کلاسیکل موسیقی میں ابھی کچھ رمق باقی ہے!


\"muhammadیوں تو پاکستان میں زندگی کا ہر شعبہ ہی زوال پذیر ہے لیکن جوحشر نشر کلاسیکل موسیقی کا ہوا ہے اسکی نظیر کہیں اور نہیں ملتی۔ چند روز پہلے اپنے دو دوستوں محمد اجمل (پرائڈ آف پرفارمنس طبلہ نواز) اور محمد نفیس (ستارہ امتیازستار نواز) سے موسیقی کے زوال پر ہی گفتگو ہو رہی تھی۔ بقول ان کے پاکستان میں پیشہ ور اور شوقین ستار نواز دس سے اوپر اورطبلہ نواز ڈھائی سو سے اوپر نہیں۔ ایسے طبلہ نواز جو تلواڑہ یا جھمرہ لگا سکیں پانچ یا چھ سے زیادہ نہیں۔ خود اجمل نے آخری بارتلواڑہ بارہ سال قبل لگایا تھا!

 پورے اسلام آباد اور راولپنڈی میں طبلے کی تین دکانیں ہیں۔ ان میں بھی کام کا کاریگر ایک ہی ہے۔ ہارمونیم کی ٹیوننگ کیلئے اب لاہور یا گوجرانوالہ جانا پڑتا ہے ۔ پورے ملک میں ایک بھی سارنگی والا ایسا نہیں جو گویے کے پیچھے چپک کر چل سکے۔ سنتور، جلترنگ ، دلربا اور وچتر ویناایک طویل عرصے سے ’قبر‘ میں آرام کر رہے ہیں۔ ملک کے واحد سرود نواز اسد قزلباش یورپ میں مقیم ہیں۔ ان کے واحد شاگرد ہمارے چھوٹے بھائی شیراز احمد ہیں جو پیشہ کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہیں ۔ ابھی اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ’سرود نواز‘ کہلوائیں۔ بانسری جیسا سستا اور عوامی ساز بجانے والے بھی چند ہی ہیں۔ بڑے بڑے خاں صاحبوں کی اولادیں انتہائی نالائق نکلیں۔ ان کے گانے میں بلیوں کی لڑائی ، ہاتھی کی چنگھاڑ ، بکرے کے منمناہٹ یا غراروں کی آواز کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ یوٹیوب پر یہ خود ہی جعلی اکاﺅنٹس بنا کر اپنے واہییات گانے کی تعریف کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بزرگوں کا گانا سن کر زبان سے بے اختیار ’سبحان اللہ ‘ نکلا کرتا تھا۔ مگر ان کا سنگیت سن کر فوراً لاحول کا ورد کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں اگر کانوں کو کوئی اچھی آواز ٹکرا جائے تو طبعیت اش اش کر اٹھتی ہے۔ آج ایسی تین آوازوں کا ذکر ہے۔

\"akbar-ali-with-ally-adnan-on-tabla\"    اکبر علی کا تعلق لاہور سے ہے۔ان کے نانااستاد غضنفر حسین کلاسیکل گائیک تھے اوردادا استادفضل محمد قوال تھے۔ یہ استاد مبارک علی کے بھتیجے اور شاگرد ہیں۔ مبارک علی امیر خاں صاحب کے روحانی شاگرد ہیں اور ان کی گائیکی کا اندازاپنے حساب کتاب سے اپناتے ہیں۔ ان کی کامیابی کا ثبوت اکبر ہیں جو اپنے استاد کی طرح ہی امیر خاں صاحب کے انداز کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ انتہائی سکون سے گاتے ہیں اور سروں کی سلسلہ وار بڑھت کھنڈ میرو کے قاعدے کلیوں کے حساب سے کرتے ہیں۔ سریلے اور رسیلے ہیں۔ گانے میں روح داری ہے۔ اس لنک میں راگ ایمن گا رہے امیر خاں صاحب کے انگ میں:

https://www.youtube.com/watch?v=npFyNgWh6VE

اکبر کا آواز ساز کے بغیر بھی رسیلا ہے۔ بہت کم ہوتا ہے ایسا۔ ساز خاص طور پر ہارمونیم گانے والے کی کئی خامیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں مگر اس لنک میں اکبر ہمارے دوست علی عدنان جو کہ ایک مشہور لکھاری ہیں، کے گھر پر بغیر کسی ساز کے گا رہے ہیں اور محفل اپنا رنگ جما رہی ہے

: https://www.youtube.com/watch?v=kVM8YpyZk9M

بقول علی، اکبر پاکستان کے بہترین ٹھمری گانے والوں میں سے ایک ہے۔ چونکہ اس کی اپنی طبیعیت انتہائی حساس ہے، اسی لئے یہ ٹھمری کے احساسات بہت خوبی سے\"arshad-1\" نمایاں کرتا ہے۔ اسے ہدایت، رہنمائی، حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تا کہ یہ اپنے اندر چھپے فن کو مزید باہر لا سکے۔ معاشرہ بہت بدقسمت ہو گا اگر اکبر کو پروموٹ نہ کر سکا۔

 دوسرے فنکار ارشد علی خان ہیں۔ ان کا تعلق کرانہ گھرانے سے ہے اورمسکن کلکتہ ہے۔ موسیقی کی تعلیم اپنے سگے ماموں استاد مشکور علی خاں صاحب سے لی جنہیں بھارتی سرکار نے حال ہی میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا۔ کرانہ گھرانے کی پاکستان میں واحد نمائندگی ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم نے کی۔ ان کی وفات کے بعد کرانہ بھی پاکستان میں مر گیا۔ پر بھارت میں کرانہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ عروج پا رہا ہے۔ ارشد جس پختگی سے گاتے ہیں اسے دیکھ کر مشکور علی صاحب کو سلام پیش کرنے کا خیال آتا ہے کہ کیسے دیانتداری اور لگن سے انہوں نے ارشد کو تیار کیا۔ ارشد بلاشبہ کرانے کا ابھرتا ہوا ستارہ ہے۔ ارشد کے علاوہ کرانے کے ہونہار شاگردوں میں مرحومہ شانتی شرما ہیں۔ کیا گاتی تھیں! افسوس دنیا سے جلد چلی گئیں۔ نیچے ارشد اور شانتی دونوں کے لنک موجود ہیں ۔

https://www.youtube.com/watch?v=lA-nE7f39XI

https://www.youtube.com/watch?v=o18Wk9YH5TY

ارشد نے اپنے آپ کو صرف کرانے تک محدود نہیں کیا۔ ان کے ماروے کو سنیں اور آپ محسوس کر لیں گے کہ کتنا مضبوط اثر ہے ان کی گائیکی پر استاد امیر خاں صاحب اور خانصاحب بڑے غلام علی خان کا۔ دیکھیں کیسے بڑے غلام علی کا انگ گا رہے ہیں یاد پیا کی آئے میں

 : https://www.youtube.com/watch?v=xzO9ULDPqeg

مرحوم استاد سلامت علی خاں صاحب کی ایک بات یاد آ گئی۔ کہتے تھے کہ گویا اگر بڑے غلام علی خاں اور امیر خاں صاحب کو نہ دیکھے تو گویا نہیں۔ یہ بات انہوں نے ہم سے کوئی پچیس برس پہلے کی تھی۔ آج انٹر نیٹ اور یو ٹیوب کی بدولت ان کی بات کا ثبوت بھی مل رہا ہے۔ بھارت کا ہر چھوٹا بڑا گویا یا تو امیر خاں صاحب یا پھر \"arshad2\"بڑے غلام علی خاں صاحب کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔ بھارت کے مایہ ناز ستار نواز اور ہمارے دوست استاد شاہد پرویز برملا کہتے ہیں کہ ان کے ستار پر چار لوگوں کا اثر ہے۔۔استاد ولایت خاں صاحب، استاد بڑے غلام علی، استاد امیر خاں اور پلے بیک سنگر محمد رفیع صاحب۔ ہم نے پوچھا کہ باقیوں کی تو سمجھ میں آتی ہے پر رفیع صاحب۔۔۔۔ ایسا کیا ہے ان میں؟ وہ بولے کہ یہ پوچھو کہ کیا کچھ نہیں ہے رفیع صاحب میں!

 ارشد پہلے  ITC Sangeet Research Academy Kolkotaمیں سکالر تھے اور اب فیکلٹی ممبر ہیں۔ استاد مشکور علی سینئر فیکلٹی ممبر ہیں۔ ارشد تین سال کی عمرسے ہی مشکور صاحب کیساتھ کلکتہ آ گئے تھے۔ بتاتے ہیں کہ ان کے ماما (ماموں) نے انہیں تعلیم دیگر شاگردوں کی طرح گروپ میں ہی دی ہے۔ کبھی بھی کوئی چیز خاص طور سے نہیں سکھائی جو کہ صرف اپنی اولاد یا فیملی ممبر کے لئے ہو۔ اکثر گھرانے دار ایسا کرتے ہیں کہ شاگردوں کے لئے کچھ اور سبق اور اندر کے لوگوں کے لئے کچھ اور۔ مگر مشکور علی خاں صاحب کا بڑا پن دیکھیں کہ سب کو برابر نظر سے دیکھا اور ایک ہی تعلیم دی۔ مشکور علی خاں صاحب کی بیٹی اور ارشد کی کزن شہانہ علی خاں بھی کمال کا گاتی ہیں۔ اس لنک میں ان کا بہاگ ملاحظہ ہو:

ارشد کے گانے کی ایک تکنیکی اعتبار سے خوبی ہے۔ کھلے گلے کا آکار جو کہ بڑے غلام علی خاں صاحب کا خاصہ تھا۔ اسمیں سر معدے سے لگتا ہے۔ رگی گانا جو کہ \"ranita-de-1\"شام چوراسی والے گاتے ہیں کوئی گانا نہیں۔ ارشد کے گانے میں رگی نام کی کوئی چیز نہیں۔ یہ ہی خوبی اکبر کے گانے میں بھی ہے۔ ارشد نے چھوٹی سی عمر میں بڑی بڑی جگہوں پر پرفارم کیا ہے جیسے کے سوائی گندھروسمیلن جو کہ پونے میں ہوتا ہے بھیم سین جوشی کے استاد سوائی گندھرو کی یاد میں، ہربلب سنگیت سمیلن، جالندھر، ڈوور لین (Doverlane)میوزک فیسٹیول کلکتہ، اور ایسے بیشمار۔ یہ اپنی پہلی ہی پرفارمنس سے آل انڈیا ریڈیو کے اے کلاس آرٹسٹ بن گئے تھے۔ بھارت کے علاوہ کئی ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔

 تیسری آواز جس نے کلاسیکل موسیقی کو اسکی آن بان شان کے ساتھ زندہ رکھا ہوا ہے وہ ہے رونیتا ڈے کی۔ پچھلے ہفتے ہم پر راگ ایمن کے سر سوار تھے۔ ایمن تلاش کرتے کرتے رونیتا کو تلاش کر لیا۔ ان کا ایمن سنا اور دم بخود رہ گئے۔ ایسا دھواں دھار ایمن اور تان، سرگم پلٹے ایسے جیسے بچوں کا کھیل ہو۔ ایک بندش گائی کنارے کنارے کنارے دریا کشتی باندھوں رے موجِ بحرِالفت میں خضر۔ پھر ترانہ گایا۔ ہمارے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ کیا کیا بل ہے جو نہیں کہا۔ کیا کیا تان ہو گی جو نہیں پیش کی۔ اور خوبصورتی کے ساتھ تیاری جیسے بڑے غلام علی خاں صاحب کیا کرتے تھے۔ آپ رونیتا کی آواز کی پختگی اور جمے ہوئے سر کو داد دیے بغیر نہ رہ سکیں گے

رونیتا بڑے غلام علی خاں کے پوتے یعنی استاد منور علی خاں صاحب کے بیٹے رضا علی خاں کی شاگردہ ہیں۔ کلکتہ میں ہی پلی بڑھی ہیں ۔ ساری فیملی ہی فن سے پیار \"ranita-de-2\"کرتی ہے چاہے وہ سر کی شکل میں ہو، تال ہورقص ہو ڈرامہ ہو یا مصوری۔ پر سوائے رونیتا کسی نے اسے بطور پیشہ نہیں اپنایا۔ بچپن میں اپنے پاپا کو سنتی تھیں اور سر اس طرح روح میں سرایت کر گیا۔ فن میں انسان تب ہی آگے جا سکتا ہے جب اسے گھر سے مدد ملے۔ رونیتا کے پیچھے پورے خاندان کی شبھ کامنائیں اور آشیر واد تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ چھوٹی سی عمر میں بڑی آرٹسٹ بن گئیں۔ چار سال کی عمر میں رضا صاحب سے موسیقی کی شکشا لینا شروع کر دیا تھا۔ رضا علی کے پاس لے جانے کا سہرا رونیتا کے پاپا کو جاتا ہے اور اس بات کا انہیں کافی گرب ہے کہ انہیں صحیح استاد میسر آیا۔

رونیتا بھی ہماری طرح یہ محسوس کرتی ہیں کہ کلاسیکل موسیقی کی مقبولیت بھارت جیسے ملک میں بھی کم ہو رہی ہے مگر اب بھی اس میں بہت دم خم ہے۔ اکثریت تو بالی وڈ کے سننے والوں کی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل اپنے آپ کواس سے جڑا محسوس کرتی ہے ۔ مگر رونیتا کی دلیل مضبوط ہے۔ وہ کہتی ہے کہ یہ جڑاﺅ بہت ہی عارضی ہے۔ ایک ماہ کیلئے؟ دو ماہ یا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ۔ (ویسے ہمار ے خیال میں تو آج کے بالی وڈ کی موسیقی کی عمر ایک ہفتے سے زیادہ نہیں کیونکہ دوسرے ہی ہفتے اس سے بھی کہیں زیادہ واہییات گانا مارکیٹ میں آجاتا ہے!) لیکن کلاسیکل موسیقی کا اثر تو ساری عمر کے لئے ہوتا ہے ۔

رونیتا درست کہتی ہیں۔ یہ چھوٹی سی عمر میں بات گہری کرتی ہیں۔ اگر لوگوں کوکلاسیکل موسیقی کی سمجھ آ جائے تو وہ زندگی میں کبھی دوسرا گانا نہ سنیں۔ ایک دفعہ بڑے غلام علی خاں گا رہے تھے۔ محفل میں گانے کے دوران ہی کسی نادان نے غزل کی فرمائش کر دی۔ خاں صاحب نے اسی سر اور لے میں یہ بول پیش کر دیا: ’ایسی محفل میں غزل کا گانا نہیں اچھا۔ جو کلاسیکل سنتے ہیں وہ غزل کہاں سنتے ہیں؟‘ اور محفل کشتِ زعفران بن گئی۔ رونیتا کا یہ ماننا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب لوگوں کی آتما کو شانتی صرف کلاسیکل سنگیت سے ہی ملے گی۔ اللہ ان کی زبان مبارک کرے!

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments