زندگی مردہ باد، شہادت زندہ باد


\"sidra\"مذمت؛ بیانات؛ الزامات بےشمار۔ ایک جانب دشمن کی کمر ٹوٹنے کے بڑے بڑے دعوے، دوسری جانب کوئٹہ پولیس ٹریننگ دھماکے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو دل پر حملہ، ناقابل تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے اسے پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف ایک منظم سازش قرار دیا جائے گا۔ اب تو ممکنہ بیانات، مذمتیں اور الزامات حفظ ہوچکیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کے آن ائیر ہونے سے قبل ہی، نیوز روم میں جس جس نے جو جو پیش گوئی کی، من و عن وہی چودھری صاحب فرماتے چلے گئے۔ اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایک ہی پریس ریلیز یا مذمتی بیان رکھا ہوتا ہوگا، جس پر صرف تاریخ، واقعہ اور تعداد کی ہیر پھیر کر کے فورا حکومت، اپوزیشن اور آئی ایس پی آر کی جانب سے شائع کردیا جاتا ہے۔ معروف صحافی وسعت اللہ خان کے بقول، صاحب! ٹوٹی کمر کے دہشت گردوں کا اب ایکسرے ہی جاری کردیں۔ ان کا سوال ویسے درست ہے، ہر بار ایک بڑا دعوی کردیا جاتا ہے کہ دشمن کی کمر ٹوٹ چکی ہے، لیکن نجانے یہ دشمن کہاں سے اتنی طاقت لے کر آجاتا ہے، اور کئی گھروں کی کمر توڑ کر واپس ہوتا ہے۔ یوں تو کوئٹہ اتنا بڑا شہر نہیں اور حالات کی سنگینی کے سبب ہائی الرٹ پر بھی رہتا ہے، لیکن دشمن پھر بھی آتا ہے، بڑی کاروائی کرتا ہے، اور کامیابی سے اپنا ہدف حاصل کرلیتا ہے۔ بعد میں حکومت وہی پرانا مذمتی بیان لفظو ں کے ہیر پھیر کے ساتھ شائع کر کے بر ی الذمہ ہوجاتی ہے۔

واضح رہے کہ آئی جی بلوچستان اس یوم دفاع پر، اسی پولیس ٹریننگ سینٹر کی دیواریں اونچی کروانے کا کہہ چکے تھے۔ ان کی درخواست پر عمل تاخیر سے ہوا، لیکن دشمن کا وار کامیاب رہا۔ دشمن کاری ضرب لگا کر کامیاب رہا۔ ہم اب اسی میں الجھے رہیں گے، کہ یہ ہاتھ بیرونی تھا، یا اندرونی؟ سوال تو یہ ہے کہ سہولت کاری کا مقدمہ آپ کس کے خلاف درج کریں گے؟ کچھ دیر قبل غیض و غضب سے بھرپور تقریر کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اس حملے پر بات کرنے کے بجائے شکوہ شکایات کا انبار لگا دیا۔ ایک لمحے کو محسوس یہ ہوا کہ وہ ملک کے وزیر داخلہ نہیں اپوزیشن لیڈر کے طور پر بات کر رہے ہیں۔ ان کا فرمانا تھا کہ اس میں ملک انصاف صرف نعروں کی حد تک ہے۔ لوگ لاشیں اٹھا کر تھک چکے ہیں۔ جو لوگ غیر ذمہ دار ہیں انھیں فارغ کیا جانا چائیے۔ رات جب یہ موضوع گرم ہوگا، تو بتایا جائے گا کہ ایجنسیوں کو حملے کی پیشگی اطلاح تھی، مرنے والوں کو لاکھوں کے چیک تھما دینے پر بھی اس وقت غورو فکر جاری ہوگا۔ لواحقین سے بات کرنے اور ان کے آنسووں کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر نے لیے میڈیا بیتاب ہوگا۔ اے سی کمروں میں بیٹھے میڈیا مالکان کی آواز میں گھن گرج ہوگی کہ کہو رپورٹر سے کوئی ایکسکلوزو نیوز لائے۔ جب کہ آج ساٹھ گھرانے ہیں ہی ایکسکلوزو۔ ہر ماں کا دعوی ہوگا کہ اس کا لعل جیسا کوئی نہ تھا، کوئی اپنے خواب بتائے گا، کوئی اپنے بیٹے کے آخری بات چیت کا حوالہ دے گی۔ کوئی بہن یا بھائی اپنے بھائی کا آخری ٹیکسٹ مسیج سنبھالے بیٹھا ہوگا۔ ہر گھر کی الگ کہانی ہوگی، ہر جانب ایک \’ایکسکیوز\’ ملے گا۔ میڈیا کو منجن ملے گا، حکومت کو رونے کا جواز اور دھرنا روکنے کا ایک بہانہ، دھرنا کرنے والوں کو ایک اور قصہ، تاریخ میں ہماری مظلومیت کی ایک اور داستان رقم ہوگی۔ ٹوئیٹر پر ٹاپ ٹرینڈز میں آج ہم پھر شامل ہوں گے۔ شام اور رات کی پرائم ٹائم خبر نامے میں سب سے زیادہ روتی ہوئے ماں ہیڈ لائن میں آنے کی حق دار ٹھہرے گی۔ ٹاک شوز میں آج کا گرما گرم موضوع یہ حملہ ہی ہوگا، اور انتہائی بد تہذیب دراز زبان رکھنے والے مہمان ہوں گے۔

لیکن ان سب میں میرا ایک سوال ہے ہم کب تک زبردستی کی شہادتوں کے تمغے اپنے سینے پر لگاتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہماری قربانیاں ہم سے پوچھے بنا دی جاتی رہیں گی؟ اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے میں دہشت گردی کی نذر ہوجاوں اور میری لاش پر میری ماں بین ڈال رہی ہو پوچھ رہی ہو کہ میری بیٹی کو کیوں مارا گیا؟ اس نے کیا کیا تھا؟ اس کو کس بات کی سزا دی گئی؟ اور اسی اثنا میں کوئی سیاستدان یا حکومت کا نمائندہ تعزیت کے بہانے فوٹو سیشن کروانے آئے اور میرے گھر کے باہر یہ کہہ جائے کہ ہمیں سدرہ ڈار کی شہادت پر فخر ہے ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی، اور اس لائن کو لے کر میڈیا کا ایک نمائندہ میری ماں کے سامنے مائیک رکھ کر سوال یہاں سے شروع کرے، کہ آپ ایک شہید کی ماں ہیں اپنی بیٹی کی شہادت پر کیا کہیں گی۔ یقین جانیے باہر کا منظر تبدیل ہوچکا ہوگا۔ اب میرا قتل شہادت کے درجے پر جا پہنچا ہوگا۔ لیکن میرا بے سدھ جسم، جس پر لاتعداد زخم ہیں، ان کی تکلیف کا اب احساس بھی نہیں، لیکن میری روح چلا چلا کر کہہ رہی ہوگی، کہ سنو میں شہید نہیں ہوئی۔ مجھے مارا گیا ہے۔ مجھے قتل کیا گیا ہے۔ مجھ سے میرے خواب چھینے گئے ہیں۔ مجھ سے جینے کا حق چھینا گیا ہے۔ خدارا سنو میں مرنا نہیں چاہتی تھی، جھوٹ نہ بولو میری ماں کے جذبات اور احساسات کا گلا مت گھونٹو۔ اسے وہ بولنے دو جو اس کی بیٹی کی روح کہہ رہی ہے۔ اسے وہ سچ کہنے دو، جو تم سننے سے ڈرتے ہو۔

آج ساٹھ گھرانوں میں ارواح کا ماتم ہوگا، جو نہ میڈیا کو سنائی دے گا، نہ حکومت کے نمائندوں کو، صرف شہادت با نصیب کا راگ آلاپا جائے گا، اور اسے قوم کے لیے ایک ایسی قربانی تصور کیا جائے گا، جسے رائیگاں نہ جانے کی تسلی دے کر ہمیشہ کے لیے اس باب کو بند کردیا جائے گا۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments