دو جنرل اور ایک عام آدمی


\"Saltykov\"

کہتے ہیں کسی زمانے میں دو جنرل تھے۔۔۔ دونوں تھے بڑے من موجی ۔

دونوں جنرلوں نے ساری عمر دفتروں میں کام کیا تھا۔ انہیں سوائے حکم دینے کے اور کچھ نہیں آتا تھا۔

فوج سے فراغت کے بعد ان دوہوں نے سینٹ پیٹرزبرگ کی ایک سڑک پر نزدیک نزدیک گھر لے لیے تھے۔ اپنی اپنی باورچن تھی اور اپنی اپنی پنشن۔

مگر ایک روز نجانے کیا ہوا کہ وہ کسی ایسے جزیرے میں جا پڑے جہاں آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔ ان دونوں کی صبح آنکھ کھلی تو دونوں ایک لحاف میں تھے۔ پہلے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے، آپس میں یوں باتیں کرنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

ایک بولا،\” جناب ، میں نے ابھی ابھی ایک خواب دیکھا ہے عجیب سا ۔ دیکھتا ہوں کہ مین ایک جزیرے میں رہ رہا ہوں جہاں آدمی نہ آدم زاد ۔۔۔\” یہ کہا اور اچھل کر کھڑا ہو گیا دوسرا بڑا صاحب بھی اچھلا ۔۔۔۔

\” مائی گاڈ، یہ کیا ہوا؟ ہم کہاں ہیں؟\” دونوں کے منہ سے چیخ نکلی ۔۔۔ آوازیں بدلی ہوئی تھیں۔

تب دونوں نے ایک دوسرے کے چٹکی بھری کہ دیکھیں، کہیں خواب میں تو نہیں ہیں ۔۔۔۔خود کو یہ باور کرانے کی جتنی زیادہ کوشش کی کہ خواب میں ہیں اتنی ہی یہ یقین کرنے کی مجبوری رہی کہ نہیں خواب نہیں سچ مچ ایسا ہے ۔۔۔۔

ایک طرف سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، دوسری طرف زمین کا چھوٹا سا ٹکڑا اور اس کے بعد بھی سمندر۔ جب سے وہ ریٹائر ہوئے تھے، ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں آیا تھا \"mujahidمگر اب دونوں رو پڑے تھے۔

\” کافی کے لیے جان نکلی جا رہی ہے\” ایک جنرل نے کہا لیکن فوراً یہ یاد کرکے کہ برے پھنسے ہیں، اس کی آنکھوں میں پھر سے آنسو امڈ آئے۔

\” آخر ہم کیا کریں، رپورٹ تیار کریں، اس کا بھی کچھ حاصل نظر نہیں آتا\”

دوسرے نے کہا \” چھوڑیں یہ باتیں، آپ شمال کو جائیں میں جنوب کو جاتا ہوں، شام کو یہیں ملیں گے، دیکھیں شاید کچھ کام بن جائے\”۔

دیر تک دونوں یہی تلاش کرتے رہے کہ شمال کدھر کو ہے جنوب کدھر کو، مگر بے فائدہ۔ پھر انہیں یاد آیا کہ ٹریننگ کے دوران انہیں سکھایا گیا تھا کہ اگر جنوب کا معلوم کرنا ہو تو شمال کی جانب منہ کر لو تو جنوب پیچھے ہوگا چنانچہ اب شمال کی ڈھنڈیا پڑی۔ ہر طرف گھومے پر ساری عمر تو دفتروں میں گذری تھی، پتہ ہی نہ چل سکا کہ کدھر کو کیا ہے۔

\” یوں کرتے ہیں آپ داہنے جائیے میں بائیں کو جاتا ہوں یہی ٹھیک رہے گا\” اس جنرل نے کہا جو ایک زمانے میں \”آپریشنز چیف\” رہا تھا اور خود کو کچھ زیادہ سمجھدار سمجھتا تھا۔

ادھر کہا ادھر تعمیل۔۔۔۔۔۔ جو داہنے ہاتھ گیا تھا، اسے اونچے اونچے درخت دکھائی دیے جو قسم قسم کے پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ بڑا جی چاہا کہ سیب توڑ کر چکھے

لیکن سیب اتنی اونچائی پر تھے کہ ان تک رسائی نہیں تھی۔ کیا کیا جائے؟ درخت پر چڑھنے کی کوشش کی تو ساری قمیص چیتھڑے ہو گئی ۔۔۔ آگے بڑھا تو ایک نالا ملا جس میں ویسی مچھلیاں تیز رہی تھیں جو اس نے ملک کے سربراہ کے تالاب میں دیکھی تھیں۔

\” اگر ایسی مچھلیاں مجھے اپنے گھر میسر آ جاتیں تو مزہ آ جاتا\” یہ خیال اتے ہی اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔

آخر میں یہ جنرل ایک جنگل میں پہنچا جہاں تیتر بٹیر کٹکٹا رہے تھے، خرگوش چھلانگیں لگا رہے تھے۔

\"fat-generals\"\” مائی گاڈ، کھانے کی چیزیں تو بھری پڑی ہیں\” اس کے منہ سے نکلا مگر لگا کہ مارے بھوک کے الٹی ہو جائے گی۔

نہ ڈوری بنسی نہ تیز تفنگ، اگر ہوتے بھی تو شکار کرنا بھول چکے تھے۔ اگر ایک آدھ مچھلی ، تیتر یا خرگوش مار بھی لیتے تو کاٹنا پکانا نہیں آتا تھا۔ پھر آگ کہاں اور برتن کہاں۔

دونوں اسی جگہ لوٹ آئے جہاں سے چلے تھے مگر بھوک تھی کہ سونے نہیں دیتی تھی ۔۔۔ پھر خیال آتا تھا کہ ہماری پنشن کون وصول کرے گا؟ پھر تیتر بٹیر یاد کرکے جی الٹنے لگتا تھا۔

\” کبھی خیال تک نہیں آیا تھا کہ انسان کی غذا اڑتی پھرتی ہے، تیرتی جا رہی ہے اور درختوں پر لدی ہوئی ہے\” ایک نے اپنے خیالات کا بلند آواز میں اظہار کیا۔

دوسرا بولا \”ہاں ماننا پڑتا ہے۔ میں تو یہی سمجھتا تھا کہ یہ سب چیزیں تیار شدہ ہوتی ہیں جو ہمیں مل جاتی ہیں کھانے کو\”۔

\” یعنی اگر کوئی مثال کے طور پر بٹیر کھانا چاہے تو پہلے اس کا شکار کرنا ہوگا، پھر ذبح کرنا ہوگا، پھر صاف کرنا ہوگا اور پھر بھوننا ہوگا، مگر اب یہ سب ہو کیونکر؟\”

\”جی ہاں یہ سب ہو کیونکر؟\” دوسرے نے پہلے کے لفظ دہرائے۔

دونوں خاموش لیٹ گئے۔ بھوک نے نیند کو مار بھگایا تھا، آنکھوں کے آگے وہی جنگلی پرندے اور مچھلیاں ناچتے پھر رہے تھے ۔۔۔۔۔ رسیلے، ہلکی آنچ پر سنکے ہوئے، سلاد کے ساتھ۔\"fredricks\"

ایک نے تنگ آ کر کہا \” میرا تو جی چاہتا ہے کہ میں اپنے جوتے کھا جاؤں\”۔

\” جی ہاں دستانے بھی اچھے رہتے اگر پہنے ہوتے تو\” دوسرے نے سرد آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔

اتنے میں اچانک دونوں نے ایک دوسرے کو گھورا۔ آنکھوں میں وحشت چمکی۔ دانت کٹکٹائے، سینے سے خر خر سنائی دی۔ آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے کی جانب بڑھے اور پھاڑ کھانے کو جھپٹے۔ کپڑے پھٹ گئے ، وہ جنرل جو \”آپریشنز چیف\” رہ چکا تھا اس نے اپنے ساتھی کو بھنبھوڑ لیا مگر پھر لہو دیکھ کر ذرا عقل آئی۔ دونوں بیک آواز بولے

\” توبہ توبہ، ایسے تو ہم ایک دوسرے کو کھا جائیں گے\”۔

ایک نے تجویز دی کہ بہتر ہے کہ آپس میں باتیں کریں، دوسرے نے کہا \”اچھا تو بولیے\”۔

\” مثال کے طور پر سورج پہلے نکلتا ہے، پھر ڈوبتا ہے مگر اس کے خلاف نہیں ہوتا۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟\”

\” عجیب آدمی ہیں آپ، یہی قاعدہ ہے۔ آپ بھی پہلے بستر سے اٹھتے ہیں ، پھر دفتر جاتے، وہاں قلم چلاتے ہیں اور پھر آ کر آرام کرتے ہی\”۔

\”اچھا تو اس کے خلاف کیوں نہ ہو، پہلے میں بستر پر لیٹوں، طرح طرح کے خواب دیکھوں اور پھر اس کے بعد اٹھ کھڑا ہوں؟\”

\”جب میں دفتر میں کام کرتا تھا تو اسی طرح سوچتا تھا کہ صبح ہوگی، پھر دن نکلے گا، پھر شام کا کھانا ملے گا، پھر آرام کا وقت ہو جائے گا\”۔

کھانے کا نام آتے ہی ان پر پھر اداسی طاری ہو گئی۔

وہ جنرل جو \”آپریشنز چیف\” تھا، اسے یک لخت ایک خیال آیا ۔۔۔

\” کیسا رہے اگر کہیں سے کوئی \”بیٹ مین\” ہاتھ لگ جائے\” اس نے خوش ہو کر کہا۔

\” بیٹ میں، کیا مطلب آپ کا؟\”

\” مطلب یہ کہ کوئی گنوار شخص جیسے یہ ہوتے ہیں، ہمیں بطور بیٹ میں مل جائے تو مچھلی اور پرندے پکڑ لائے گا\”

\” ٹھیک ہے، مگر ۔۔ ۔ ملے گا کہاں؟\”

\” ان کی بھی کوئی کمی ہے، ہر جگہ بھرے پڑے ہیں۔ ذرا تلاش کرنا ہوگا، یہیں کہیں چھپا ہوگا کوئی کام چور ان میں سے\”۔

اس خیال سے دونوں جنرلوں میں اتنی ہمت پیدا ہوئی کہ اٹھ کر گنوار دیہاتی بیٹ مین کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
دیر تک ادھر ادھر خاک چھانتے پھرے پھر دیکھا کہ درخت کے سائے میں ایک \”دیہاتی\” پیٹ اوپر کو کیے، ہاتھ کا تکیہ بنائے، سو رہا ہے اور کام چوری کر رہا ہے ۔۔۔ جنرلوں کو بہت طیش آیا۔

\” دونوں نے چیخ کر کہا \”ہوشیار باش، دیکھتا نہیں دو بڑے صاحب بھوکے مر رہے ہیں، اٹھو اور لگ جاؤ کام پر\”
دیہاتی اٹھ کھڑا ہوا، پہلے تو جی میں آئی کہ دم دبا کر بھاگ لے لیکن وہ دونوں اس پر ایسے ٹوٹ پڑے تھے کہ بھاگ نہ سکا۔

مرتا کیا نہ کرتا، ان کی خدمت میں لگ گیا ۔۔۔۔

سب سے پہلے درخت پر چڑھا، خوب پکے ہوئے سیب توڑے ہر جنرل کو دس دس سیب دیے اور اپنے لیے ایک کچا

سیب رکھ لیا۔ پھر اس نے زمین کھودی، اس میں سے کچھ آلو نکالے، پھر لکڑی کے دو ٹکڑوں کو رگڑ کر آگ نکالی۔

پھر اپنے بال کاٹ کر ان کا جال بنا اور تیتر پکڑ لایا۔ آغ روشن کی اور مزیدار کھانا تیار کر دیا۔ جنرلوں نے سوچا کہ اس نکھٹو کو بھی کھانے کا تھوڑا سا حصہ دے دینا چاہیے۔

کھانا کھا کر تھوڑی دیر بعد بھول گئے کہ دونوں کل بھوک سے مرے جا رہے تھے، اطمینان ہوا تو خیال آیا کہ جنرل ہونا کتنا خوب ہے، آدمی کہیں بھی کام نکال لیتا ہے۔

\”بڑے صاحب ، آپ لوگ مجھ سے اب راضی ہیں ناں\” اس نکھٹو دیہاتی نے ان سے پوچھا۔

\”راضی تو ہیں، مگر نعرہ لگاؤ \”شکریہ جنرل صاحب\” تو زیادہ راضی ہونگے۔

اس نے نعرہ لگایا اور پوچھا \”سر اب کیا سستا سکتا ہوں\”

\”ہاں ہاں، اجازت ہے ۔۔۔ پر جانے سے پہلے ایک رسی بنا کے دیتا جا۔

دیہاتی نے چٹکی بجاتے میں جنگلی سن جمع کی، اسے پانی میں نرم کیا ، پتھر سے پیٹ پیٹ کر مونج بنائی اور شام تک رسہ تیار کر دیا۔ بڑے صاحب لوگوں نے اسی رسے سے دیہاتی کو ایک درخت سے باندھ دیا کہ کہیں بھاگ نہ جائے اور خود سونے کے لیے لیٹ گئے۔

دن پہ دن گذرتے گئے۔ دیہاتی خدمت میں طاق ہو گیا۔ جنرلوں کے بھی پیٹ نکل آئے اور رنگ نکھر گیا۔

پھر جنرلوں کا اس ارضی جنت اور خدمت گار سے دل بھر گیا۔ انہیں پیٹرزبرگ میں اپنے اپنے مکان، اپنی اپنی باورچنوں اور اپنی اپنی پنشن کی فکر کھانے لگی۔ کبھی کبھار تو اکیلے میں رو بھی لیتے تھے۔

دونوں صاحبوں نے دیہاتی کو مجبور کیا کہ وہ انہیں کسی طرح ان کے گھر پہنچائے۔

دیہاتی بہت سوچنے لگا کہ صاحبوں کا شکریہ کس طرح ادا کرے جو اتنی مہربانی سے پیش آئے، اس گنوار کے کام کا برا نہیں منایا چنانچہ اس نے ایک کشتی تیار کی۔

\” دیکھ بدمعاش، کبھی ڈبو مت دینا\” جنرلوں نے ڈانٹا۔

\” ایسا کیسے کر سکتا ہوں سر، دیہاتی وہ کشتی کھیتا چلا گیا جس میں یہ دو موٹے جنرل ٹھسے سے سوار تھے۔ راستے میں جب طوفان آیا تو یہ جنرل اتنا ڈرتے تھے اتنا ڈرتے تھے کہ دیہاتی کو کام چور ہونے پر کھری کھری سناتے تھے، مگر وہ مادھو کشتی کھیتا گیا اور راستے میں مچھلیاں پکڑ کر بھون بھون کر انہیں کھلاتا بھی گیا۔

ایک دن دریائے نیوا پہنچ گئے اور پھر وہاں کشتی سے اتر کر اپنے اپنے گھر۔ باورچنیں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئیں کہ بڑے صاحب کیسے موٹے تازے ہو گئے تھے۔دونوں جرنلوں نے کافی پی، ناشتہ کیا اور خزانے چلے گئے، اتنی پنشن اکٹھی ہو گئی تھی کہ ان کی باچھیں کھل اٹھیں۔

یہ مت سمجھیے گا کہ انہوں نے دیہاتی کو یکسر بھلا دیا، نہیں اسے بھی ایک چادر اور کچھ پیسے بھیج دیے کہ جا بھئی \”بیٹ مین\” تو بھی عیش کر۔

(روسی ادیب سلتی کوف شیدرن کی 1860 کی تحریر جسے 1962 میں ظ۔ انصاری نے اردو میں ڈھالا۔  انتخاب: مجاہد مرزا۔۔۔۔ اصل متن میں کسی قدر ترمیم و تحریف کے ساتھ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments