مذمت کے لالی پاپ اور مضبوط عزائم کی گھٹی


\"14813515_1712651615728100_1014964392_n\" رات کو آنکھ بند کرتے وقت کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ ہوا تھا دل نے اُسی وقت خاموش آواز میں چیخ کر کہا کہ نہ جانے کتنی ہلاکتیں ہوں گی، رات گئے دو افراد جاں بحق جبکہ چند ایک زخمی تھے، آنکھ کھلتے ساتھ دیکھا کہ 55 سے زائد شہید اور ان گنت زخمی ہیں

پھر دل خون کے آنسو رونے لگا مگر کمبخت اب اس دل کو شاید عادی ہوجانا چاہئے، بالکل ویسے ہی جیسے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہر سانحے کے بعد مذمت کے لارے لپوں اور لالی پاپ سے لے کر قوم کے عزائم مضبوط ہیں کی گھٹی پلانے کی عادت ہوگئی ہے، شاید ہم سب کو اب عادت ہوجانی چاھئے کہ وزیراعظم اور آرمی چیف سانحے کے بعد جائے وقوعہ کا جائزہ لیں گے اور اپنے اپنے مورچے سنبھال کر 90 فیصد آپریشن مکمل ہونے کے دلائل کے انبار لگا دیں گے، اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حالیہ سانحات اقتصادی راہداری کے منصوبے کے لیے دی جانے والی قربانیاں ہیں

کوئی مائی کا لال ان سے پوچھے کہ 2001 سے بم دھماکے ہورہے ہیں جن میں 60 ہزار سے زائد انسانی جانیں چلی گئی، اُس وقت کون سا سی پیک تھا ؟؟

کہا جارہا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کے دہشت گردوں کو افغانستان سے ہدایت مل رہی تھی تو کیا عوام یہ سوال بھی نہیں پوچھ سکتے کہ آپ لوگ کیوں خواب غفلت میں سو رہے تھے؟

جب روم جل رہا تھا تو نیرو چین کی بانسری بچارہا تھا مگر اب مورخ لکھے گا جب پاکستان جل رہا تھا تو ادارے ایک سے بڑھ کر ایک نت نئی ایم کیو ایم پہ ایم کیو ایم بنارہے تھے

سانپ کو پال کر یہ امید ہی چھوڑ دیں کہ وہ آپکو ڈسنا چھوڑ دے گا، ساری دُنیا میں تنہا رہ جانے کا رونا رونے والے ایک سیکنڈ کو ہی اپنی اَنا کو سائیڈ پہ رکھ کر سوچیں کہ ڈالرز کے لیے کس طرح قبائلیوں کی حق تلفی کی گئی، افغانستان جہاد اور کفر کے نعروُں کے ساتھ گونج اٹھا اور آج پالیسی بدل جانے کی صورت میں اُن جہادیوں کے کافروں سے جہاد اور اپنی جانوں کے نذرانے دینے کی اور اپنی نسلیں اجاڑ نے کی کیا حیثیت رہ گئی ؟\"ody-bags\"

گزشتہ سانحہ کوئٹہ میں مرنے والوں میں انتہائی پڑھے لکھے انٹیل ایکچوئیل بلوچستان کے وہ وکیل تھے جو لاپتہ افراد کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کے ساتھ اپنی ذات میں خود انقلابی تھے ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے گروپ جماعت الاحرار کی جانب سے کوئٹہ حملے کی ذمہ داری قبول کرلی گئی تھی، پاکستان وہ ملک ہے جہاں دہشت گرد اپنی ذمہ داریاں قبول کرلیتے ہیں مگر جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن قائم کریں، وہ بظاہر کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کو تیار نہیں

ذمہ داری پہ ذمہ داری، مذمت پہ مذمت، کمیٹیوں پہ کمیٹیاں اور شہادتوں پہ شہادتیں۔۔ اب قوم ان سب لفظوں سے بہت تھک چکی ہے، ہمیں نہیں خبر ٹوٹی کمر والوں کا ٹھکانا کہاں ہے مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ اِس قوم کے بوڑھےباپ کی کمر اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر ٹوٹ چکی ہے، غم سے نڈھال ماں کے وجود کا پور پور ٹوٹ کر بکھر گیا، ٹوٹی کمر والوں نے اب ہمارے مورال توڑ کر رکھ دئیے ہیں۔ یقین مانیں اگر ماؤں کو علم ہوجائے کہ ان کی جوان اولادیں اس بے دردی سے ماردی جائیں گی اور پھر قتل و غارت گری کو شہادت کا درجہ دیا جائے گا جبکہ ان ماؤں نے اپنے لعل کو کسی میدانِ جنگ یا جہاد پر بھیجا بھی نہ ہو تو وہ حمل کے دوران ہی ننھی زندگی کو دُنیا میں لانے سے انکار کردیں، وہ \"mother-kissing-boot\"اپنے ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کو دنیا میں آنے سے پہلے موت دینا پسند کریں بجائے اُس موت کے جہاں جسمانی اعضاء بھی بوریوں میں جمع کئے جاتے ہوں

شاید ہمارے حوصلے ٹوٹی ہوئی امیدوں کی آخری سیڑھی پر کھڑے لرز رہے ہیں، اب تو ماضی کو پیٹ پیٹ کر حلق میں آبلے پڑ گئے ہیں مگر سانحات پہ سانحات اور الم پے الم گزر ہے ہیں

آج ہم زمینی خداؤں سے پرائی جنگ میں کودنے کا گلہ بھی نہیں کریں گے ہمیں صرف اتنا جواب دیا جائے کہ سیرل المیڈا کی خبر پر ہنگامی اجلاس بلائے گے، جس خبر کا ڈھانچہ دہشت گردوں کی سرپرستی تھا تو پھر دو دن قبل وزیر داخلہ اُن ہی نامور دہشت گردوں کے ساتھ مل کر کیا طے کررہے تھے؟

بہت سے سوال کرنے والے زمین کے نیچے ہیں یا مِسنگ پرسن کے ٹائٹل کے ساتھ لاپتہ ہیں، اور اُن کے حق میں بھی بولنے کی سزا لاپتہ۔۔۔

ایسی صورت میں دُنیا کو یہ کیسے یقین دلایا جائے گا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں؟ ہمیں ہمسائے تک اپنانے کو تیار نہیں، بس محض چین کے دم پر ویٹو پر غرور ہے، جبکہ چین بھی دہشت گردی پر تحفظات کا شکار ہے، چین اپنے مفادات وابستہ ہونے کی وجہ سے آج دوست بنا ہوا ہے، جس دن مفادات کا سودا مکمل ہوا، اُس دن شاید یاجوج ماجوج ساری دیوار چاٹ جائیں گے

کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر کے سانحہ میں سوال حکومت کی اہلیت بھی واضح ہوگئی کہ بسوں کی چھتوں پر میتیں رکھ کر لےجائی جائیں گی جبکہ صرف ایک فوجی اہل کار کی میت پر اس قدر شور کہ 60 پر بھاری !\"bodies01\"

موجودہ حکومت اپنی کرسی بچانے کی جنگ لڑرہی ہے، عمران خان اسلام آباد بند کرنے کی جستجو میں ہیں، باقی سیاسی ورکر شکریہ جنرل راحیل شریف کے نعرے لگانے پہ لگا دیئے گئے ہیں تاہم اگر کوئی بے آسرا ہے تو وہ پاکستان کا عام آدمی ہے

سنتے آئے تھے ماں کے پیروں تلے جنت ہے مگر میں نے اس ماں کی تصویر دیکھی جو اپنے بیٹے کے پیروں کے جوتے کرب سے چومتی دکھائی دے رہی ہے ۔ اُن ماؤں کو صبر کیسے آئے گا؟

کوئٹہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جہاں قدم قدم پر چیک پوسٹیں ہیں، سمجھ سے بالاتر ہے یہ لوگ ہمیشہ ان چیک ہوسٹوں کو عبور کیسے کرجاتے ہیں، لگتا ہے قوم کے بہادر نوجوانوں کو جماعت الدعوة اور لشکر جھنگوی سے ٹریننگ دلوانا پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments