لکھنے والے…. ناکامی سے کامیابی تک
کیا آپ کی تحریر کر بار بار مسترد کر دیا جاتا ہے؟ یہ سوچ لیں کہ صرف آپ کے ساتھ یہ نہیں ہوا ہے۔ چند دوسرے ناکام مصنفین کی ناکامی کی داستان پڑھتے ہیں۔
پانچ سال تک اس کی کہانیوں کو مسترد کیا جاتا رہا۔ آج صرف شیکسپئیر اس سے زیادہ بکنے والا مصنف ہے۔
اس کے لٹریری ایجنٹ کو بارہ پبلشر نے ‘یہ ناقابل اشاعت تحریر ہے’ کا خط تحریر کیا۔ حتی کہ بلومزبری کے ایک ایڈیٹر کی آٹھ سالہ بیٹی نے پوری کتاب پڑھنے کا مطالبہ کیا۔ ایڈیٹر نے کتاب شائع کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن مصنفہ کو لکھا کہ کھانے کمانے کے لیے کچھ اور دھندا دیکھو۔ اور اس طرح ایک آٹھ سالہ لڑکی نے وہ دیکھ لیا جو بارہ اشاعتی ادارے نہ دیکھ سکے اور ہیری پوٹر اینڈ دا فلاسفرز سٹون شائع ہو گئی۔ اس سیزیز کی ساڑھے پینتالیس کروڑ سے زاید کتابیں بک چکی ہیں۔ جے کے رولنگ۔
“یہ بہت برے انداز میں لکھی گئی ہے”۔ مسودہ مسترد ہو گیا۔ دوسرے پبلشر کے پاس گیا۔ اور دا ڈاونچی کوڈ کی آٹھ کروڑ سے زیادہ کتابیں بکیں۔ ڈان براﺅن۔
“میرا مشورہ ہے کہ اس مسودے کو پتھر کے نیچے ہزار سال کے لیے دفن کر دیا جائے”۔ سارے اہم پبلشروں نے اسے مسترد کر دیا۔ مصنف فرانس گیا جہاں ایک پبلشر نے پانچ ہزار کاپیاں چھاپِیں جو ہاتھوں ہاتھ بکیں۔ آج وہی سارے پبلشر جنہوں نے مسودے کو مسترد کیا تھا، لولیتا کی پانچ کروڑ سے زاید کاپیاں چھاپ چکے ہیں۔ نابوکوف۔
“مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں ہو رہا ہے کہ مصنف کیا کہنا چاہتا ہے۔ بظاہر مصنف مزاح پیدا کرنے کا امیدوار ہے”۔ پبلشر نے ناول مسترد کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ کیچ ٹوینٹی ٹو کا نام اس وجہ سے یہ ہے کہ اسے بائیسویں پبلشر نے چھاپا تھا۔ جوزف ہیلر۔
اس کی تحریروں کو آٹھ سو مرتبہ ناقابل اشاعت قرار دے کر مسترد کیا گیا اور پھر اس کی ایک تحریر فروخت ہوئی۔ اس کی کرانیکلز آف نارنیا کا ترجمہ 47 زبانوں میں ہوا اور اس کی دس کروڑ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ سی ایس لوئس
پندرہ پبلشروں نے اس کی ڈائری کو شائع کرنے سے انکار کیا۔ ایک نقاد کا تبصرہ کچھ یوں تھا کہ “میرے رائے میں تو اس لڑکی کے کچھ ایسے خاص احساسات نہیں ہیں جس کی بنیاد پر یہ کتاب سرسری دلچسپی کے درجے سے بلند ہو پائے”۔ لیکن ڈھائی کروڑ سے زیادہ خریداروں کا خیال اس سے مختلف تھا۔ این فرینک
“مجھے افسوس ہے مسٹر کپلنگ کے آپ انگریزی زبان کے استعمال سے نابلد ہیں “۔ سان فرانسسکو ایگزامنر کے اس تبصرے کے باوجود کپلنگ کی تحریروں اور ان پر بننے والی فلموں کے کروڑوں مداح ہیں۔ رڈیارڈ کپلنگ
اینیمل فارم پر ایک پبلشر کا تبصرہ کچھ یوں تھا “امریکہ میں جانوروں کی کہانیاں فروخت کرنا ناممکن ہے”۔ مشہور شاعر ٹی ایس ایلیٹ نے فیبر اینڈ فیبر کے سربراہ کی حیثیت سے اس پر کچھ یوں تحقیری نظر ڈالی “ٹراٹسکی کی سیاسیات”۔ آج اسے ادب کی اہم ترین کتابوں میں سے مانا جاتا ہے۔
ایک پبلشر نے ان محترمہ کو یہ مشورہ دیا “آپ بس ٹیچنگ ہی کریں”۔ آج ایک سو پچاس سال بعد بھی لوئسا کی دا لٹل وومن مسلسل پرنٹ ہو رہی ہے۔ لوئسا ایلکوٹ
“دا وار آف دا ورلڈز” پر ایک ایڈیٹر کا تبصرہ کچھ یوں تھا “کبھی ختم نہ ہونے والا ڈراونا خواب۔ میری رائے میں اس کے بارے میں مناسب فیصلہ یہ ہے کہ آپ اس ناگوار کتاب کو مت پڑھیں”۔ لیکن عوام کا فیصلہ مختلف نکلا۔ لاکھوں لوگوں نے یہ کتاب پڑھی، اس پر ڈرامے لکھے گئے اور اس پر فلمیں بنیں۔ ایچ جی ویلز۔
ان سب نے حوصلہ نہیں ہارا۔ لکھنے کا شوق تھا تو یہ لکھتے رہے۔ اور آج یہ دنیائے ادب کے عظیم ناموں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).