ٹوٹی کمر، سالم دماغ اور متبادل بیانیہ


\"farnood-01\"

جو ہم نے آج کاٹا ہے، یہ وہی ہے جو ستر برس پہلے بویا تھا۔ جلد یا بدیر، نتائج وہی نکلنے تھے جو ہم نے بھگتے ہیں۔ جو ہم نے بھگتا ہے، وہ کون نہیں جانتا۔ ہم سب جانتے ہیں، کیا ہم مانتے بھی ہیں؟ میرے خیال میں بات ابھی یہیں رکی ہوئی ہے۔ ہم جان توگئے ہیں،ہم مان نہیں رہے۔ ہم مان بھی لیں گے، بس وقت نہ گزر جائے۔ وقت گزرجائے،ہم کھڑے رہ جائیں، یہ وقت کی تذلیل ہے۔ وقت کا احترام یہ ہے کہ جو بات آج کرنے کی ہے وہ آج کی تاریخ میں ہی کردی جائے۔

ہمیں اب ایک بیانیے کی تلاش ہے۔ متبادل بیانیہ کہیئے یا جوابی بیانیہ کہہ لیں، اب اس کی ضرورت پر زور ہے۔ جو بیانیہ اس ریاست نے گود لیے رکھا،اس کے تنائج خونریز تشریح اور لرزہ خیز مفہوم کے ساتھ سامنے ہیں۔ اس خونریز دورانیے میں معاملہ ترجیحات کا ہے۔ یہ ہم نے طے کرنا ہے کہ ہم نے سانحہ کوئٹہ میں ایمبولینس اور تابوت پر بحث کرنی ہے یا پھر اس فکر پر کہ جس نے کل ہمیں پھر ایسے صدموں سے دوچار کرنا ہے۔ جب مرنا ہی ہم نے گوارا کرلیا ہے تو پھر کیا ایمبولینس اور کیا تابوت۔ مشکل یہ نہیں ہے کہ ہم چلتی بندوق کے نشانے پر ہیں، مشکل یہ ہے کہ اماں جی کے سر پہ ہاتھ رکھنے وہ بھی چلے آتے ہیں جن کی فکری عنایتوں کے سبب یہ آنگن اجڑ گیا ہے۔ اس پوری صورت حال میں ایک سوال ہمیشہ سے سامنے رہا کہ جس بیانیے کو ریاست نے برسوں دل سے لگائے رکھا، اس کے نتائج پر بات کا آغاز کہاں سے ہو۔ لیکن جس سماج میں سوال اٹھانا جرم ہو وہاں فورا یہ خیال آتا ہے کہ بات کہاں سے شروع کرنے کا سوال تو بعد کا ہے، پہلے بات شروع تو ہو۔ جہاں بات شروع کرنا ممکن نہ ہو وہاں یہ سوال بے کار ہوجاتا ہے کہ بات کہاں سے شروع ہو۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ اب بات کہی جارہی ہے۔ بات نہ ہو تو بات سے بات کیسے نکلے گی؟ بات کا آغاز تو ہوگیا۔ ریاست کےتیور وقت کے ساتھ کسی تبدیلی کی خبر دے رہے ہیں۔ ریاستی نمائندے اقلیتوں کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں اور سہمی ہوئی اقلیت اب اطمینان کا کچھ اظہار کررہی ہے۔ نیکٹا نے ایک عرصے تک دہشت گردوں کی کمر پہ جگر آزمایا، اب دماغ پہ ہاتھ رکھا تو ان کےلیے ادھر بھی کام بہت رفو کا نکلا۔ سو اب نیکٹا بھی دہشت گردی کے ساتھ شدت پسندی کے اسباب اور سدباب پر غور کررہا ہے۔ دانش کدوں میں اب کمر کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طور دماغ زیر بحث ہے۔ خوشی ہے کہ ’’ھوم نیٹ پاکستان ‘‘ نے اس پہلو پر بات کو پوری طاقت سے آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھالیا ہے۔

لاہور میں ’’ہوم نیٹ‘‘ نے متبادل بیانیے کو ہی لے کر دوروزہ نشست کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، ڈاکٹر حسن عسکری، ڈاکٹر رفعت، ڈاکٹر شہزاد سلیم، ڈاکٹرعامرعبدااللہ، عامر رنا صاحب، آصف افتخار صاحب اور سلمان اقبال صاحب جیسی ہستیوں نے ہر جہت سے گفتگو کی اور ہر پہلو سے معاملے کو دیکھنے کی کوشش کی۔ یہ پہلی نشست نہیں تھی اور یہ آخری نشست بھی نہیں ہے۔ نشستیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ہوم نیٹ پاکستان کی نشست کی اہمیت اس لیے دو چند ہے کہ یہ براہ راست ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کی ایک سنجیدہ کوشش ہے۔ خاص طور سے پنجاب میں پنپنے والی انتہاپسندانہ فکر اور اس کے نتائج کو پیش نظر رکھا گیا اور یہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔ غلط اس لیے بھی نہ تھا کہ تمام جہادی اور فرقہ ورانہ تنظیموں کے مراکز پنجاب میں ہی واقع ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی نشستوں کا اب تک حاصل کیا رہا ہے؟ خدا لگتی کہیئے تو ان کا حاصل اب تک یہی رہا کہ بحث کا دروازہ کھلا ہے۔ تاہم یہ اڑچن ابھی باقی ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے۔ ہم جیسے طالب علموں کے لیے ایسی محفلوں میں اہم یہی ہوتا ہے کہ دیکھیں اساتذہ انترہ کہاں سے اٹھاتے ہیں اور تان کہاں لے جاکر توڑتے ہیں ۔ سبھی مہان ہیں، جہاں سے بھی اٹھا تے ہیں خوب اٹھاتے ہیں، مشکل مگر یہ ہے کہ بیانیے کے باب میں اکثر بات وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں بات ختم ہونی چاہیئے۔ صورت حال یہ ہے کہ جنہیں فکری پہلو پرغور کرنا ہے وہ ان پہلووں سے الجھ رہے ہیں جو دراصل محکمہ انسدادِ دہشت گردی کی دلچسپی کے پہلو ہیں۔ ایسے میں سوال وہیں رہ جاتا ہے کہ بات کا آغاز کہاں سے ہوگا؟

سیاست اورتاریخ کے علما میں ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو متبادل بیانیہ کی بحث میں بات تقسیم ھند سے شروع کرنے میں بہتری جانتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دوقومی نظریے کو زیر بحث لائے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ان کی رائے میں یہ معاملہ بھی واضح ہونا چاہیئے کہ بانیان پاکستان ایک مذھبی ریاست کی تشکیل چاہتے تھے یا پھر ایک سیکولر ریاست ان کے پیش نظر تھی۔ یہ بات سمجھنے میں ابھی ہم جیسے طالب علموں کو تو کچھ وقت لگے گا کہ آخر بانیان پاکستان کے عزائم کا تجزیہ کیوں ضروری ہے؟ اور یہ کہ اس تجزیے کے نتیجے میں بحث کسی درست سمت پہ چل سکے گی یا نہیں۔ ہماری رائے میں اوراق کو اس انداز میں پلٹنے سے تاریخ کے طالب علم کو تحقیقی عیاشی کا سامان تو میسر آسکتا ہے، مگر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ بات تب ہی آگے بڑھ سکتی ہے جب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے گا کہ بانیان پاکستان سیاسی مقاصد کے لیے مذھب کا نعرہ بروئے کار لائے تھے۔ وجوہات جو بھی رہی ہوں، مگر اصولی طور پہ یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ بانیان پاکستان نے اندھیرے اجالے میں خلق خدا سے ایک مذہبی ریاست کا وعدہ کیا تھا۔ اس حقیقت کےحق میں جو تاریخی واقعات اوردستاویزات پیش کی جاتی ہیں انہیں مسترد کردینا اتنا بھی آسان نہیں ہے جتنی آسانی سے مسترد کردیا جاتا ہے۔ مجلس دستور ساز سے کی گئی قائد اعظم کی گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کی تقریر ایک واضح سچ ہے، مگر افسانہ تو وہ تقاریر بھی نہیں جن کے حوالے پاکیزہ ادب اور مقدس تاریخ کے مصنفین دیتے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہونا چاہیئے کہ قائد کے پیش نظر مذہبی ریاست تھی کہ سیکولر ریاست، مذہبی ریاست ہی پیش نظر رہی ہوگی، اب سوال یہ ہے کہ ایک ریاست کو مذہب کی بنیاد پر قائم کرنے اور اسی بنیاد پر چلانے کا تجربہ کامیاب رہا کہ ناکام؟ اگر یہ تجربہ کامیاب رہا ہے، تو پوچھنا چاہیئے کہ کیسے کامیاب رہا؟ اگر مذہب کا تجربہ سر تا سر ناکام ثابت ہوا ہے، تو آگے بڑھ کر متبادل بیانیہ پیش کرنا چاہیئے۔ یہی نقطہ آغاز ہے۔

سامنے کا سچ تو یہ ہے کہ متبادل بیانیے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ علمائے سیاسیات، سماجیات و الہیات اس پر بحث کر رہے ہیں۔ لکھنے والے پورے خلوص سے لکھ رہے ہیں۔ طے یہ کرنا ہے کہ اس بحث کو اخبار کی خبروں اور کچھ واقعات کے تناظر میں آگے بڑھانا ہے یا پھر روایتی بیانیےکی فکری حیثیت کو تسلیم کر کے بات کرنی ہے۔ اگر واقعات کو لے کر چند جہادی تنظیموں کا تعاقب کرنا ہے تو یہ ’’کاونٹر ٹیرر ازم‘‘ کی بحث ہے۔ اگر بیانیے کو لے کر ایک فکر کا تعاقب کرنا ہے تو پھر یہ ’’کاؤنٹر نیریٹیو‘‘ کی بحث ہے جسے جوابی بیانیہ کہا جارہا ہے۔ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ دونوں مباحث کو ایک دوسرے سے الگ کر کے متبادل بیانیے پر بات کی جائے۔ انسداد دہشت گردی کے محکموں کا معاملہ تیکنیکی ہے جس کے تجزیے کے لیے آپ اخبار کے بیچ سے بات کرسکتے ہیں۔ فکری مکالموں کا معاملہ علمی ہے، جس کے تجزیے کے لیے کتاب کےبیچ سے بات کرنی ہوگی۔ اہل علم کا مسئلہ وہ شخص نہیں ہے جو آج بندوق اٹھائے پہاڑوں پہ بیٹھا ہے، ان کا مسئلہ بنیادی طور پہ وہ شخص ہونا چاہیئے جو کل بندوق اٹھانے والا ہے۔ پہاڑوں کی طرف بڑھتے ہوئے شخص کے سامنے متبادل بیانیہ رکھنے کا معرکہ در پیش ہے۔ کیا یہ معرکہ روایتی بیانیے پر بات کیے بغیر سر ہوسکتا ہے؟ جوابی بیانیہ ہم جان گئے، کیا ہم روایتی بیانیہ بھی جانتے ہیں؟ متبادل بیانیہ تو مصرعہ ثانی ہے، مصرعہ اولی کے بغیر یہ شعر مکمل کیسے ہوگا؟

ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر یہ کہنے کی اجازت درکار ہے کہ ہمارے ہاں متبادل بیانیہ دراصل دہشت گردی کی مذمت کو سمجھ لیا گیا ہے۔ یعنی جوشدت پسندوں کے خلاف بات کررہا ہے وہ دراصل متبادل بیانیہ پیش کررہا ہے۔ ہم فکری بیانیے اور سیاسی ردعمل میں کوئی فرق ہی نہیں برت رہے۔ جنرل مشرف نے بابا سے کہا، ہم نےمدارس سے انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرلی ہے۔ بابا نے دریافت کیا کہ حضور وہ کیسے؟ جواب آیا کہ ہم نے مدارس کو کمپیوٹرز فراہم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بابا نے ترنت کہا، انتہا پسندی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے پر مبارک قبول کیجیے۔ بات یہ ہے کہ جب بیانیے کو جانے بغیر متبادل بیانیے کی بحث کی جائے تو ریاست کا سربراہ بھی ایسی منصوبہ بندیوں پہ کندھے اچکاتا ہے۔ کچھ یاد آگیا۔ عرض کرتا چلوں؟ ہوم نیٹ پاکستان کی اسی نشست میں پنجاب حکومت کی ایک نمائندہ خاتون نے پریزنٹیشن دی۔ آغاز پہی فرمایا کہ حکومت متبادل بیانیے پر عرصہ دراز سے کام کر رہی ہے۔ اس باب میں انہوں نے حکومت پنجاب کی جو خدمات گنوائیں ان میں لاہور کے اسٹیج ڈرامے، کنسرٹ، ٹیبلوز، محفل سماع، دنیا کا سب سے بڑا پرچم بنانا اورنوجوانوں کے کھیلوں کے کچھ مقابلے سرفہرست تھے۔ اب کہیے بھی تو اسے کیا کہیے؟ مکررعرض ہے کہ مشکل یہ نہیں کہ چلتی بندوق کے ہم نشانے پر ہیں، مشکل یہ ہے کہ بچہ کھو دینے والی ماں جی کے سرپہ ہاتھ رکھنے وہ بھی چلے آتے ہیں جن کی فکری عنایتوں کے سبب یہ آنگن اجڑا ہے۔ جب ہم بیانیہ کی بنیاد کو پکڑتے نہ ہوں یا پکڑنا چاہتے نہ ہوں، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم سوٹ اور ٹائی میں ملبوس ہستیوں پر متبادل فکر کے علم بردار ہونے کا گمان کرلیتے ہیں۔ روایتی فکر کے ان علم برداروں کو بلوا کر ہم متبادل فکر پر صلاح مانگتے ہیں۔ یوں کہیئے کہ جس کے سبب ہم بیمار پڑے تھے، عطار کے اسی لونڈے سے دوا مانگتے ہیں۔ نتیجہ؟ مرض بڑھتا جاتا ہے جوں جوں دوا کرتے ہیں۔

خیر کی بات یہ ہے کہ ’’ہوم نیٹ پاکستان‘‘ نے پانچ سے زائد ایسی شخصیات کو مدعو کیا جنہیں روایتی بیانیے کا ادراک ہے۔ انہوں نے اپنے حصے کا بھرپور کہا،اور کیا ہی خوب کہا۔ جانے کیا وجہ رہی ہوگی کہ بیانیے کا تجزیہ نہ ہوا۔ انتہا سے ابتدا ہوئی اورانتہا پر ہی اختتام ہوگیا۔ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سو دو سو گز کی دوڑ نہیں ہے۔ یہ میراتھن ریس ہے جس نے اہل علم کے اعصاب کا امتحان لینا ہے۔ ہمیں یقین کی حد تک امید رکھنی چاہیے کہ مکالمے کا یہ سفر تیز تر ہوگا،اور یہ کہ مذہبی شدت پسندی کے قضیے کو حادثات وسانحات میں تلاش کرنے کی بجائے لٹریچر میں دیکھنے کے امکانات پیدا کیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments