پاکستانی فلم ”جیون ہاتھی“


\"zeffer05\"

ہماری فلم انڈسٹری؛ پاکستان فلم انڈسٹری۔ 1947ء میں قائم ہونے والی انڈسٹری تو اب ماضی کا قصہ ہوئی۔ گزشتہ چند برسوں‌ میں ٹیلے ویژن سے تعلق رکھنے والے پروڈیوسروں، اداکاروں، ہدایت کاروں، اور مصنفین نے انفرادی طور پہ چند کوششیں کی ہیں، اس کاوش کو تجرباتی کاوش ہی کہا جائے گا، رہی انڈسٹری کی، تو پاکستان فلم انڈسٹری کا تا حال کوئی وجود نہیں۔ پاکستان میں کوئی ایک ایسا ادارہ نہیں، جس کا کام فلم بنانا ہو۔ ٹیلے ویژن پروڈکشن ہاوس ہی ایک ایک دو دو فلمیں بنانے میں کام یاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان فلموں میں ٹیلے ویژن کے اداکار دکھائی دیتے ہیں۔ یہی اداکار آپ کو مختلف ٹی وی ڈراموں میں اسکرین پر دکھائی دیں گے۔ میری رائے یہ ہے، کہ کمرشل فلموں میں ٹی وی اداکار اسی صورت میں لیے جائیں، جب وہ ٹیلے ویژن پر کام کرنا چھوڑ دیں۔ ابھی یہ اس لیے ممکن نہیں، کہ کوئی ٹی وی کو چھوڑ کر فلم کرے، تو کھائے کہاں‌ سے؟ ہمارے یہاں اتنی فلمیں تو بنتی نہیں، کہ آپ اس سے اپنا کچن چلا سکیں۔

زی زندگی کی پروڈکشن ”جیون ہاتھی“ پاکستانی ٹیلے ویژن اداکاروں کو لے کر تیار کی گئی فلم ہے، جس کی نمایش 4 نومبر کو پاکستانی سینماوں پر ہونا ہے۔ فصیح باری خان اس فلم کے مصنف ہیں۔ ٹیلے ویژن کے ناظرین کے لیے یہ نیا نام نہیں۔ فصیح ٹیلے ویژن کے لیے بہت سے کام یاب ڈرامے لکھ چکے ہیں۔ ان کی خاص بات یہ ہے، کہ یہ ان چھوئے موضوعات کو چھوتے ہیں، اور اسی حقیقت کے قریب تر کر کے دکھاتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کے کردار عام لوگ ہوتے ہیں، عام لوگوں کی عام سی باتوں کو کہانی بنانا، یہ فصیح باری خان کو خوب آتا ہے۔ ”جیون ہاتھی“ اس سے پہلے ایشیائی فلم فیسٹیول، لندن میں پیش کی جا چکی ہے۔ مینو اور فرجاد اس فلم کے ہدایت کار ہیں، اور اداکاروں میں نمایاں نام حنا دل پذیر، فواد خان، سمیعہ ممتاز، کرن تعبیر، اور نصیر الدین شاہ ہیں۔

فلم کا آغاز الیکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا کی خبروں تبصروں اور ایسے ٹاک شوز سے ہوتا دکھایا ہے، جو گھر میں بیٹھے ”احمق“ پر اثرانداز ہوتے ہیں، اور پھر کہانی کیسے آگے بڑھتی ہے، اور دل چسپی کا عنصر برقرار رکھتی ہے، یہ دیکھنے کے لیے فلم بینوں کو سینما ہال آنا پڑے گا۔ ایک طرف ہم میں سے بہت ہیں، جو ہندستانی فلم پر پابندی کی بات کرتے ہیں، ان افراد کو تو ضرور سینما ہال جا کر یہ پاکستانی فلم دیکھنی چاہیے۔ گو کہ اس فلم کو بھی انڈین انڈسٹری کی فلم کہا جاسکتا ہے، لیکن کیا ہے، کہ جب یہاں وہ سہولیات ہی نہیں، جو اچھی فلم کے لیے درکار ہوتی ہیں، تو پوسٹ پروڈکشن کے لیے ہندستان کا رُخ کیا جاتا ہے۔ کم بجٹ کی یہ تجرباتی انداز کی طربیہ فلم ہے، دورانیہ عام فلموں سے کم ہے لاگت بھی بہت کم ہے،اگر یہ فلم باکس آفس پر اپنی لاگت پوری کر لیتی ہے، تو آیندہ کے لیے ایسی کم بجٹ فلموں کی راہ ہم وار ہو سکتی ہے۔ فلم کے مصنف کا کہنا ہے، کہ وہ یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں، کہ دونوں ہدایت کاروں مینو اور فرجاد نے بہت ہی حساسیت کے ساتھ اس فلم کو عکس بند کیا ہے۔

“جیون ہاتھی“ کے لیے کہا جا رہا ہے، کہ پہلی پاکستانی فلم ہے، جو ”بلیک کامیڈی“ ہے۔ ہنسی ہنسی میں سنجیدہ بات کہ جانا، ناظر کو سوچنے پر مجبور کر دینا؛ یہ ایسا آسان کام نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں مزاح لکھنا، مزاحیہ اداکاری کرنا، مزاحیہ پروگرام کی ہدایت کاری، الغرض مزاحیہ فلم بنانا مشکل ترین کام سمجھا جاتا ہے۔ کسی کو رُلانے کے لیے اتنی محنت نہیں کرنا پڑتی، جتنا کسی کے لبوں پر ایک باریک سی مسکان لانے کے لیے۔ پھر دُنیا بھر میں ہنسانے والوں کو بہت اونچا مقام دیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں بد قسمتی رہی، کہ ہنسانے والوں کو مسخرہ سمجھا جاتا ہے، اور رُلانے والے کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ رنگیلا، منور ظریف، اور لہری کو وہ عزت نہیں ملی، جو ندیم، محمد علی، سنتوش، وحید مراد کے حصے میں آئی۔ جب کہ اُن کے یہاں چارلی چپلن ایک مثال ہیں، یہ بحث دوسرے رُخ نکل جائے گی۔ آپ 4 نومبر کو ریلیز ہونے والی فلم ”جیون ہاتھی“ دیکھیے۔ اگر یہ فلم کا یاب رہتی ہے، جس کے لیے ہم دعاگو ہیں، تو پاکستانی پروڈیوسروں کو مزید توانائی ملے گی۔ ہر اچھی فلم کی کام یابی، ہر فلم میکر کی کام یابی ہے۔

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments