ہمارے شاہ مدار ستارے


 احتجاج کرنے والا دومیں سے کسی ایک چیز پر کھڑا ہوتا ہے …. کسی ایشو پر یا اپنی دُم پر۔\"waqar

ہمیں آج تک اس بات کی سمجھ نہیں آ سکی کہ 1977ءمیں ہمارے احتجاجی نوستاروں نے کسی ایشو پر سٹینڈ لیا تھا یا اپنی دم پر کھڑے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کو امریکہ کی طرف سے سپانسر کیا گیا تھا۔ اس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ فاضل احتجاجی ستاروں کو امریکہ نے دمیں لگا کر ان پر کھڑا کردیا تھا تاکہ ضیاءالحق کے مارشل لاءاور بھٹو کو سبق سکھانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ آج مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ کسی کا باپ بھی جمہوریت کو غیر مستحکم نہیں کر سکتا، جبکہ تاریخ اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ کیئوں کے باپوں نے جمہوریت کا تیا پانچہ کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ کوزہ گر جب کوزے تخلیق کرتے ہیں تو ان کو دم ضرور لگاتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت ایسے دمدار ستاروں کو ان دموں پر کھڑا کیا جاسکے یا ان پر پاﺅں رکھا جا سکے۔ ایک کالم میں پوری تاریخ کا احاطہ ممکن نہیں، مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعد ازاں بے نظیر بھٹو اور نوا ز شریف کی حکومتوں کے خاتمے اور آئی جے آئی، ق لیگ اور ایم ایم اے کی تخلیق اور ان کی کامیابیوں میں حسب سابق دموں کا کردار کلیدی رہا ہے۔

تاہم اب پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ آج پاک فوج کی کمان ضیاءالحق یا پرویز مشرف نہیں بلکہ جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے، جنہوں نے ہماری تاریخ کے قابل ترین سپہ سالار کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا کر جو عزت کمائی ہے، اسے وہ یقینا کسی احتجاجی تحریک کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیں گے۔ ہم یہ بھی حسن ظن رکھتے ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر اکابرین ماضی کے اپوزیشن رہنماﺅں کی طرح کوئی دمدار نہیں بلکہ آسمان سیاست کے روشن ستارے اور جینوئن لیڈر ہیں۔ وہ کسی بھی غیر جمہوری تبدیلی کے خلاف ہیں اور انہیں قابل لحاظ عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ پانامہ لیکس پر نواز شریف اور ان کے خاندان کا احتساب عمران خان کا کلیدی مطالبہ ہے اور بحیثیت اپوزیشن رہنما وہ اپنے اس موقف پر حق بجانب بھی ہیں کیونکہ ہماری ” مالی فتوحات“ کی تاریخ میں یہ ایک انتہائی سنگین سکینڈل ہے۔ بلا شبہ وہ ایک اہم ایشو پر کھڑے ہوئے ہیں۔ اگر وزیراعظم پارلیمنٹ میں خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیتے اور ٹی او آرز پر اپوزیشن کے مطالبات مان لیتے،نیز سپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم کے خلاف دائر کردہ ریفرنس خارج نہ کرتے تو آج حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ تاہم اب عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں تحریک انصاف کے چیئرمین اور دیگر کی آئینی درخواستوں پر نواز شریف، مریم نواز،حسن نواز، حسین نواز اوراسحاق ڈار وغیرہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے یکم نومبر کو جواب طلب کرلیا ہے۔ ادھر وزیراعظم نے عدالتی کارروائی کا خیر مقدم کیا ہے اور عمران خان بھی مطمئن ہیں۔ یوں سپریم کورٹ کے ذریعے ہی سہی مگر عمران خان کا ایک اہم مطالبہ تسلیم ہو گیا ہے۔ محرمان راز درون میخانہ کہہ رہے ہیں کہ یہ معمول کے لمحات نہیں بلکہ ایک سنجیدہ کارروائی کا آغاز ہے اور عدالت عظمیٰ میں دائر پٹیشنز لا متناہی وقت کے لیے زیر سماعت نہیں رہیں گی۔ ان حالات میں اب تحریک انصاف اور اس کے حامیوں کو اسلام آباد بند کرنے کی بجائے عدالتی کارروائی پر بھرپور توجہ دینی چاہیے تاکہ پانامہ لیکس کا معاملہ قانونی طریقے سے اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکے۔

اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے فاضل رہنمائے کرام جس طریقے سے اس مرتبہ احتجاج کا تہیہ کیے بیٹھے ہیں، اسے کوئی احسن انداز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارا اختلاف ان کے احتجاج پر نہیں بلکہ طریقہ احتجاج پر ہے۔ اسلام آباد میں لاکھوں لوگ آباد ہیں، ان کا ناطقہ بند کر کے حکومت کے خلاف احتجاج کا یہ اسلوب عوام کے لیے تکلیف کا سبب بنے گا۔ وفاقی دارالحکومت کے لوگ گھروں میں مقید ہو جائیں گے، وہ اپنے کام پر اور بچے سکول و کالج نہیں جا سکیں گے، مریض سڑکوں پر ایمبولینسوں میں پھنس جائیں گے اور بیرون شہر سے آنے والے ملازم، کاروباری لوگ اور مریض شہر میں داخل نہ ہو سکیں گے جبکہ اسلام آباد سے باہر جانے کے خواہشمند بھی مبحوس ہوکر رہ جائیں گے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسے احتجاج کی اجازت نہیں۔ شہروں کو بند کرنا تو درکنار،سڑکوں کے کنارے احتجاج اس سلیقے سے کیا جاتا ہے کہ ٹریفک میں خلل نہ پڑے اور نہ ہی کاروبار زندگی مفلوج ہو۔ احتجاجی جلسوں کے لیے الگ سے مقامات بھی مختص ہیں جس سے روزمرہ کی زندگی میں خلل نہیں پڑتا۔ اگر تحریک انصاف کے رہنماﺅں کے نزدیک احتجاج ضروری ہے تو اس کے لیے کسی پارک یا گراﺅنڈ کو اپنا ٹھکانابنایا جا سکتا ہے،جیسے انہوں نے 2014ءمیں ڈی چوک کو بنایا تھا۔ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا انہیں بھرپور کوریج دے گا اور وہ حکومت پر دباﺅ بڑھانے کا اپنا مقصد پورا کر سکیں گے۔ تاہم ان کے احتجاج کے موجودہ طے شدہ طریقے کے مطابق اگر عوامی مقامات پر کشیدگی کے ماحول میں کوئی جانی یا مالی نقصان ہو گیا تو تحریک کے خلاف مدارس اور طالبان کے ذریعے انتشار پھیلانے کے لیے رقوم تقسیم کرنے کے الزامات کو تقویت حاصل ہو گی۔ اگرتشدد اور فسادات کی آگ بھڑک اٹھی اور فوج کو مجبوراً کوئی انتہائی قدم اٹھانا پڑ ا یا کسی غیر جمہوری تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی تو اس کا ذمہ دار بھی تحریک انصاف کو قرار دیاجائے گا۔ ایسی ناخوشگوار صورتحال میں ہمارے ایسے خیر اندیشوں کا حسن ظن بھی اپنا حسن کھو بیٹھے گا کہ تحریک انصاف کے رہنما امن و امان کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اگر حکومت اور تحریک نیک نیتی سے چاہیں تو وہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے باہمی مذاکرات کے ذریعے اپنے اپنے موقف میں لچک پیدا کر کے خطرناک اور غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔

پس تحریر : ذاتی طور پر ہمیں ہر دو متحارب گروپوں سے اختلاف ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما کہتے ہیں کہ دو نومبر کو اسلام آباد بند کر دیں گے جبکہ ن لیگ کی حکومت کاعزم ہے کہ وہ ایسا نہیں کرنے دے گی۔ وزیراعظم کی زیر صدارت ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی کو ریاستی مشینری روکنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان دونوں کے مقابلے میں ہمارا موقف ذرا سائنسی نوعیت کا ہے۔ سائنس کی رو سے کسی بند چیز کو دوبارہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ مراد یہ ہے کہ جو مشینری ”آل ریڈی“ جام ہو اسے چالو کیے بغیر دوسری مرتبہ جام کرنا ممکن نہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین کہتے ہیں کہ کسی سرکاری اہلکار کو اس کے دفتر نہیں جانے دیاجائے گا۔ گویا اس سے پہلے سرکاری اہلکار دوڑے دوڑے اپنے دفتروں کوجاتے ہیں اور وہاں جا کر ملک کی انتظامی مشینری چلاتے ہیں۔ جس شہر اقتدار سے ملک کے عوام کو کسی بھی قسم کے ریلیف کی بجائے مسلسل تکلیف در تکلیف کا سامنا ہو، کیا ایسی زنگ آلود انتظامی مشینری کو ”چالو حالت میں“ قرار دیا جا سکتا ہے ؟ پہلے سے ایک جام مشینری کو جام اور ستم رسیدہ عوام کی زندگیوں کو مزید مشکلات سے دوچار کرنا ….یہ تو وہی بات ہوئی کہ مرے ہوئے کو مارے شاہ مدار۔ اسی لیے تو ہم نے انہیں ”شاہ مدار ستارے“ قرار دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments