دہشت گردی اور تیموری آہن پوش آنکھیں


\"hina

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ بے حس ہونا بھی ایک نعمت ہے اور بحیثیت قوم ہم اس نعمت کے معاملے میں خود کفیل ہو چکے ہیں۔ یقین نہ آئے تو آج کے اس برق رفتار میڈیا کی طنابیں کھینچ کر ریاست میں ہونے والے ایک سانحے سے دوسرے سانحے کا نہایت قلیل فاصلہ اور اس پہ ہونے والا سطحی اور بناوٹی ردعمل ملاحظہ کر لیجیے۔ سول ہسپتال کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے کے زخم ابھی ہرے ہی تھے کہ پولیس ٹریننگ سنٹر پر ہونے والے حملے نے ان ناسوروں کو پھر سے رگید ڈالا۔ ہم احساس سے عاری لوگ پے در پے صدمات کو جھیلتے مظلوموں کے کرب کی شدت کا اندازہ کیونکر لگا سکتے ہیں ۔

جب ایک ماں اپنے رخصت ہونے والے لختِ جگرکے جوتوں کو چوم کر سینے سے لگاتی ہے تو ہمارے دل نہیں دہلتے بلکہ ہمیں تو ان معتبر ہستیوں پررشک آتا ہے جن کی درد ناک تقاریر اور مذمتی بیانات اخبارات اور میڈیا کی سرخیوں میں دندناتے ہوئے اور دشمن کو للکارتے ہوئے طلوع ہوتے ہیں اوراسی دن کی شامِ غریباں میں ڈوب کرکہیں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یکسانیت سے بھرپور ایک کام جو وہ ہمیشہ کرنا نہیں بھولتے کہ جانے والوں کے لواحقین کو اپنے باسی لفظوں سے بنے پُرسوں کے ہار تمغوں کی ماند پہنائیں اور جاتے جاتے سبز ہلالی پرچم سے مزین ان نئے تابوتوں کے معصوم مکینوں کی پیشانیوں پرشہادت کی تابناک مہر ثبت کرتے جائیں جو اگلے سانحے تک یونہی چمکتی دمکتی رہے۔

\"mother-kissing-boot\"

تعجب ہے کہ ہم یہ سوچنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ آئے دن رونما ہونے والے یہ حادثات حکومتِ وقت،سیکورٹی فورسز اور خفیہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ریاست میں موجود عسکری تنظیموں کی سر عام تشکیل سے مشروط ملکی سلامتی اور امن و امان سے جڑے اہم اور ناگزیر سوالات کا نوحہ ہیں۔ یہی نہیں عوامی سطح پر ہماری اس بے حسی اورلا تعلقی کا فائدہ اُٹھاتی ریاست کی سرکش اور نافرمان قوتیں اپنے ذاتی عناد،تعصب ، خود سری اور سر کشی کی بنیاد پر ظلم اور استحصال کا بازار گرم کرتی ہیں اورپھر اس بربریت کا جواز مذہب اور سیاست کے لبادوں میں ملفوف کر کے پیش کرتی ہیں۔ رکیے مذہب کی آڑ میں سیاست اور سرکشی کوئی نئی بات تو نہیں، یہاں اس مقام پر ہماری شاندار اور درخشاں مسلم تاریخ کا ایک ایسا ہی عظیم الشان فاتح کردار’’امیر تیمور‘‘ مجھے یاد آتا ہے ۔

جس کے رعب اور دبدبے کی تاریخی کہانی کو ’’عزیز احمد‘‘ نے اپنے جڑواں تاریخی ناولٹس ’’خدنگِ جستہ‘‘ اور ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘‘ میں پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔

\"tamerlane-427x700\"

وہ چنگیز خاں اور ہلاکو خاں کی پیروکار تاتاری قوم سے تعلق رکھنے والاایک ایسا جنگجو حکمران ہے کہ جس کی فہم و فراست اپنے ذاتی عناد و انتقام کا جواز مذہب اور سیاست کے زیر سایہ پیش کرنا بخوبی جانتی ہے۔ جو عدل میں سازش کے ہر حربے سے آشناہے۔ ’’امیر تیمورگورکان‘‘ جسے ایک ٹوٹے ہوئے تیر نے ’’تیمور لنگ ‘‘بنا ڈالا تھا۔ عزیز احمد لکھتے ہیں:

’’وہ ایک تیر، ایک خدنگِ جستہ جو میدانِ حرب میں اتنا عام جیسے گھر میں سوئی اور تاگہ ۔ لیکن جس نے انسانی آبادی کی کایا پلٹ دی۔ ‘‘

یہ وہی وہ تیمور ہے جس نے اپنے ایک تاتاری سپاہی کو پیٹھ پیچھے ’’تیمور لنگ‘‘ کہتے سنا تو اس کی کھال کھینچ لی۔

’’تیمور کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے اسی وقت لگام کھینچ لی۔ اور ایلچی بہادر کو حکم دیا کہ اس ترکمان کی کھال کھینچ لی جائے۔ اس کی لاش وہیں تین دن تک پڑی سڑتی رہی اور اس پر مکھیاں بھنبھناتی رہیں اور جنگلی کتے اور گدھ دوڑتے رہے۔ تمام سپاہیوں کے دل میں اپنے آقا کے لیے تعظیم اور اور ہیبت کا جذبہ پیدا ہوا۔ ‘‘

وہ تیمور جس نے فاتح بن کر مذہب اور ریاست کی خاطرکٹے ہوئے سروں کے مینار تعمیر کیے اور دہشت و ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس ہیبت ناک منظر کو ناول کے مؤرخ کردار نظام الدین شامی کی زبانی سنیے:

\"tamerlane-skull-pyramid\"

’’میری آنکھوں نے دیکھا کہ سات مینار تھے، کٹے ہوئے سروں کے مینار، کئی قدِ آدم اونچے، مصر کے اہرام کی طرح نیچے کی طرف پھیلے ہوئے اور پھر اوپر ان کا قطر کم ہوتا جاتا اور میری آنکھوں نے دیکھا کہ یہ سات مینار سروں کے بنے ہوئے تھے۔ مردوں ، عورتوں، بچوں، جوانوں، بوڑھوں کے سروں کے بنے ہوئے تھے، ان کے چہرے باہر کی طرف چنے ہوئے تھے۔ کسی کٹے ہوئے ماہِ طلعت چہرے کی زلفیں، کسی اور کٹے ہوئے چہرے کی حنائی ریش سے اُلجھی ہوئی تھیں۔ کہیں کئی بچوں کے چہرے ایک ساتھ چنے ہوئے تھے، جیسے کسی بڑی عمارت میں بڑی بڑی اینٹوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی اینٹیں چنی گئی ہوں۔ میں نے ایسے چہرے دیکھے جنھیں خنجر کی نا ہنجار چمک نے موت کے لحظے میں حیوانوں کی صورت مسخ کر دیا تھا۔ لیکن میں نظام الدین شافی اقرار کرتا ہوں کہ ان بیس ہزار کے چہروں کے متعلق میں نے کچھ نہیں لکھا۔ کیونکہ امیر صاحب ِ قراں نے بیس ہزار کو موت دی اور مجھے زندگی دی۔ اس لیے کہ میں امیر کی ظفر یابی کی داستان لکھوں۔‘‘

تاریخ کے اس لرزا دینے والے واقعے کے پس پردہ محرکات میں در حقیقت امیر تیمور کی وہ ذاتی دشمنی پنہاں ہے جو اسے اپنے سلطان امیر حسین کے ساتھ تھی۔ اس دشمنی کی وجہ نظام الدین شامی کو امیر تیمور کے حواری نے جو بتائی وہ ہمارے حکمرانوں سے بھی چنداں مختلف نہ تھی:

’’میں تمہیں بتاؤں امیر حسین کے زوال کا باعث کیا تھا۔ ایک محض لالچ۔ امیر تیمور کو سلطان حسین کا تورا ہونا ، چنگیزی ہونا، سلطان ہونا منظور تھا۔ قطعاً منظور تھا لیکن سلطان حسین کی فطرت میں دادو دہش کو دخل نہیں تھا، دارد گیر کو دخل تھا اور یہ ہم تاتاریوں، برلاسوں ، جلائروں کا عسکری نعرہ ہے۔ دارد گیر، دارد گیر۔ لوٹتے جاؤ، جمع کرتے جاؤ۔ لوٹتے جاؤ، جمع کرتے جاؤ۔ اور جب پرائے نہ ہوں تو اپنے سہی۔ ‘‘

\"tamerlane\"

کہانی میں قاضی زین العابدین جیسا منصف کردار بھی آتا ہے جو امیر تیمور کے ظلم کے آگے کلمہ ٔ حق کہنے سے نہیں ڈرتا:

’’میں نے ا ٓپ کے لیے امیر صاحب قراں کا لقب تجویز کیا تو خوشامد کی بات نہیں تھی۔ میں نے آپ کی پیشانی پر اقبال کا ستارہ چمکتا دیکھا تھا۔ اب یہ آپ کے اختیار کی بات ہے کہ یہ جبر کا ستارہ ہو گا یا عدل کا۔ اے امیر اب اگر اس بوڑھے کی زبان کٹوانی ہو تو کٹوا دیں لیکن جب تک اس زبان میں طاقت ِ گویائی ہے مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ عدل میں سازش کا کوئی مقام نہیں۔ جب جسم کو فولاد کا بکتر پہنایا جاتا ہے اور سر پر آہنی خود اوڑھا جاتا ہے تب بھی آنکھیں کھلی رہتی ہیں۔ حا لانکہ آنکھیں جسم کا سب سے نازک حصہ ہوتی ہیں۔ لیکن جب آنکھیں آہن پوش ہو جائیں تو یہ زرہ بکتر بیکار ہے، فولادی خود بیکار ہے۔ سو عدل میں اتنا ہی خطرہ ہے جتنا آنکھوں کے آہن پوش ہو جانے میں۔ ‘‘

مت بھولیے کہ امیر تیمور تاریخ کا وہ آفاقی کردار ہے جسے اپنے دشمن سے انتقام لینا آتا ہے ،وہ جانتا ہے مذہب اور سیاست سے بنے عدل کے ان دائروں میں سازشیں کیسے گردش کرتی ہیں۔ اسے وہ بساط بچھانی خوب آتی ہے جس میں شہ اور مات اس کے اپنے اختیار میں ہو۔ ناول کا آخری پیراگراف اس بات کی دلیل بن کر سامنے آتا ہے۔

’’بابا زین الدین نے تہجد کی نماز سے منہ پھیرا اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ یہ کیخسرو تھا جو تیزی سے تیمور کے خیمے کی طرف جا رہا تھا، اس کے ہاتھ میں کسی کا کٹا ہوا سر تھا۔ وہ اسے اس طرح اُٹھائے ہوا تھا کہ داڑھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس بے حرمتی سے تو کٹے ہوئے دنبے کا سر بھی کوئی قصائی نہیں اُٹھاتا۔ قاضی زین الدین نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھایا۔ اور خدا سے ساری دنیا کے لیے دعا مانگی۔ ان شہروں کے لیے جنھیں اب تک مسمار نہ کیا گیا تھا، ان شہریوں کے لیے جن کا اب تک قتل عام نہیں ہوا تھا، ان عورتوں کے لیے جن کی عصمت دنیا بھر ے مکانوں میں محفوظ تھی، ان بچوں کے لیے جو یتیم نہ ہوئے تھے، اور غلام نہیں بنے تھے۔ اور جب وہ دعا مانگ رہا تھا تو کوئی اس کے دل سے چپکے چپکے کہہ رہا تھا، یہ سب بیکار ہے، یہ سب بیکار ہے۔ کیونکہ وہ دونوں آنکھیں آہن پوش ہو چکی ہیں۔ ‘‘

\"tamerlane-3\"

تاریخ کے جھروکوں سے عدل کے ایوانوں میں جھانک کر دیکھا جائے تویہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں بھی کئی آنکھیں آہن پوش ہوچکی ہیں۔ عدل کو ترستے ،اپنے پیاروں کا ماتم کرتے روتے ،بلکتے اورسسکتے عوام، جھولی پھیلا پھیلا کر انصاف طلب کرتی بوڑھی مائیں ،جب اپنے رخصت ہوئے جگر کے ٹکڑوں کو پکارتی ہیں تو ہم اپنے کلیجوں پر ہاتھ دھرے ان کی اجڑی گود میں مصنوعی دلاسوں سے بنی ہمدردیاں اور مذمتوں کے کھوکھلے بیانات ڈال کر چپ چاپ چلے آتے ہیں۔ ان معصوموں کی فریاد سے نہ تو آسمان پھٹتا ہے اور نہ ہی زمین شق ہوتی ہے، ہاں لیکن گھر کے کفیلوں کے چلے جانے سے ان پرزندگی ضرور تنگ ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف اپنے ظلم کا جواز تراشنے والے مذہبی صحائف اور سیاسی پرچاروں کی بیساکھیوں کا سہارا لیے ،قطاروں میں لگے تابوتوں کے تخت پر اپنی سیاست کے دربار کھڑے کرتے ہیں اورلوگوں کے دلوں میں اپنی بربریت سے دھاک اور ہیبت بٹھاجاتے ہیں۔ یاد رکھیے جب تک ریاست کے سبھی شہر ایک دوسرے سے باہم ایک اکائی کے مربوط نہ ہوں ،انھیں زندگی کی یکساں سہولیات و اصلاحات میسر نہ ہوں،ریاست کا اتحادہر گز ممکن نہیں۔ دکھ کی اس گھڑی میں ہمیں اپنے لسانی و علاقائی تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کا دکھ بانٹنا ہو گا۔ ہمیں ظلم کے خلاف متحد ہوکر لڑنا ہو گا۔ ہماری مزاحمت ہی ہمارے تاریک مستقبل پر دلیلِ سحر ہو گی، جلد بدیر ہمیں یہ بات ضرور سمجھ میں آئے گی کہ عدل میں سازش کا مقام خود اپنے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کے سروں کے مینار کی تعمیر کے سوا کچھ بھی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments