کئی چاند تھے سرِآسمان


بحیثیت صناع، محمد یحییٰ صرف ایک بار وطن سے باہر، تجارت کی غرض سے لاہورگیا۔ یہ 1792۔ 1793 کا زمانہ تھا۔ وہاں ماہ محرم میں ماتم و عزاداری کی ایک عوامی مجلس میں شرکت کے دوران وہ کچھ معتبر اشخاص سے ملتا ہے۔ یہیں اسے ایک موٹے کاغذ پر وہ دِلکش و موہنی تصویر تحفتاً دی گئی جسے دیکھ کر محمد یحییٰ کچھ لمحات کے لئے گم سم ہو گیا تھا۔ وہ بنی ٹھنی کی تصویر تھی جو نقاش گردھرناتھ نے بنائی تھی اور اس نے محمد یحییٰ کا جذب و اشتیاق دیکھ کر وہ تصویر محمد یحییٰ کو پیش کی۔ بنی ٹھنی کی اس تصویر کو دیکھ، پھر محمد یحییٰ کو شب و روز کا حساب یاد نہ رہا۔ وہ خود تو اپنے وطن واپس آ گیا، مگر اپنا سکون بلادِ ہند میں چھوڑ آیا تھا۔

محمد یحییٰ کے دونوں بیٹوں، محمد داوٴد اور محمد یعقوب نے جب حبیب اللہ بٹ کے ہاں منعقدہ ایک محفل میں سلطان ابوسعید ابی الخیر کی رُباعی اور پھر اعلیٰ حضرت مُلّا محمد طاہرغنی نوراللہ کا کلام معجز نظام پیش کیا تو محمد یحییٰ کی طبیعت کی بے چینی اور دل کا درد عروج پر پہنچ گیا۔ اس محفل کے چند ہی روز بعد بیوی اور دونوں بیٹوں کی موجودگی میں اس نے جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔ تین ماہ بعد محمد یحییٰ کی بیوی بشیرالنساء بھی راہی ٔملک ِعدم ہوئی۔ مگر بیٹوں کو خود بھی معلوم نہ ہوا کہ اس دردناک موقع پر انہوں نے کیوں امیرخسرو کا کلام گا کرماں کو الوداع کیا۔ دونوں بیٹوں نے اس سرزمیں کو چھوڑنے سے پہلے باپ کے سامان کو دیکھا تو وہاں بنی ٹھنی کی تصویر انہیں ایک عجیب إحساس سے دوچار کر گئی۔ باپ کے لیے ان دونوں کے ذہن میں کچھ بُرا خیال آیا مگر یہ کدورت چند ہی جملوں کے آپس میں تبادلے کے ساتھ جلد دور ہو گئی۔ تصویر کے دوسری طرف لکھی عبارت کے اولین الفاظ تھے “شبیہ خیالی شری رادھا جی المشتہر بنی ٹھنی۔ ” تصویر ہدیہ کرنے والے نقاش کے پتے کے ساتھ، کشن گڈھ بھی لکھا تھا۔ “ہمارے دادا وہیں کے تھے۔ کہتے ہیں دادی نے ایک بار بابا سے کہا تھا کہ بیٹا تمہارا دل کشن گڑھ جانے کو تو نہیں چاہتا؟ ” یعقوب نے اپنے بھائی داوٴد سے کہا۔

دونوں بھائیوں نے اس تصویرکی پشت پر لکھی عبارت کو اپنے لئے ایک فال سمجھا، آلات مزمور وغنا وہیں صدردوازے کے سامنے دفن کرا دیے اور کشن گڑھ کے لیے نکل پڑے۔ لاہور سے وہ قصور، فیروزپور، مالیر کوٹلہ اور حصار ہوتے ہوئے ریواڑی پہنچے۔ پھر لوہارو کی راہ لے کر عازم الور ہوئے۔ کشن گڈھ کا محل وقوع جے پور اور اجمیر شریف کی شاہراہ پر کم وبیش آدھے راستے پر تھا۔ جے پور سے نکلتے ہی تکلیف دہ راستہ شروع ہو گیا۔ نہایت گرم موسم میں تھکے ماندے، صعوبتیں برداشت کرتے وہ ایک کنویں تک پہنچے۔ اس پڑاوٴ پر ان کی ملاقات دو مارواڑی لڑکیوں، حبیبہ اور جمیلہ سے ہوئی۔ بعد ازاں داوٴد کی شادی حبیبہ سے اور یعقوب کی شادی جمیلہ سے ہوئی۔ داوٴد اورحبیبہ کی کوئی اولاد نہ ہوئی جبکہ یعقوب اور جمیلہ کے ہاں اکتوبر 1793 کو ایک بیٹے نے جنم لیا جس کا نام محمد یوسف رکھا گیا۔

شہردرشہر سے ہوتے ہوئے انہوں نے فرخ آباد آ کر دم لیا۔ کوئی دس سال یہاں آرام سے گزرے۔ مگر سیاسی حالات ابتر تھے۔ روہیلوں کا شیرازہ بکھرچکا تھا۔ نواب مظفر جنگ نے 1802 میں اپنے علاقے کا انتظام سوا لاکھ روپئے سالانہ خراج کے عوض کمپنی بہادر کو دے دیا تھا۔ محمد یعقوب بڈگامی اور محمد داؤد بڈگامی کو کچھ سادہ کار مہربانوں نے یہ راہ دکھائی کہ فوج انگریز میں بہت دولت ہے۔ ان کی عورتیں زیور بہت بنواتی ہیں۔ لاٹ صاحب جنگ جیتے یا ہارے، کاروبار چمکتا رہے گا۔ 1803ء میں یہ جنگ آفتاب حضرت شاہ عالم ثانی کو مرہٹوں کی “قید فرہنگ” سے نجات دلانے کے لیے لڑی گئی تھی۔

یہ خاندان اس لشکر بازار کے الف لیلوی مناظر کو دیکھ دیکھ مبہوت تھا۔ مگر ایک دوپہر جب یہ تمام غیر فوجی لوگ ابھی قافلے کے ہمراہ اپنے خیمے میں ہی تھے کہ رال گندھک اور شورہ سے بھرے ہوئے پھٹنے والے غبارے اور گولے اور نجانے کیا کچھ اس بدنصیب قافلے پر کچھ یوں گرے کہ اس آفت ناگہانی میں محمد یوسف کے علاوہ ان کا پورا خاندان ختم ہو گیا۔ محمد یوسف خاندان کے تمام افراد کو اجل کے منہ میں جاتا دیکھ، زندگی سے نجات پانے کے لیے دیوانگی کے عالم میں ندی کی طرف بھاگا کہ اپنی جان دے دے کہ ایسے میں اکبری کی اصیل نے دوڑ کر اسے پکڑا بلکہ جکڑ لیا اور اس خیال سے باز رکھا۔

اکبری بائی فرخ آباد کی مشہور ڈیرے دارنی تھی اور قافلے میں شامل تھی۔ اس کی قسمت اچھی تھی کہ اس کا اپنا خیمہ تباہی سے بچ گیا۔ اکبری بائی کے ساتھ اس کی بیٹی اصغری اور اس کا ٹبر بمع سازندے، گائنیں، محافظ سبھی کچھ تھا۔ مناسب حالات دیکھ کر قافلہ آگے بڑھا۔ راستے میں اکبری بائی نے چاوڑی کے علاقے میں اپنی ایک رشتے کی بہن کے ہاں قیام کیا کہ اچھے حالات دیکھ کر فرخ آباد چلی جائیں گی۔ رشتے کی اسی بہن نے اکبری بیگم کو سمجھایا کہ دِلّی میں ہی رہ جائیں کہ فرخ آباد میں اب بچا کون ہے۔

اکبری بائی نے محمدیوسف کو اولاد کی طرح پالا۔ عربی و فارسی کی تعلیم کے علاوہ سازوسنگیت کی تربیت بھی دی۔ یوسف 15برس کا ہوا تو اکبری بائی نے اس کی شادی اپنی 13 سالہ بیٹی اصغری سے کروا دی۔ یوسف اور اصغری کے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ بڑی بیٹی انوری خانم عرف بڑی بیگم کہلائیں جن کی شادی مولوی شیخ محمد نظیر صاحب سے ہوئی۔ دوسری بیٹی کا نام عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم رکھا گیا جو نواب سیّد یوسف علی خان بہادر کے متوسلین میں شامِل ہو گئی۔ جبکہ تیسری بیٹی وزیرخانم عرف چھوٹی بیگم تھیں جو رنگ و روپ، حسن و جمال، خوش ادائی، جادوبیانی، رکھ رکھاوٴ اور پہناوے کے علاوہ سخن فہمی، سخن شناسی اور سخنوری میں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔ فن شعر میں طاق ہونے کے باوجود شعر گوئی ان کا بنیادی وصف نہ تھا۔ ہاں البتہ ان کا جو شعر بھی محفوظ رہ گیا اس کو مستند مانا گیا۔ اس ضمن میں ایک واقعہ ناول کے صفحہ نمبر 574 پر درج ہے کہ نواب یوسف علی خان نے 1840 میں رامپور آ کر یہاں ماہانہ مشاعرہ قائم کیا۔ شاید کسی اور شاعر یا خود نواب یوسف علی خان نے اپنے طور پر شاہ سراج اورنگ آبادی کا کلام دریافت کیا اور پھر ہر طرف شاہ سراج کے چرچے ہونے لگے۔ نواب یوسف علی نے ایک مشاعرے میں شاہ سراج کے درج ذیل مصرعے کو طرح قرار دیا: ہے زلف یار حلقہٴ زنجیر ہو بہو

آغا تراب علی نے اس غزل کو شاعری نہیں بلکہ اعجاز قرار دیا اور اپنی بیگم وزیر خانم سے اس غزل پر غزل کہنے کی فرمائش کی۔ آغا تراب کی فرمائش پر وزیر خانم نے سات اشعار کی ایک بھرپورغزل کہی جس کے دو اشعار یہاں نقل کیے دیتی ہوں :

ہے زلف یار حلقہٴ زنجیر ہو بہو

رکھتی ہے آنکھ سحر سی تاثیر ہو بہو

اس کوچے میں دل اپنا جہاں چھوڑ آئے ہم

جنت سی ایک ہے وہیں تعمیر ہو بہو

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments