وزیراعظم سکیورٹی رسک اور کالعدم تنظیمیں آزاد؟
وزیراعظم کے سلامتی امور کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے آج امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات میں واضح کیا ہے کہ منگل کی رات کوئٹہ پولیس اکیڈمی میں ہونے والے دہشت گرد حملہ کی منصوبہ بندی بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی ’این ڈی ایس‘ نے کی تھی۔ اس حملہ میں 61 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ 117 زخمی ہوئے ہیں۔ حملہ کے وقت اکیڈمی میں 400 کے لگ بھگ کیڈٹ موجود تھے۔ وزیراعظم کے سلامتی امور کے مشیر نے واضح کیا ہے کہ بھارت اور افغانستان کی ایجنسیاں پاکستان میں ’سافٹ ٹارگٹس‘ کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے ایف سی بلوچستان نے بتایا تھا کہ حملہ آور افغانستان سے آئے تھے اور وہ مسلسل افغانستان میں اپنے سہولت کاروں کے ساتھ رابطہ میں رہے تھے۔ پاکستانی حکام اس حملہ کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی پر عائد کر رہے ہیں جو پنجاب سے شروع ہونے والے فرقہ پرست گروہ لشکری جھنگوی کا ہی نام ہے لیکن پنجاب میں اس گروپ کی قیادت کو نشانہ بنا کر ختم کیا گیا ہے۔ اس حملہ کی ذمہ داری شام و عراق میں سرگرم عمل دہشت گرد گروپ داعش نے قبول کی ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ داعش بدستور پاکستان اور افغانستان میں موثر ہے کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کے متعدد فرقہ پرست گروہوں نے اس علاقے میں داعش کو مستحکم کرنے کے کام کا آغاز کیا ہے۔
خبروں کے مطابق کوئٹہ میں وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقدہ ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی اس حوالے سے معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ اس اجلاس میں مقامی سول اور عسکری قیادت کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی تھی۔ اجلاس میں صوبے میں کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ تاہم اس بارے میں صورتحال بدستور غیر واضح ہے کیونکہ کالعدم تنظیموں کا معاملہ عرصہ سے تنازعہ اور اختلاف کا سبب بنا ہوا ہے۔ پاکستان نے متعدد انتہا پسند گروپوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن وہ نئے ناموں سے تنظیمیں بنا کر ملک بھر میں سرگرم عمل ہیں۔ فلاحی منصوبوں اور دینی مدرسوں کے ذریعے ان مذہبی لیڈروں اور تنظیموں نے معاشرے میں دسترس بھی حاصل کر رکھی ہے۔ اس طرح انہیں کافی حد تک مقبولیت بھی حاصل ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ جماعت الدعوۃ جیسے گروہوں کی اسی حیثیت کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کرتی ہے۔ دفاع پاکستان کونسل میں شامل متعدد مذہبی گروہ کشمیر پر حکمت عملی کے حوالے سے فوج کے موقف کو سامنے لاتے ہیں۔ یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ ان گروہوں کو بعض عسکری حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو، اس سوال پر فوج اور سول حکومت کے درمیان حکمت عملی کے اعتبار سے اختلاف ضرور موجود ہے۔ اس کا اندازہ 6 اکتوبر کو ڈان میں شائع ہونے والی خبر سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ میں اس کے سوا کوئی نئی بات نہیں تھی کہ وزارت خارجہ کے سیکرٹری اور پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کھل کر کالعدم اور خطرناک مذہی گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کی بات کی تھی اور ڈی جی آئی ایس آئی سے کہا تھا کہ صوبائی حکومتیں جب بھی ان کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہیں، انٹیلی جنس ادارے بیچ میں آ جاتے ہیں۔
فوج کی طرف سے شدید احتجاج کے بعد حکومت کو اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے من گھڑت قرار دینا پڑا۔ فوج کی کور کمانڈرز کانفرنس نے پریس ریلیز میں اس خبر کی اشاعت کو قومی سلامتی کے خلاف قرار دیا تھا۔ یہ بات ہنوز ناقابل فہم ہے کہ حکومت تک احتجاج پہنچانے اور وزیر داخلہ کی طرف سے اس خبر کو اخبار تک پہنچانے والے عناصر کا سراغ لگانے کےلئے تحقیقات کروانے کا اعلان کرنے کے باوجود کور کمانڈرز کانفرنس نے اس کا ذکر کرنا ضروری کیوں سمجھا تھا۔ اس کی دو وجوہات قیاس کی جا سکتی ہیں۔ اول یہ کہ حکومت اور فوج خبر کے اخبار تک پہنچنے کے حوالے سے دو مختلف رائے رکھتی ہیں۔ اگرچہ دونوں اپنے طور پر خبر کو من گھڑت قرار دیتے ہیں۔ حکومت کا موقف تھا کہ اخبار کے رپورٹر سیرل المیڈا نے یہ خبر اخبار کے دفتر میں بیٹھ کر اپنے تخیل اور ناقص معلومات کی بنا پر گھڑی تھی۔ اسی لئے المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا تھا۔ تاہم کور کمانڈرز کی طرف سے صحافی کو بری الذمہ قرار دیئے جانے کے بعد وزیر داخلہ کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا تھا۔
اس کے مقابلے میں فوج کا موقف ہے کہ یہ خبر حکومت میں شامل بعض عناصر نے بدنیتی کی بنیاد پر تیار کی اور پھر اسے اخبار تک پہنچایا گیا۔ اس لئے فوج حکومت سے توقع کر رہی ہے کہ وہ کابینہ میں شامل کسی ایسے فرد کو ذمہ دار قرار دے جس کے ذریعے یہ خبر اخبار تک پہنچائی گئی۔ اس طرح فوج صحافی اور اخبار پر خبر کی اشاعت کی ذمہ داری عائد کرنے کی بجائے حکومت کو اس فاؤل پلے کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ حکومت کی تردید اور تحقیقات کے وعدہ کے باوجود فوج کی ناراضگی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اسلام آباد کے حلقوں کے مطابق فوج اس الزام میں کسی معتبر وزیر کی ’ قربانی‘ مانگتی ہے۔ لیکن سیاسی مسائل میں گھرے وزیراعظم نواز شریف کی مجبوری یہ ہے کہ اگر وہ تحریک انصاف کی دھمکیوں اور پیپلز پارٹی کے نخروں اور اداؤں کے موسم میں کسی وزیر کو یہ خبر لیک LEAK کرنے کے الزام میں کابینہ سے علیحدہ کرتے ہیں تو انہیں اپوزیشن کا یہ الزام برادشت کرنا پڑے گا کہ حکومت نے خود خبر اخبار تک پہنچائی تھی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن پارلیمنٹ میں چوہدری نثارعلی خان اور دیگر سرکاری عہدیداروں پر اس کا الزام لگا چکے ہیں۔ عمران خان کے نزدیک تو ملک میں رونما ہونے والا ہر برا کام نواز شریف سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔
ان حالات میں ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کا سارا سیاسی ماحول فوج کو معصوم قرار دے کر حکومت کو مطعون کرنے میں مصروف ہے۔ میڈیا پر ٹاک شوز کے ذریعے اس ’خطرناک‘ خبر پر بحث کرتے ہوئے حکومت پر نت نئے الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں۔ کسی وزیر کی علیحدگی کی صورت میں یہ معاملہ ختم نہیں ہوگا بلکہ حکومت مخالف عناصر اور سیاسی اپوزیشن کے ہاتھ میں ایک نیا ہتھیار آ جائے گا۔ کوئی یہ سوال اٹھانے کا حوصلہ نہیں کرتا کہ حقائق پر مبنی ایک خبر کو فوج کس بنیاد پر ناقص اور من گھڑت قرار دے رہی ہے۔ اور اسے ملک کی سلامتی سے کیوں کر جوڑا جا سکتا ہے۔ ملک میں جمہوری ادوار میں سیاستدان ایک دوسرے کا سر پھوڑنے کی تو پوری کوشش کرتے ہیں لیکن فوج کی سینہ زوری اور بعض صورتوں میں غلط تقاضوں اور مطالبوں پر تابعداری سے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ یہ سارے عناصر بظاہر ملک میں جمہوریت کے فروغ اور منتخب حکومت کے تسلسل کی بات کرتے ہیں لیکن فوج کے مقابلے میں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ بلکہ عام طور سے اس رویہ کا اظہار سامنے آتا ہے کہ اگر فوج کا اشارہ ہو جائے تو شاید اقتدار کی دیوی ان کے گھر مہمان ہو جائے۔
حکومت اور فوج کے اس اختلاف کی وجہ سے کوئٹہ حملہ کے بعد وزیراعظم کی طرف سے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر فوج اسے مسئلہ ہی نہیں سمجھتی یا عسکری حلقے بعض انتہا پسند مذہبی گروہوں کو بدستور ’اثاثہ‘ سمجھنے پر اصرار کر رہے ہیں تو کون، کس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ یہ سوال بنیادی اور ہنگامی نوعیت کا ہے۔ ملک میں جمہوری اداروں کے تحفظ کی بات کرنے والے سب سیاسی لیڈروں سے تقاضہ تو یہ ہونا چاہئے کہ وہ فوری طور پر پارلیمنٹ کا اجلاس طلب کریں اور دو ٹوک الفاظ میں ذمہ داری کا تعین کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات اور طریقہ کار کے بارے میں فیصلے کریں۔ لیکن پاکستان میں نعرے اور عملی اقدام میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سیاستدان فوج کی امور مملکت میں مداخلت کو مسترد کرتے ہیں لیکن اپنے قول و فعل سے اسی کے ہاتھ اور پوزیشن مضبوط کرتے ہیں۔
بعض سیاسی گروہ تو براہ راست فوج کو حکومت کا تختہ الٹنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن جو اس رویہ کو مسترد بھی کرتے ہیں، وہ بھی فوج کی کارکردگی کے بارے میں کوئی سوال اٹھانے کا حوصلہ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاستدانوں کی غلطیوں اور کرپشن کے قصے تو پوری قوت سے بیان کئے جاتے ہیں لیکن فوجیوں کی کرپشن ، غلط فیصلوں یا حکومت کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کرنے والے رویوں کی بات سرگوشی میں کرنے سے بھی گریز کیا جاتا ہے۔ ان میں ایک معاملہ سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی ملک سے روانگی کا بھی ہے۔ ان پر بے نظیر اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے الزامات عائد ہیں اور ایک خصوصی عدالت میں ان کے خلاف آئین سے بغاوت کا مقدمہ بھی چل رہا ہے۔ نواز شریف کی حکومت اپنی تمام تر خواہش کے باوجود انہیں کٹہرے میں لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بلکہ فوج کے دباؤ کی وجہ سے یا اسے راضی رکھنے کےلئے حکومت کو خود ہی پرویز مشرف کو ملک سے جانے کی اجازت دینا پڑی۔ اس معاملہ میں سپریم کورٹ نے بھی حتی المقدور’ تعاون‘ فراہم کیا ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کے موجودہ چیف جسٹس ملک کی جمہوری حکومت کو بادشاہت قرار دینے کی قلندرانہ جرات رکھتے ہیں۔ لیکن وہ فوج کی ناجائز خواہشات کی تکمیل میں رکاوٹ بننے کا حوصلہ شاید نہ کر سکیں۔
سب جانتے ہیں اور پرویز مشرف برملا اس کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ فوج کے سابق سربراہ ہونے اور اپنے ادارے کی اعانت کی وجہ سے ملک سے ’ فرار‘ ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اب وہ پوری دیدہ دلیری سے دنیا بھر کے ملکوں میں جاتے ہیں اور سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن ملک میں جب بھی اس بے قاعدگی کی بات ہوگی تو نہ تو سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلہ پر تنقید ہوگی اور نہ ہی فوج کے ناجائز دباؤ کا حوالہ دیا جائے گا۔ بلکہ ملک کی حکومت کو ہی نشانہ بنایا جائے گا۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے بھی یہی رویہ صورتحال کو پیچیدہ اور مشکل بنانے میں کردار ادا کر رہا ہے۔ سیاستدان حکومت پر تو الزامات کی بارش کریں گے لیکن فوج سے کبھی سوال نہیں کریں گے کہ جن گروہوں کو درپردہ اعانت کے ذریعے برس ہا برس تک پالا پوسا گیا تھا، کیا وہ اب ان کے خلاف کارروائی کرنے اور ان کے زہریلے دانت نکالنے کےلئے تیار ہے۔ ایک ہی راگ ہے جو سارے سیاستدان جن میں حکومت کے ارکان بھی شامل ہیں ۔۔۔۔۔۔ پوری دلجمعی سے الاپتے ہیں کہ ضرب عضب میں شاندار کامیابی حاصل کرلی گئی ہے۔ بس حکومت قومی ایکشن پلان پر عمل کو یقینی بنائے۔
قومی ایکشن پلان کے 20 نکات سے دو مقاصد حاصل کرنا مقصود ہے۔ ایک یہ کہ دہشت گرد گروہوں کو فراہم ہونے والے مالی وسائل کا راستہ روکا جائے۔ اس مقصد کےلئے کرپشن کا خاتمہ اور سرکاری پوزیشن کے ذریعے ناجائز وسائل ہڑپ کرنے والوں کا سراغ لگانا ضروری ہے۔ دوسرا اہم مقصد مدرسوں کی تطہیر ، انتہا پسند عناصر پر کنٹرول اور نصاب میں سے ناقابل قبول مواد نکالنے کےلئے اقدام کرنا ہے۔ کرپشن کے خلاف قدم اٹھایا جائے تو حکومت اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے ماتھے پر پسینہ آتا ہے اور وہ اس کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ مدرسوں کے خلاف کارروائی کی بات ہو تو طاقتور مذہبی گروہ پھن نکال کر حکومت پر غرانے لگتے ہیں۔ اور حکومت بہرطور ان کی بات ماننے اور اپنے مطالبوں سے دستبردار ہونے پر راضی ہو جاتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال فورتھ شیڈول میں شامل مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی حکومتی کوششوں کا انجام ہے۔ وزیر داخلہ کو خود ہی اپنے کئے ہوئے فیصلہ پر خط تنسیخ پھیرنا پڑا۔
وہ سارے مذہبی لیڈر جو یہ سہولت حاصل کرنے کےلئے گزشتہ ہفتے دو گھنٹے تک وزیر داخلہ سے مشاورت کرتے رہے، جمعہ کو اسلام آباد میں اپنی قوت کا مظاہرہ کریں گے ۔ یہ خبریں بھی عام ہیں کہ دفاع پاکستان کونسل میں شامل جماعتیں تحریک انصاف کے دھرنے کے دوران حکومت کو عاجز کرنے کےلئے اپنی قوت کا مظاہرہ کر سکتی ہیں۔ تحریک انصاف کے لیڈر شاہ محمود قریشی نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے لال مسجد یا دفاع پاکستان کونسل کو 2 نومبر کو اپنے احتجاج میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی۔ لیکن ماضی میں دفاع پاکستان کونسل کے اسٹیج سے تحریک انصاف کے لیڈر یکساں مقاصد حاصل کرنے کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف کے سب سے بڑے حلیف شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ تو باقاعدہ اس کا حصہ ہے اور مولانا سمیع الحق اس کونسل کے صدر ہیں۔ یہ وہی سمیع الحق ہیں جن کے زیر اہتمام چلنے والے مدرسے کو خیبر پخونخوا کی حکومت 30 کروڑ روپے کی مالی امداد دے چکی ہے۔ تحریک انصاف نے اس خطرناک گروہ کو براہ راست نہ بھی مدعو کیا ہو تو بھی اگر وہ اپنے ’جوشیلے جنگجوؤں‘ کے ساتھ 2 نومبر کو تحریک انصاف کے کارکنوں کے شانہ بشانہ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کےلئے میدان میں نکلتے ہیں تو عمران خان یا شاہ محمود قریشی کو کیا اعتراض ہوگا۔
ان حالات میں کون ان عناصر کا سراغ لگائے اور کارروائی کرنے کا عزم و اقدام کرے جو اپنے کردار اور تعلیم کے ذریعے پاکستان میں اس مزاج کو پروان چڑھا رہے ہیں جو ہر تھوڑی مدت بعد کسی نہ کسی شہر یا ادارے پر حملہ آور ہو کر خون کی ندیاں بہاتا ہے۔ ممکن ہے ان لوگوں کو وسائل ، تربیت اور سہولتیں ’را‘ یا ’این ڈی ایس‘ فراہم کرتی ہوں لیکن گولیاں چلانے اور دھماکے کرنے والے ہاتھ پاکستان میں موجود لوگ اور تنظیمیں ہی فراہم کرتی ہیں۔
ایسے میں عمران خان وزیر اعظم کو اور خواجہ آصف تحریک انصاف کے قائد کو ملک کےلئے سکیورٹی رسک قرار دے کر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسی چھچھوری سیاسی حرکتوں سے نہ یہ ملک محفوظ ہوگا اور نہ یہاں جمہوریت پروان چڑھے گی۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).