یاسین ملک: کشمیر کا مہاتما گاندھی


\"farnood-01\"یاسین ملک اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ دو جڑواں وجود ہیں۔ کشمیر کی دھرتی پرساتھ جنم لیا اور ساتھ اٹھان ہوئی۔ یاسین ملک کشمیر میں رہتے ہیں۔ کشمیر یاسین ملک میں رہتا ہے۔ انیسواں برس ہو اور گیارہویں جماعت ہو، زندگی کس رخ پہ ہوتی ہے۔ طبعیت میں آوارگی اور مزاج میں رومانویت کے سوا کیا ہوتا ہے۔ مقصد حیات اور غم روزگار اس عمر کے قصے تو نہیں ہوتے۔ مگر مقصد اور روزگار دونوں یاسین ملک کے پاس چلے آئے۔ مقصد چھوڑدیا، روزگار پکڑ لیا۔ ایک بین الاقوامی ایڈورٹائزمنٹ ایجنسی سے بطور ماڈل وابستہ ہوگئے۔ ہدایت کاروں کی ہدایات پر اٹکتے مٹکتے پاؤں کسی خیال نے روک لیے۔ گلیمر کی دنیا چھٹے مہینے میں تھی، اس احساس نے سر اٹھا لیا کہ صرف زندہ رہے ہم تومر جائیں گے۔ یعنی سانس لینے کی آزادی تو میسر ہے، مگر زندہ رہنے کے لیے کچھ اور بھی درکار ہے۔ اس ’’کچھ اور‘‘ کے واسطے فلم کا فیتا تیاگ دیا، حریت کاجھنڈا اٹھا لیا۔ یہ پچاسی کا سن تھا۔ میدان میں اس دھج سے آئے کہ دلی اور آگرہ تک ڈنکا پٹ گیا۔ ابھی تو بس بات شروع ہوئی تھی کہ دھر لیے گئے۔ چھ ماہ زندانوں میں گزر گئے۔ چھوٹتے ہی طلبہ تنظیم کی بنیاد رکھ دی۔ تنظیم کا نام صرف دو ماہ میں ہر درس گاہ میں سن لیا گیا۔ ستاسی کا سن آ گیا۔ انتخاب کا طبل بج گیا۔ کشمیر میں مسلم یونائٹڈ فرنٹ نامی اتحاد قائم ہوگیا۔ یاسین ملک شامل ہوئے، مگر انتخابات کے بائیکاٹ کی تجویز دی۔ اکثریت نے تجویز مسترد کردی۔ یاسین ملک نے فیصلے کا احترام کیا، مگر اپنے نمائندے میدان میں نہیں اتارے۔ یہ ضابطہ اخلاق کا احترام اور اپنی رائے کی توقیر قائم رکھنے کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔ اندازہ کیجیے کہ خود انتخابات میں حصہ نہیں لیا، مگر مسلم یونائٹڈ فرنٹ کی انتخابی مہم چلانے کا ذمہ اپنے سر لیا۔ انتخابات کی صبح امید کی موہوم سی کرنوں کے ساتھ طلوع ہوئی، مگر یاسین ملک کے خدشے پر مہر ثبت کرتے ہوئے غروب ہوگئی۔ فیصلہ آیا تو جیتے ہوئے ہار چکے تھے اور ہارے ہوئے جیت کا جشن منا رہے تھے۔ یاسن ملک نے یہ نہیں کہا ’’کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ ایسا ہوگا؟‘‘۔ کچھ بھی کہے بغیر اپنے حصے کی آواز بلند کی۔ جو انتخابات میں گئے تھے ان میں سے بیشتر دامن جھاڑ کے کام پہ نکل گئے، مگر ان کے حصے کی آواز اٹھانے کی پاداش میں یاسین ملک ساتھیوں سمیت جیل پہنچا دیے گئے۔ پھر سے انٹراگیشن سینٹر کے نام پر قائم ریڈ سکسٹین کا وہ عقوبت خانہ۔ تحریکوں اور بربریت کی تاریخ بارہ مولا کے ماچس فیکٹری اورسری نگرکے ریڈ سکسٹین جیسے عقوبت خانوں کے بغیر نامکمل ہے۔ ستاسی کا سن اسارت میں بسر ہوا۔ تین ماہ ہسپتال کے بستر پر گزرے۔ چھوٹے تو دنیا کو خبر ہوئی کہ بیس برس کا نوجوان دل کے امراض میں مبتلا ہوچکا ہے۔

یاسین ملک پچاسی میں ریڈ سکسٹین سے آئے تو طلبہ تنظیم کا تحفہ دیا۔ ستاسی میں نکلے تو مسلح جدوجہد کا نعرہ دیا۔ اسارت کے ایام میں ایک کڑیل ذہن اس نتیجے پر \"yaseen\"پہنچا کہ حریت کی منزل پانے کے لیے بھگت سنگھ، اشفاق اللہ خان اور رام پرساد بسمل کی راہ پر سے گزرنا پڑے گا۔ نوے کے اوائل تک چلنے والی اس مسلح تحریک نے عالمی مبصرین اور انڈین سول سوسائٹی کو کچھ حیرت میں مبتلا کیے رکھا۔ اس حیرت کی وجہ کشمیریوں کی پانچ ہزار سالہ تاریخ تھی جس میں کہیں عسکری پس منظر نہیں ملتا تھا۔ یاسین ملک کی مسلح جدو جہد سے صرف دو فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ بیداری کی لہرنے عوام میں جڑیں پکڑلیں دوسرا یہ کہ کشمیرکا نام عالمی راہداریوں میں سنائی دینے لگا۔ تجربات سے سیکھنے والے یاسین ملک جلد ہی اس نتیجے پر پہنچے کہ آزادی کی جدو جہد میں اشفاق اللہ خان اور بھگت سنگھ کا راستہ بھی اہم ہوتا ہوگا، مگر جبر کا پائیدار جواب تو اس صبر سے دیا جا سکتا ہے جو مہاتما گاندھی کے نصیب میں آیا تھا۔ استحکام تو مارٹن لوتھر کنگ ،نیلسن منڈیلا اور خان عبدالغفار خان کی اس بردباری سے جنم لیتا ہے جو برسوں تک کسی قطرہ آب کی طرح گرتے گرتے چٹان کا سینہ شق کردیتا ہے۔ چنانچہ یاسین ملک نے ہتھیار رکھ دیے۔ سرہانے فیض احمد فیض کا دیوان رکھ دیا۔ اب قلم چھینیے تو ہر حلقہ زنجیر میں زبان رکھ دیتے ہیں۔ زبان پہ روک لگ جائے تو خون جگر میں انگلیاں ڈبولیتے ہیں۔ میر نے ہزار غم یکجا کیے تو ایک دیوان کیا تھا۔ بندوقچی ستم آزمائے تو وہ جگر آزماتے ہیں۔ کوئی ملامت کرے کہ حرف دشنام ارزاں کرے، وہ باد نوبہار کی بات کرتے ہیں۔ سوغموں کو نچوڑ کر شاعر نے ایک قطرہ شراب کی تھی۔ ہزار ستم ڈھائے گئے تو یاسین ملک کو متانت ملی۔ ہتھیار اٹھانے پہ نادم نہیں ہیں۔ رکھنے پہ شرمندہ نہیں ہیں۔ اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل۔ ہر داغ ہے اس دل میں بجزداغ ندامت۔

فیض اور مولانا رومی سے محبت کرنے والے یاسین ملک اپنی زندگی کے دونوں پہلووں سے مطمئن سہی، مگر آسان اور مشکل کی بات کیجیے تو وہ مسلح جدوجہد کو آسان اور پر امن جدو جہد کو ایک مشکل رستہ کہتے ہیں۔ آپ جے کے ایل ایف اور یاسین ملک کی تاریخ کا نہایت غیر مقبول فیصلہ کہہ سکتے ہیں۔ یاسین ملک نے اس فیصلے کی قیمت پورے استقامت سے چکائی ہے۔ دوستوں نے منہ موڑ لیا۔ چھ سو کارکن قتل ہو گئے۔ خود یاسین ملک پر چھ قاتلانہ حملے ہوئے۔ تین حملے مجاہدین نے \"yaseen02\"کیے۔ اسی عرصہ میں اغوا ہوئے۔ اخبار نویس کو جوابدہ ہوئے۔ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے۔ مگر وقت نے یاسین ملک کے فیصلے کی تائید کی۔ وقت شاید تائید نہ کرتا، اگر پاکستان غلطی نہ کرتا۔ وہ تحریک جو کشمیریوں کی خود مختار تحریک تھی، اسے پاکستان نے اپنی تحریک بنالیا۔ پنجاب سے مجاھدین بھرتی کر کے اگلے محاذوں پر بھیجے۔ خود کشمیر کے معاملے میں فریق بن کر کشمیری قیادت کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ اسی کو بنیاد بنا کر ہندوستان نے دنیا میں اپنا مقدمہ لڑا۔ ثبوت و شواہد کی بنیاد پر اسے پاکستان فنڈڈ تحریک کہا گیا۔ ہمارا ایک کمال تو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم ہیشہ اپنے خلاف بر سرپیکار رہتے ہیں۔

یاسین ملک نے ہتھیار رکھتے ہی انڈین سول سوسائٹی اورعالمی برادری پر یہ واضح کیا کہ کشمیر میں جاری تحریک دراصل کشمیریوں کی تحریک ہے۔ یہ باور کروانے کے لیے یاسین ملک کو تین بار کشمیر کی ایک ایک گلی میں پیدل جانا پڑا۔ دلی سے اسلام آباد اور پورے کشمیر میں تین برس تک دستخطی مہم چلائی۔ چودہ برس تک ہندوستانی عوام کے پاس جاکر حقیقت حال سنائی۔ آج اگر کشمیر میں ہونے والے مظالم پر ہندوستان کے اندر کوئی آواز اٹھتی ہے تو اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں یاسین ملک کی محنت کارفرما ہے۔ اب کشمیر کا مسئلہ اگر ہمارے جیتے جی حل ہوا تو پاکستان میں جنم لینے والا مورخ یاسین ملک کو غدار لکھے بغیر بات آگے نہیں بڑھا پائے گا۔ ان کا نام افغانستان کے احمد شاہ مسعود کے ساتھ پکارا جائے گا۔ احمد شاہ مسعود کا معاملہ یہی تو تھا۔ افغان جہاد کے وقتوں میں ہمیں بتایا گیا تھا کہ احمد شاہ مسعود تہجد گزارشب زندہ دار مجاہد ہے۔ کمانڈر یونس خالص کی ہیبت نے کفرکے ایوان لررزہ براندام کر رکھے ہیں۔ جنگ انجام کو پہنچی تو خبر ہوئی کہ احمد شاہ مسعود استعمار کے ایجنٹ ہیں۔ یونس خالص کا ایمان زائل ہوچکا ہے۔ زمین پر خدا کی آخری نشانی اب صرف ملا عمر ہیں۔ کیوں صاحب؟ ہوا یہ کہ انجام کار احمد شاہ مسعود نے آزاد و خود مختار افغانستان کا نعرہ لگایا۔ ایک ایسا افغانستان جس میں کوئی بیرونی مداخلت نہ ہو۔ یہ ملک کیسے چلے گا، اس کا فیصلہ افغان کریں گے۔ یہ بات انہیں ناگوارگزری جوافغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ باور کروا تے تھے۔ یاسین ملک یوں تو بہت عظیم ہیں کہ ہندوستان کے خلاف وہ سب سے بڑی مزاحمتی آواز ہیں، مشکل مگر یہ ہے کہ وہ آزاد وخود مختار کشمیر کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ایسا کشمیر جس میں پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی مداخلت نہ ہو۔ آج ہمیں پاکستان کی اخلاقی حمایت درکار ہے، کل پاکستان ہمارا باعزت ہمسایہ ہوگا۔ اب تم ہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے۔

\"yaseen01\" یاسین ملک کا ہتھیار رکھنا کشمیر کاز کے لیے رحمت تھا۔ یار لوگ مگر اسے شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر وہ شکوہ نہیں کرتے۔ کسی کو برا نہیں کہتے۔ انہیں یہ اطمینان ہے کہ میں ٹھیک ہوں۔ سو وہ زخم نہیں دکھاتے۔ گھاؤ نہیں گنواتے۔ دکھ نہیں سناتے۔ اپنا کام کیے جاتے ہیں۔ اپنی بات کہے جاتے ہیں۔ میں گاندھی کے راستے پہ ہوں۔ میں جان دوں گا لیکن جان لوں گا نہیں۔ گاندھی جی قربانی کا استعارہ تھے،بہت مصائب جھیلے،ساوتھ افریقہ سے دلی تک پوری تاریخ ہے۔ مگر ریڈ سکسٹین جیسے پڑاو تو گاندھی جی کے رستے میں بھی نہیں آئے۔ اسارت میں یاسین ملک کےدل کا ایک والو ناکارہ ہوا۔ اسارت میں ہی ہارٹ سرجری ہوئی۔ راجھستان کی جیل میں ڈالے گئے تو پھر گھر نہیں گئے۔ چاربرس آگرہ یوپی اور دلی کے پاگل خانوں میں پڑے رہے۔ سری نگر کے لاک اپ سے نکلے تو لفظ زبان سے پھسل رہے تھے۔ جبڑا ادائیگی پہ قادر نہیں تھا۔ تہاڑ جیل سے لوٹے تو دایاں کان قوت سماعت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا تھا۔ دلی سے لوٹے تو وہیل چئیر پہ تھے۔ یاد داشت ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ آج یاسین ملک پھر جیل میں ہیں۔ تین ماہ ہوگئے قید تنہائی میں۔ اس عرصے میں ایک جھلک تب دکھا ئی پڑی جب پولیس کے حصار میں کشمیری شال لپیٹے شفا خانے جارہے تھے۔ دوسری جھلک میں وہ نحیف سا بدن لیے وہیل چئیر پہ تھے۔ تیسری جھلک میں وہ بستر پر اس حال میں پڑے تھے کہ دایاں بازو کام چھوڑ چکا تھا۔ یاسین ملک کی ماں بال بکھیرے ہسپتال کی سامنے والی سڑک پہ بیٹھی ہیں۔ اس بیٹے کی ماں کو سلام۔ اس ماں کے بیٹے کو سلام ۔ اس سےزیادہ ہم کربھی کیا سکتے ہیں۔ ایک قلم ہے، گھسیٹتے رہیں گے۔ ایک زبان ہے، احرار کبھی ترک روایت نہ کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments