جمہوریت کو دانشوروں سے بچائیے


میرے کزن فوجی فاونڈیشن کالج میں اردو کے لیکچرر ہیں۔ انھوں نے مجھ سے علامہ اقبال کے اس خیال کہ جمہوریت میں گنتی ہوتی ہے، وزن نہیں کی تشریح چاہی ہے۔ \"AHMEDکہنے لگے کہ اقبال نے خود بھی تو الیکشن میں حصہ لیا تو پھر یہ خیال کیوں۔ مجھے بتایا کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ کے ماہر اقبالیات پروفیسر نے ان کی الجھن کا یہ جواب دیا ہے کہ اقبال دراصل حقیقی جمہوریت نہیں بلکہ مغربی جمہوریت کے مخالف تھے۔ البتہ پروفیسر صاحب نے مغربی جمہوریت اورحقیقی جمہوریت  کا فرق بیان کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

اس گفتگو سے میرا ذہن جسٹس میاں ثاقب نثار (آئندہ چیف جسٹس سپریم کورٹ) کے ایک فیصلے کی طرف گھوم گیا۔ قریبا دو سو صفحات کے اس انتہائی عالمانہ فیصلے میں جسٹس صاحب کا موضوع یہ سوال ہے کہ ریاست میں حقیقی بالادست طاقت عوام کی منتخب کردہ پارلیمان ہے یا سپریم کورٹ کے جج جو منتخب نہیں بلکہ مقرر ہوتے ہیں۔ میاں ثاقب نثار نے لکھا کہ جمہوریت در اصل ایک آزاد سماج کا نام ہے اور پاکستان میں وردی والوں سے زیادہ جمہوریت کو نقصان دانشوروں نے پہنچایا ہے جو آزاد سماج کے مقابلے میں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ یا ’’اصلی جمہوریت‘‘ یا ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے زیر عنوان ایک مطلق العنان اور آمرانہ نظام کو دانشورانہ بنیادیں فراہم کرتے رہے۔ مزید لکھا کہ ہمارے ہاں اس طرح کے خیالات کی کثرت پر تعجب مت کیجیے کہ تاریخ میں افلاطون جیسے عالی دماغ بھی مقید معاشرے کے حامی اور جمہور کے حق حکمرانی کے مخالف رہے ہیں۔

ایل ایل بی کا اپنا دور طالب علمی یاد آ گیا۔ قانون ساز طاقت یعنی پارلیمان کی بالادستی اور جمھوری نظم ریاست کی اہمیت جیسے موضوعات پانچ برس میں کبھی زیر بحث ہی نہیں آئے۔ نصابی کتابوں سے پرے واقع جہانوں سے آشنا اساتذہ بھی سپریم کورٹ کی ’’فائنل اتھارٹی‘‘ سے آگے اڑان نہ بھرتے۔ پارلیمان کا ذکر اور ایک طنز آمیز مسکراہٹ لازم و ملزوم تھے۔ عوام کے حق حکمرانی کا ذکر ہمیشہ شکوک و شبہات کے سائے تلے ہی ہوا۔ ’’پاکستان کی آئینی تاریخ‘‘ کا مضمون جو طلبہ کو آئین، پارلیمان اور عوام کے حق انتخاب کی عظمت سے متعارف کر سکتا ہے، ’’مطالعہ پاکستان‘‘ کی طرح پڑھایا جاتا۔ اس تعلیم کے زیر اثر حاصل کردہ فہم میں جمھور کی حاکمیت کا تصور جڑ کیسے پکڑے۔ ہمارا دانشور قانون دان ایک آزاد جمھوری معاشرہ، جس میں پارلیمان بذریعہ عوام اختیارات اور طاقت کا مرکز ہو، کی مخالفت ہی کرے گا۔ یہ دانشور پارلیمان کی اخلاقیات اور اختیارات پر بیورو کریسی اور سپریم کورٹ کو نگران بنانے کی حمایت کرے گا اورعوام کی عدالت کی بجائے آرٹیکلز 62 اور 63 کا میلہ سجائے گا۔ ’’اجلی جمہوریت‘‘ کی بات کر کے موجودہ جمہوریت کی نفی کرے گا۔ جائزہ لینے پر آپ کو پاکستان کے تمام اعلی ترین قانونی دماغ چند ’’لبرل فاشسٹس‘‘ کو چھوڑ کر جمہوری نظم کے مقابلے میں، براہ راست یا دانشوری کے پردہ میں، مقید معاشرے اور آمرانہ نظام حکومت کے حامی نظر آئیں گے۔

آخر میں ایک قصہ سنیے۔ 19 جون 2012 بروز منگل، سپریم کورٹ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو پارلیمان کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دے کر گھر بھیجا اور یہی اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ایل ایل بی کا میرا آخری دن تھا۔ آئین کے مطابق رکن پارلیمنٹ کی نا اہلی کا اختیار سپریم کورٹ کا نہیں بلکہ سپیکر قومی اسمبلی اور الیکشن کمیشن کا ہے۔ جمہوریت آپ اپنی دلیل ہے مگر ’’پاشائیت زدہ‘‘ سماج میں جمہوریت کی حمایت کے لیے اسی طرح کے ٹیکنیکل سوالات بھی اٹھانا پڑتے ہیں۔ شام کو اسلام آباد کے ایک ریستوران میں فئیر ویل منعقد ہوئی جس میں اسلامک یونیورسٹی سے جڑے تین اعلی ترین قانون دان موجود تھے۔ یہی ذکر چھڑ گیا تو سب سے بڑے قانون دان ایک نخوت بھرے انداز میں گویا ہوے:

’’پارلیمنٹ کی بالادستی، چھوڑو یار، A.V Dicey نے لکھ دیا کہ پارلیمنٹ بالادست ہوتی ہے تو سو سال سے سب اس کے پیچھے چل رہے ہیں۔ آئین وہی ہے جو سپریم کورٹ قرار دے‘‘۔

دونوں دانشوروں نے تائیدی مسکراہٹ عطا کی۔ طلبہ خوش ہو گئے کہ آخری فرمان سپریم کورٹ کا ہی چلے گا۔ میں یہ سوچتا رہا کہ سو سال سے A.V Dicey کے پیچھے چلنے پر تنقید وہ کر رہے ہیں جو امریکی چیف جسٹس جناب جان مارشل کا دو سو سال پرانا ایک فرمان سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ اس شام ریستوران میں موجود تقریبا نوے طلبہ میں سے اگر ایک بھی جمہوریت پسند ذہن تشکیل نہیں ہوا تو اس میں قصور (یا اعزاز) ان دانشوروں کا ہی ہے۔

احمد علی کاظمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد علی کاظمی

احمد علی کاظمی پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ جامعہ امدادیہ کے طالب علم رہے ہیں۔ پاکستانی سیاسی و آئینی تاریخ اور سیاسی اسلام و جمھوریت کے مباحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ فلم بین اور کرکٹ کے تماشبین اس کے علاوہ ہیں۔ سہل اور منقح لکھنے کے قائل ہیں۔

ahmedalikazmi has 13 posts and counting.See all posts by ahmedalikazmi

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments