھی سے وہ گرے تھے، اس کا لوہا اتفاق فاؤنڈری سے ہی لایا گیا ہو گا ورنہ عین خان صاحب کے اس پر چڑھنے پر وہ ان کے خوف سے اس طرح چر مر نہ ہو جاتی۔ بہرحال اس اہم معاملے کی تحقیقات کوئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم یا سکاٹ لینڈ یارڈ ہی کرے تو مناسب ہے، ہمیں اپنے موضوع پر رہنا چاہیے۔

\"imran-khan-injury2\"

انتخابات میں نہ جانے کیسی دھاندلی کی گئی کہ مسلم لیگ ن کو ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے ووٹ دے کر قومی اسمبلی میں 189 سیٹیں دلوا دیں، دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی آئی جس کے حصے میں 46 سیٹیں آئیں اور تحریک انصاف کو ستر لاکھ ووٹ لے کر بھی صرف 33 سیٹیں مل پائیں۔ یوں 342 ممبران کے ایوان میں مسلم لیگ ن تن تنہا حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ خان صاحب نے اعلی ظرفی سے کام لیتے ہوئے ہسپتال میں ہی اپنے بیڈ کے ساتھ کھڑے میاں نواز شریف صاحب کو انتخابات جیتنے کی مبارک باد دے دی۔

سال بھر بعد جب خان صاحب کافی حد تک صحت یاب ہو گئے تو انہیں خیال آیا کہ ان کی مقبولیت کے حساب سے ان کو کافی کم سیٹیں ملی ہیں۔ خان صاحب کو اور ہمیں یقین ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے، مگر یہ اندازہ نہیں ہو پا رہا ہے کہ دھاندلی کیسے کی گئی ہے۔ ایک مرتبہ تو ایک الیکشن کے بعد خان صاحب اظہارِ بے بسی بھی کر چکے ہیں کہ جب بھی ہمیں مسلم لیگ ن کی پچھلی دھاندلی کی سمجھ آتی ہے اور ہم اگلے الیکشن میں اس کا توڑ تلاش کر کے مقابلے کے لئے نکلتے ہیں، تو ن لیگ والے روندی مار کے (بے ایمانی کر کے) کسی نئے طریقے کی دھاندلی کر دیتے ہیں جو کہ ہمیں اس سے اگلے الیکشن تک سمجھ میں آتی ہے۔ بہرحال ہمیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ خان صاحب ہم سے زیادہ ذہین ہیں، کیونکہ ہم ابھی تک 2013 کے الیکشن کی دھاندلی کو سمجھ نہیں پائے ہیں، گو کہ ہمارا دل بھی یہی کہتا ہے کہ ضرور دھاندلی ہوئی ہے۔

\"imran-khan-dharna-violence\"

خان صاحب دو سال پہلے ایک دھرنا دے کر اسلام آباد کو مفلوج کرنے نکلے تھے مگر اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ شہر کی خوشگوار فضا مسموم تو ضرور ہوئی، مگر بہرحال کاروبار حکومت چلتا رہا۔ نواز شریف صاحب کی حکومت شدید بے حسی سے کام لے رہی ہے۔ اسے سوچنا چاہیے کہ پچھلی مرتبہ خان صاحب کے ساتھ چند ہزار افراد ہی دھرنے میں گئے تھے تو وہاں کی یہ حالت ہو گئی تھی۔ اس مرتبہ خان صاحب دس لاکھ افراد لے کر جا رہے ہیں، اور شہر کو نو جگہ سے مسموم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا میاں صاحب نے سوچا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟

اسلام آباد کا کوئی شہری اپنے گھر سے باہر نہیں جا پائے گا۔ شہر میں نومبر کے مہینے میں ہی فیس ماسک کا ایسا کال پڑ جائے گا جیسا پولن کے عروج مہینوں میں بھی نہیں پڑتا ہے۔ میاں صاحب خود غرضی سے کام لے کر خود تو اُدھر رائے ونڈ آ کر اپنے محل میں بیٹھ جائیں گے اور وہاں بیٹھ کر بے نیازی سے کاروبار حکومت چلاتے رہیں گے، مگر کیا ان کو اسلام آباد کے شہریوں پر رتی برابر بھی ترس نہیں آتا ہے؟

\"Toilet-Park\"

فرض کیا کہ عمران خان صاحب کے مسلسل احتجاج سے تنگ آ کر 2018 کے الیکشن کی تاریخ سے تین ماہ پہلے میاں صاحب حکومت چھوڑ کر عبوری حکومت قائم کر دیتے ہیں، اور اگلا الیکشن عمران خان صاحب جیت بھی جاتے ہیں۔ مگر کیا انہوں نے یہ سوچا ہے کہ اگر میاں نواز شریف نے بھی اپنے ڈیڑھ کروڑ ووٹروں کے ساتھ ایسا دھرنا دے دیا تو کیا ہو گا؟ یاد رہے کہ میاں صاحب کے حامیوں میں بٹ برادری کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جو کہ اپنی خوش ذوقی اور کثرت خوراک کی وجہ سے مشہور ہے اور ڈنڈے، بنوٹ، گتکے وغیرہ کے کرتب دکھانے میں بھی وہ نامور ہیں۔ آپ سب کو گلو بٹ، پومی بٹ، نومی بٹ وغیرہ وغیرہ بٹ نامی افراد یاد ہی ہوں گے۔ میاں صاحب ہی کی طرف عمران خان صاحب بھی حکومت نہیں چلا پائیں گے اور اسلام آباد مسلسل اس حد تک حالت خلجان میں مبتلا رہے گا کہ وہاں کے شہری سانس لینے سے بھی قاصر ہو جائیں گے۔

\"nawaz-imran\"

اس مسئلے کا حل آخر کوئی تو ہونا چاہیے جس سے کاروبار حکومت چل پائے، اسلام آباد کی فضا بہتر ہو سکے اور وہاں کے شہری سکھ کا سانس لے پائیں۔ عمران خان صاحب کا مطالبہ ہے کہ ان کو وزیراعظم بنایا جائے کیونکہ غیر جانبدار سوشل میڈیا پر، خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں میں، ان کے حامیوں کی کثرت ہے۔ وہ بچوں اور نوجوانوں کے غیر متنازع لیڈر ہیں۔ ادھر میاں صاحب کہتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں سوشل میڈیا کے لائک نہیں بلکہ بیلٹ باکس میں پڑنے والے ووٹ گنے جاتے ہیں، اور ووٹروں کی اکثریت ان کے ساتھ ہے، تو وزیراعظم وہی ہوں گے اور آثار ایسے ہیں کہ 2018 کے الیکشن کے میں بھی وہی اکثریت پائیں گے۔ دونوں حضرات اپنی اپنی ہٹ پر اڑے ہوئے ہیں اور ایک ڈیڈ لاک پیدا ہو چکا ہے۔

\"youth-parliament-1\"

ہم گزشتہ کئی برس سے اس معاملے پر غور کر رہے تھے کہ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے جس سے دونوں کی بات رہ جائے۔ خدا کا صد شکر ہے کہ ہمیں ایک راہ سجھائی دے گئی ہے جس پر ان دونوں حضرات کے متفق ہونے کا کافی امکان بھی ہے۔

پاکستان میں نیشنل پارلیمنٹ کے علاوہ یوتھ پارلیمنٹ بھی موجود ہے جس میں صدر، سپیکر، وزیر وغیرہ سبھی ہوتے ہیں۔ نوٹ کریں کہ اس فہرست میں وزیراعظم کا عہدہ موجود نہیں ہے۔

ملک میں کم از کم تین یوتھ پارلیمنٹس کام کر رہی ہیں۔ اگر نوجوانوں کی ان تینوں پارلیمنٹوں کو قائل کر لیا جائے کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کے لیڈر جناب عمران خان صاحب کو وزیراعظم بنا دیں، تو ہمارا یہ گمبھیر قومی مسئلہ حل ہو جائے گا۔

نہ صرف یہ کہ جناب نواز شریف صاحب پارلیمانی جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالنے والوں کے ووٹ اور پاکستانی آئین و قانون کی بنیاد پر پاکستان کے وزیراعظم رہیں گے اور اپنی مدت پوری کریں گے، بلکہ عمران خان صاحب بھی وزیراعظم بن جائیں گے۔ بلکہ محض ایک وزیراعظم نہیں بنیں گے، بیک وقت تین تین وزیراعظم بنیں گے۔ ایک ہی وقت میں بچوں اور نوجوانوں کی تین پارلیمنٹیں ان کو اپنا سربراہ حکومت تسلیم کر لیں گی۔

\"youth-parliament-2\"

آپ میں سے چند کٹ حجتی پر اترے ہوئے لوگ یہ کہیں گے کہ نوجوانوں کی یہ پارلیمنٹیں بھلا عمران خان صاحب کو کیوں وزیراعظم منتخب کرنے پر راضی ہوں گی؟ ذہن پر معمولی سا زور ڈالیں تو اس کی وجہ سامنے ہی دکھائی دے جاتی ہے۔

نوجوانوں کی ایک پارلیمنٹ کے ایڈوائزری بورڈ میں نہ صرف عمران خان صاحب، بلکہ اسد عمر صاحب اور فوزیہ قصوری صاحبہ بھی شامل ہیں۔ ایک دوسری یوتھ پارلیمنٹ کے چیئرمین تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے جناب ابرار الحق صاحب ہیں، یعنی وہ بھی گھر ہی کا معاملہ ہے۔ تیسری یوتھ پارلیمنٹ میں عمران خان صاحب کا اتنا اثر و نفوذ دکھائی نہیں دیتا ہے اور اس کو قائل کرنے میں کچھ دقت پیش آ سکتی ہے، مگر ہماری رائے میں اگر خان صاحب اس پارلیمنٹ کے صدر کے گھر کے سامنے چند گھنٹے کا دھرنا ہی دے دیں تو وہ صدر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے اور عمران خان صاحب کو اپنا وزیراعظم تسلیم کرتے ہوئے ان سے حلف اٹھوا کر ان کو اپنے گھر کے سامنے سے اٹھوانے پر بصد خوشی آمادہ ہو جائیں گے۔

\"youth-parliament-3\"

نواز شریف صاحب کو چاہیے کہ فراخ دلی سے کام لیں۔ اسلام آباد میں کنونشن سینٹر کو اگر یوتھ پارلیمنٹ کے اجلاسوں اور تقریروں وغیرہ کے لئے مختص کر دیا جائے، تو عمران خان ہر روز بطور وزیراعظم وہاں تقریر بھی کر سکتے ہیں، یوتھ پارلیمنٹ والوں کا اسی دوران اجلاس بھی جاری ہو سکتا ہے، اور اسی دوران ابرار الحق اور دوسرے معززین کے نغموں پر لڑکے بالے ناچ گا بھی سکتے ہیں۔

اب اگر نواز شریف صاحب اور عمران خان صاحب ہماری اس انتہائی معقول اور دانشمندانہ تجویز پر عمل کرنے پر مائل ہوں، تو راقم الحروف ان دونوں معززین کی ثالثی کرانے کو تیار ہے۔ اس تجویز میں ہر ایک کا فائدہ ہے۔ میاں صاحب بدستور وزیراعظم رہیں گے۔ عمران خان صاحب ٹرپل وزیراعظم بن جائیں گے۔ اور اسلام آباد کی آب و ہوا خوشگوار رہے گی اور اہل اسلام آباد سانس لینے میں دقت محسوس نہیں کریں گے۔ اور ہمارا نام پاکستان کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments