دلی کی عورتیں ۔ سید ضمیر حسن دہلوی 


\"painting_women_india_india-5\"

 دلی میں عورتوں کے لیے گھر سے باہر کی زندگی بالکل نہیں تھی، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پنجرے کے پنچھی کی طرح جیتی تھیں۔ اکثر ایسے میلے ٹھیلے اور عرس ہوتے تھے جن میں عورتیں بھی گھر سے سب افراد کے ساتھ شریک بزم رہتی تھیں۔ اعلیٰ خاندان کی عورتیں رتھ، یکے اور تانگے میں پورے اہتمام کے ساتھ سفر کرتی تھیں اور ان کے ٹھہرنے کا بھی باقاعدہ انتظام کیا جاتا تھا۔ غریب غرباء کی عورتیں شاہی عمارتوں، آستانوں اور تاریخی مہمان خانوں میں بڑے احترام سے ٹھہرائی جاتی تھیں، اگر وہ پردہ کرتی تھیں تو ان کے لیے علیٰحدہ کمرے دالان کا انتظام کیا جاتا تھا، اگر بے پردہ ہوتی تھیں تب بھی ان کا کونا ٹھکانا الگ بنایا جاتا تھا۔

قوالیوں، نعتوں اور حمد و ثنا پڑھنے میں بھی ان کا حصہ ہوتا تھا۔ غرض یہ کہ دل بہلانے کا پورا پورا سامان تھا۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ وہ دھول دھپا جو آج کل کا مزاج بن گیا ہے، یہ محفلیں اس سے پاک ہوتی تھیں۔ شاہی زمانے سے کچھ مینابازار بھی قلعے میں اور قلعے کے باہر عورتوں کے لیے لگا کرتے تھے، ان بازاروں میں بیٹی بٹار بغیر کسی روک ٹوک کے جاتی تھیں، سہیلیوں، بھنڈیلیوں سے ملتی تھیں، ہنسی مذاق اور چہلیں کرتی تھیں، یہاں تک کہ ان میں کبھی کبھی مخصوص دوستیاں بھی ہوتی تھیں۔

\"painting_women_india_india-7\"

دوپٹہ بدل بہنیں، انگوٹھی بدل بہنیں آپس میں مرد دوستوں کی طرح ایک دوسرے سے کھل کے ملتیں اور ایک دوسرے کی راز دار ہوتی تھیں، ان پر باہمی رشتوں کے بارے میں بہت کچھ باتیں ہیں جو کوئی پرانی عورت ہی بتاسکتی ہے۔ جہاں تک محافل میلاد کا تعلق ہے، وہ گندے نالے، فراش خانے، مٹیامحل اور کوچہ چیلان میں کثرت سے ہوئی تھیں۔ شریک ہونے والی عورتیں باقاعدہ ٹھسے کے ساتھ عمدہ لباس زیب تن کر کے گہنے پاتے پہن کر آتی تھیں تاکہ ان کی سماجی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکے۔

عالیشان حویلیوں کے دالان، آنگن، بارہ دریاں، سہہ دریاں، صحنچیاں، ڈیوڑھیاں آنے والیوں سے اور ان کے بچوں سے بھرجاتی تھیں۔ محرم کے مہینے میں امام باڑے سجائے جاتے تھے، چاندی سونے، کارچوبی اور لچکے ٹھپے کے مخملی علم، آئینہ خانے میں لگی براق، تعزیہ داری، طرح طرح کے مرصع قدآور تعزیے ان کے ساتھ سوز خوانی، مرثیہ خوانی، مجالس کے بعد تبرک کی تقسیم دس دن تک محرم کی چہل پہل، برسات میں جھولوں کا ڈالنا، گیت گائے جانا، پکوان تلنا اور مل جل کے برسات کی بہاروں سے لطف اندوز ہونا یہ سب اس زمانے کی رنگ رلیاں تھیں، جن میں عورتیں اپنا دل بہلانے کا سامان کیا کرتی تھیں، مختصر یہ کہ ہر طرح کے عیش تھے، قید و بند نہ تھی۔

\"painting_women_india_india-8\"
دلی کی عورتوں کا ٹھسا باہر والوں کی بیگموں سے زیادہ تھا۔ ناک چوٹی گرفتار یہ عورتیں اپنے آگے کسی کو گردانتی نہیں تھیں۔ باہر والوں کے لب و لہجے، گفتگو، رہن سہن، رسم و رواج پر ایسی پھبتیاں کستی تھیں کہ وہ سنتے تو تلملا اٹھتے تھے۔ شہر کے باہر رشتہ ناطے کرنے کا رواج ہی نہیں تھا، جو کسی کا لحاظ کیا جاتا، مثل مشہور تھی کہ دلی کی بیٹی متھرا کی گائے کرم پھوٹے تو باہر جائے، اسی لیے معاشرے میں ایک خودپسندی پیدا ہوگئی تھی۔ دلی والیاں اپنے جوبن میں تلتی رہتی تھیں۔ محفلوں میں ان کے نخرے نہیں لیے جاتے تھے۔ لباس ایسا پہنیں کہ دیکھنے والا دیکھتا رہ جائے، زربفت، کمخواب سے کم تو بات ہی نہیں کرتی تھیں، تہہ پوشیاں ایسی کہ ان کے پائینچے خادمہ اٹھائے چلا کرتی تھیں، گہنے پاتے سے درست گوندنی کی طرح لدی ہوئی میاں کی آدھی کمائی تو پان کھا کے اڑا دیتی تھیں، اس آن بان کے باوجود غیرت کا یہ عالم تھا کہ اگر کبھی برا وقت پڑتا تو منہ سے اف نہ نکلتی تھی۔

تنگی ترشی میں بھی اپنی آن بان کو برقرار رکھا۔ دو دو دن کڑاکے کے فاقے سے گزار دئے اور انگیٹھی جلا اس پر پتیلی میں پانی چڑھا دیا تاکہ محلے والوں کو پتہ نہ چلے کہ آج ان کے یہاں فاقہ ہے۔ ہاتھ ان کے ہنر آشنا تھے۔ برے بھلے وقت میں زردوزی، تارکشی، کامدانی، کیکری کٹاڑ کر کے خود بھی گزر کرتیں اور شوہر کا بھی ہاتھ بٹاتی تھیں، جچ سلیقہ ایسا کہ سوئی کے ناکے میں سے ہاتھی گزار دیں۔ اتنی سی ہلدی سارے گھر میں مل دی، جس گھر جاتیں اسے جنت بنادیتی تھیں، کھانے پکانے سینے پرونے اور دیگر امور خانہ داری میں طاق دسوں انگلیاں دسوں چراغ۔

\"painting_women_india_india-2\"
دلی کی طوائفوں کا ذکر بھی کچھ بے جا نہ ہوگا۔ نئی تانتی اب سے پچاس سال پہلے کی طوائفوں کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ یہ طوائفیں پیشہ نہیں کرتی تھیں۔ ان کے اونچے اونچے شاندار کوٹھے تھے۔ ان کوٹھوں میں گانے بجانے کی محفلیں جماتی تھیں۔ رئیس لوگ جنہیں اللہ نے مال و دولت سے نوازا تھا، ان کے کوٹھوں پر جا کر آداب محفل سیکھا کرتے تھے۔ پڑھی لکھی مجلسی آداب سے پوری طرح واقف جب ہی تو بڑے لوگ اپنی اولاد کو بھی درس آداب کے لیے ان کے پاس بھیجتے تھے، کیا مجال کہ بدتمیزی کا کوئی واقعہ درپیش آئے۔ یہ طوائفیں اور ان کے ٹھکانے تہذیب کے ادارے سمجھے جاتے تھے، یہاں تمیز تہذیب شائستگی سکھائی جاتی تھی۔ یہ سب اس زمانے کی باتیں ہیں، جب چاوڑی آباد تھی، سنا ہے کہ دلی کی دو مشہور طوائفوں نے نواب جھجھر کی شناسائی کے لیے کی گئی پیش کش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ حضور میرے اصطبل کا خرچہ بھی نہیں اٹھاسکتے۔ وہ دونوں شام کے وقت سات گھوڑوں کی بگھی میں بیٹھ کر مٹرگشت کو نکلتی تھیں، بٹوارے کے ہنگامے تک یہاں موتی جان اور نوشابہ جان موجود تھیں، لیکن یہ ان کا بڑھاپا تھا، نہایت صاف ستھرے مکان میں جامع مسجد کے قریب رہائش پذیر تھیں۔ بیگماتی زبان بولتی تھیں، نوشابہ جان شاہی گایک استاد تان رس خان کے بیٹے امراؤ خان کی شاگرد تھیں۔

\"painting_women_india_india-4\"

ان سے پہلے گانے والیوں میں امیر جان، شمشاد بائی، مجیدن بائی اور نواب پتلی اونچی گانے والیاں تھیں۔ طوائفوں کی رنگین محفلوں اور گائیکی کا ذکر گھنٹوں کیا جاسکتا ہے، مگر مناسب نہیں کہ اس قصے کو طول دیا جائے، بچے پڑھیںگے تو سوچیںگے کہ بڑھاپے میں بھڑ بھس سوجھی ہے، انہیں کیا معلوم کہ دلی والوں نے اس شوق کو بھی کس پاکیزگی اور تقوے طہارت سے نبھایا ہے، مختصر یہ ہے کہ طوائفوں کے جاہ و حشمت اور مرتبے کا اندازہ اس امر سے لگا لیجیے کہ دلی کے کئی سربرآوردہ سیاست داں اور برگزیدہ رئیس طوائف زادے تھے۔ا ن حضرات نے برسوں دلی کی سماجی زندگی میں ہماری آپ کی نمائندگی کی ہے۔ مرتے دم تک لوگوں کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔ خدا ان کے مدارج بلند کرے اور کروٹ کروٹ سکون عطا فرمائے۔ لیجیے یہ قصہ یہاں ختم کرتا ہوں انشاء اللہ آئندہ دلی کی سماجی زندگی کے کسی اور پہلو پر روشنی ڈالی جائے گی۔ یار زندہ صحبت باقی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments