کیا اب دھرنا ہوگا؟


\"sarwat-khan\"

اور عدالتی فیصلہ ہوگیا۔۔۔۔جیسے کوئٹہ پر حملہ ہوا اور سانحے پر علامتی سوگ بھی گذر گیا لیکن کیا دھرنا ہوگا؟ پاکستان تحریک انصاف کے کپتان جو شہر اقتدار کو پچ اور نواز شریف کو وکٹ سمجھ کر احتساب کی گیند سے انھیں اڑانے کےلیےاسلام آباد کی طرف تقریبا دوڑ لگانے کو تیار تھے۔ میچ سے عین پانچ دن قبل عدالت نے امپائر کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی انگلی اٹھادی۔ فیصلہ سنادیا کہ دارالحکومت میں نہ تو کنٹینرز لگیں گے، نہ سڑکیں بند ہوں گی۔ ایسا کوئی عمل نہیں ہوگا جو شہریوں کی روز مرہ زندگی میں خلل ڈالے۔ اپمائر نے مزید کہا 2 نومبر کو شہر کے تمام تعلیمی ادارے ، ٹرانسپورٹ اور دفاتر کھلے رہیں گے۔ کپتان جو کہ فرما چکے تھے کہ کچھ بھی ہو دھرنا کسی بھی صورت ملتوی نہیں ہوگا بلکہ حکمرانوں سے اب مزید ڈٹ کر ٹکرائیں گے کیونکہ اس ملک کے لیے خود وزیر اعظم ایک ”رسک“ یعنی خطرہ بن چکے ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہ نما نے بھی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے اپنے بیان سے کپتان کو خوش کردیا تھا کہ 2 نومبر کو اگر ریاستی دہشت گردی ہوئی تو وہ کپتان کا ساتھ دیں گے۔آنے والے دھرنے سے یاد آیا کہ 2014 کے دھرنے کا زور نہ ٹوٹتا اگر ٹوٹی ہوئی کمر کے حامل دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول کے معصوم طلباء کو ”سافٹ ٹارگٹ“ نہ بنایا ہوتا۔

دھرنا اب بھی ہے لیکن اس بار سانحہ ذرا پہلے ہوگیا اور درجنوں جوانوں کی میتیں تابوت میں بند کرکے قومی پرچم میں لپیٹ دی گئیں۔ آرمی چیف کے بغل میں کھڑے ہوکر سربراہ مملکت نے نماز ادا کرنے کا فرض بھی ادا کرلیا۔ مستقبل میں ملک کی شہ رگ ثابت ہونے والے درجنوں جیتے جاگتے جوان اپنے خوابوں سمیت ابدی نیند جا سوئے اور یوں ایک اور سانحے کا باب اگلے واقعے تک کےلیے بند ہوگیا۔ المیہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی قومی سانحہ رونما ہوتا ہے، ہماری سرکا ر کی جانب سے شہیدوں کا لہو اور ورثاء کے آنسو خشک ہونے سے پہلے توپ کے گولوں کی طرح فلک شگاف بیان داغے جاتے ہیں۔ ملک سے شر پسندوں کا قلع قمع کرنے کا عزم اور مٹھی بھر دشمنوں کا سر کچلنے کے وعدے دہرائے جاتے ہیں۔ دشمن کی کمر توڑ دی ہے، امن دشمنوں کا ملک سے صفایا کردیا۔شرپسند سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ یہ دعوی بھی سن لیں جو عوام کو منہ زبانی یاد ہوچکا ، حملے میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ کف افسوس یہ ”بیرونی ہاتھ“ حکومت کو پھر بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ایسا تو نہیں کہ کسی راستے پر انہی آہنی ہاتھوں میں ” ہمارے“ اپنوں کا ہاتھ ہو۔

اب ذرا ان کی بھی سن لیں جو کہ بہت کم بولتے ہیں۔ ہمارے کم گو صدر بھی بول پڑے کہ پاک چین اقتصادری راہدداری منصوبے اورگوادر پورٹ کی تعمیرسے بلوچستان میں خوشحالی آئے گی لیکن ان کے یہ الفاظ کانوں کو اچھے نہ لگے ، ذرا یہ سن لیجئے ”بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال بہترہوئی ہے“۔ صدر صاحب، جاگ جائیے۔ تین کم عمر دہشت گرد اپنا کام کرگئے گئے۔ ایک دہشت گرد فی کس کے حساب سے اپنے سر پر بیس معصوم انسانی کے ضیاع کا کریڈٹ لے کر سرخرو ہوگیا۔ آفرین ہے صدر صاحب کے بھولے بیان پر۔ ہماری نسل ”سافٹ ٹارگٹ“ کی حیثیت سے ملک مخالفین اور ملک دشمن انتہا پسد ملک کے نشانے پر ہے۔

دو روز پہلے بیتے سانحے کا ذکر بھی یوں آیا کہ کسی بھی بڑے واقعے سے نہ صرف عوام ، انصاف کے اداروں اور دنیا کی توجہ ہٹا نے کے لیے کسی اور ایشو کو غیر معمولی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے قوم سے خطاب کا کبھی سوچا بھی تو قوم کے رستے ہوئے زخم پر مرہم رکھنے کےلیے نہیں ،بلکہ پانامہ کے چنگل سے بچنے کے لیے قوم کا وقت لیا اور دل میں اپنے خاندان کے آف شور اکاونٹس کا درد لیے لندن کے کلینک میں مہینے بھر کے لیے یہ جا وہ جا۔ ایک بار پھر دھرنا منہ کھولے کھڑا تھا جس میں عوام کی بڑی تعداد میں شرکت بھی متوقع ہے ۔ بے شک عوام قومی دولت لوٹ کر اسے اپنے اثاثے یعنی آف شور کمپنی بنا کر پیش کرنے والوں کے کڑے احتساب کی منتظر ہے۔ یہ وہی حکمران ہیں جو عوام کو روٹی اور سیکیورٹی کی جگہ سڑکوں کے جال میں پھنسا کر رکھتے ہیں۔ ملک کے لیے 2 نومبر سے پہلے اب 31 اکتوبر کی تاریخ اہم ہے۔ کیا اس دن کوئی ایسا فیصلہ تو نہیں ہوگا جو پاکستان تحریک انصاف کے مطالبات کی راہ میں بڑی مشکلات پیدا کردے؟ 2 نومبر یوں بھی خاص ہے کہ ہمارے وزیراعظم جو اپنے وطن میں دورے کی طرح آیا کرتےہیں۔ اس بار شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے کرغزستان جائیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے قومی سانحہ کو ایک طرف رکھا ، سیاسی ہلچل کو دوسری جانب۔ بیرون ملک دورے کا فیصلہ کرلیا۔ کیونکہ دھرنا ہوگا یا نہیں ہوگا۔ لیکن جو ہوگا وہ ان کے اپنے سیاسی مستقبل پر ضرور اثر انداز ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments