خاک نشین بچے، سرکاری تابوت اور کرائے کی ویگن


\"zafarullah-khan-3\"کوئٹہ میں آٹھ اگست کو وکلاء پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا. بلوچستان کی وکلا برادری پر ایک ہی حملہ پرل ہاربر جیسا مؤثر ثابت ہوا۔ قانون جاننے والے دماغ بجھ گئے، اصول بیان کرنے والی زبانیں خاموش ہو گیئں۔ سڑکوں پر نکل کر حق مانگنے والے انہی سڑکوں پر بین کرتی ہواؤں اور بلکتے دوستوں کے دوش پر گزرتے ہوئے قبرستانوں میں پہنچ گئے۔ ہمیں بتایا گیا کہ دہشت گردوں نے سی پیک یعنی اقتصادی راہداری منصوبے پر حملہ کیا ہے۔

24 اکتوبر کی رات کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو مہربان احباب بتا رہے ہیں کہ یہ حملہ عمران خان کے اسلام آباد میں دو نومبر کے موعودہ دھرنے کو ناکام بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔

وزیراعلی بلوچستان ثنااللہ زہری صاحب فرما رہے ہیں کہ دہشت گردی کی پیشگی اطلاعات تھیں مگر ہمارے سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے دہشت گردوں نے شہر سے باہر حملہ کر دیا۔

وزیر داخلہ سرفراز بگتی صاحب فرما رہے ہیں کہ پچھلے ٹاور پر کھڑے واحد پہرہ دار نے بہادری سے مقابلہ کیا۔

کچھ دوستوں کے خیال میں کوئٹہ کے نوخیز پھولوں کو لہو میں نہلا کر بھارت نے اڑی حملے کا بدلہ لیا ہے۔ حالانکہ یہی احباب فرما رہے تھے کہ اڑی حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔ کسی کے خیال میں دھرنے کو ناکام بنانے کے لئے باقاعدہ یہ قتل گاہ سجائی گئی۔ کوئی افغانستان کا نام لے رہا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ پولیس سینٹر میں کیڈٹ اس لئے واپس بلائے گئے تھے تاکہ ان کو اسلام آباد دھرنے کے لئے بھیجا جا سکے۔ اسحاق ڈار کو دھرنا لڑا ہوا ہے۔ احسن اقبال صاحب سی پیک کی فائلیں چھپانے میں مگن ہیں۔ خان صاحب فرما رہے ہیں پاک فوج کو احترام دلانا بھی دھرنے کا مقصد ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔ رنگ برنگے قصے ہیں۔

اگرچہ ہم ایک زندہ قوم ہیں اور زندہ قومیں اپنے بچوں کے قاتلوں کو بھول جانے ہی میں عافیت سمجھتی ہیں۔ عاجز کو لیکن یاد آتا ہے کہ دس نومبر 2006 کو سخاکوٹ \"quetta-van-2\"اور چک درہ کے درمیان درگئی کے مقام پر پاک فوج کے تربیتی ادارے پر حملہ کیا گیا تھا،۔ اس حملے میں ہمارے 42 زیر تربیت جوان شہید ہوئے تھے۔ آپ بہادر ہیں۔ آپ کو شاید بھول گیا ہو۔ مجھے یاد ہے کہ تب دہشت گردوں کے حامیوں نے اطلاع دی تھی کہ کیڈٹ سکول پر حملہ چند روز قبل درگئی کے ایک مدرسے کے خلاف کارروائی کا ردعمل تھا۔ دہشت گرد قوتوں میں کس قدر لچک ہے کہ کبھی ڈرون حملوں پر ردعمل دیتی ہیں تو کبھی مدرسوں کی حفاظت میں دھماکے کرتی ہیں۔ کبھی مہران نیول بیس میں گھس جاتی ہیں تو کبھی کامرہ ایئر بیس کو نشانہ بناتی ہیں۔ کبھی لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں آئی ایس آئی کے دفتروں پر حملہ آور ہوتی ہیں تو کبھی پرویز مشرف کے قافلوں سے ٹکراتی ہیں۔ کبھی بشیر بلور کو شہید کرتی ہیں تو کبھی بے نظیر بھٹو کے قافلے پر بزن بولتی ہیں۔ کبھی سی پیک کو سبو تاژ کرتی ہیں تو کبھی عمران خان کے دھرنے کی خبر لیتی ہیں۔ خیال آتا ہے کہ اگر دہشت گردوں میں اتنی لچک ہے تو وہ ذہن کس پتھر سے بنا ہوا ہے جو سر جھکائے ایک ہی فکر میں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح دہشت گرد سوچ کا دفاع کیا جائے۔ دہشت گردوں پر چلائی جانے والی گولی کوئٹہ سے پشاور تک اور لاہور سے کراچی تک ہر سمت میں جائے ، بس دہشت گردوں کے مورچوں کا رخ نہ کرے۔

ایک غیر متعلقہ سوال ہے اور ایک معمولی تفصیل بتانا ہے

سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردوں نے دھرنے کو روکنے کے لئے کوئٹہ میں حملہ کیا ہے تو وہ تمام تنظیمیں اور گروہ اسلام آباد میں عمراں خان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا اعلان کیوں کر رہے ہیں جو ہمیشہ سے دہشت گردی کے دفاع میں پیش پیش رہے ہیں۔

اور وہ بےحد غیر متعلقہ تفصیل بس اتنی ہے کہ ہمارے بھائیوں کی لاشوں کے لئے ایمبولینس بھی دستیاب نہ ہو سکے اور ان کی لاشیں کرائے کی ویگنوں پر لاد دی گئیں۔

نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا۔

رہیں وہ لوگ جو بزم جہاں کی رونق ہیں
ہماری کیا ہے، اگر ہم رہے، رہے نہ رہے

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments