ہندوستان کے پہلے سیکولر وہابی ابوطالب خان کی روداد سفر
برصغیر میں اسلامی جدیدیت پسندی کے عنوان سے ابو طالب خان ایک بہت بڑا نام ہے ۔ ریاست اودھ سے جڑا ہوا تھا ۔ ١٧٩٩ سے ١٨٠٣ کے درمیان اس نے ہندوستان سے برطانیہ کا سفر کیا، وہاں کے تمدن کو سمجھا اور اپنے مشاہدات پر مبنی ایک کتاب لکھی ۔
دلچسپ بات یہ کہ جس زاویے سے وہ مغرب کو اس وقت دیکھ رہا تھا کم و بیش ہم بھی اسی زاویے سے دیکھتے ہیں ۔
زوال کی پیش گوئی سے وہ بھی نہیں چوکا حالانکہ خود ایک مقبوضہ ریاست کا شہری تھا ۔ زوال کی وجہ اس کے خیال میں خواہش زر اور دنیاوی معاملات میں بہت زیادہ دلچسپی اور مصروفیت تھی ۔
شخصی آزادی کا نظام جو پورے معاشرے پر چھایا ہوا تھا اس کے لئے حیران کن رہا کہ یہ کیا بلا ہے ۔
نظام انصاف کی تعریف کی مگر وکیلوں کو ناپسند کیا۔ حیران تھا کہ برطانیہ میں ہر ہر فرد کو جیوری سے مقدمہ کا فیصلہ کروانے کا حق حاصل ہے ۔
کلب ڈانس مجسمہ سازی آرٹ تھیٹر سمیت ہر چیز پر خوش تھا ہاں مگر اسے بھی برطانوی فحاشی پر بڑا اعتراض تھا ۔
صنعتی انقلاب کو پسند کیا اور اسے برطانیہ کی طاقت کی اصل وجہ قرار دیا ۔ یاد رہے یہ ١٧٩٩ سے ١٨٠٣ کے درمیان کی بات ہے ہمارے ہاں تو یہ افسانے ہیں کہ برطانیہ نے یہاں سے دولت لوٹ کر اپنے ملک میں صنعتی انقلاب برپا کیا تھا ۔
ہندودستان میں میرے خیال میں پہلا آدمی ہے جس نے یک زوجگی کی تعریف کی مگر یہ کہنا نہیں بھولا کہ ساری دنیا میں بہترین خاندانی نظام ہمارا ہے جس میں مرد سردار ہے اس طرح یہ سرداری نظام ہے ۔ مطلب یہ کہ برطانیہ میں مردوں اور عورتوں کی مساوات کو پسند کیا مگر ہندوستان کے لئے نہیں ۔
جب پہلی بار پارلیمان کے اجلاس میں گیا تو اپنا مشاہدہ اس طرح سے بیان کرتا ہے \” طوطوں کی دو ٹولیاں الگ لگ آموں کے درخت پر بیٹھی ایک دوسرے پر لعن طعن کر رہی تھیں \”
دلچسپ بات یہ کہ وہ جہاں بھی گیا اس نے خود کو سلطنت برطانیہ کا شہری اور خود کو اس کے تحفظ میں سمجھا ۔ ترکی میں برطانیہ کے سفیر لارڈ الگن نے اسے بادشاہ وزیراعظم اور حکمران طبقہ سے ملوایا ۔ برطانیہ سے نیا نیا آ کر بھی اس نے ترکوں کی خوب ملامت کی کہ اس کی خواتین کیفے میں مردوں کے ساتھ بیٹھ کر قہوے پیتی ہیں اسے اس بے حیائی پر سخت تکلیف تھی ۔
اب آتے ہیں دلچسپ ترین بات کی طرف ۔ اس نے اپنی کتاب میں ہندوستانی مسلمانوں کو سیکولر ازم کے حق میں مشورے دیئے ہیں کہ بھیا قانون اور مذہب علیحدہ علیحدہ چیز ہے اور اسے علیحدہ رکھو ۔ مگر اسی کتاب میں محمد بن عبدالوہاب کی وہابی تحریک کے محاسن گنوائے ہیں اور خود کو ایک اعتبار سے وہابی کہلوانا پسند کیا ہے ۔ یہ پڑھ کر میرے منہ سے شوں شوں شوں کی آوازیں آ رہی ہیں ۔
دلچسپ کتاب ہے ضرور پڑھیں : ماثر طالبی فی بلاد افرنجی ۔ میں تو انگریزی ترجمہ پڑھ رہا ہوں ۔ Travels in Asia, Africa and Europe.
- حماس اسرائیل قضیے میں چند گزارشات - 19/05/2021
- مولانا طارق جمیل سے اختلاف کس بات کا ہے؟ - 03/05/2021
- کیا اسٹیٹ بنک کی آزادی ضروری تھی؟ - 28/03/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).