کیا طاقت استعمال کرنے سے سیاسی بحران ختم ہو جائے گا


\"edit\"حکومت نے دو نومبر کے احتجاج کی روک تھام کے لئے کئی روز پہلے ہی سخت انتظامی اقدامات کرتے ہوئے سیاسی کارکنوں کی گرفتاری اور راستوں کو بند کرنے کے کام کا آغاز کردیا ہے۔ حکومت تحریک انصاف کو جس کام سے روکنا چاہتی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریوں کی سہولت اور شہری زندگی کی بحالی کے لئے کل جو حکم جاری کیا تھا ، اس کے باوصف پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کنٹینر لگا کر اور راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے شہریوں کی زندگی کو پانچ روز قبل ہی آزار بنا دیا ہے۔ یہ حکمت عملی کسی نہ کسی جگہ پر تصادم اور تکلیف دہ صورت حال کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ لیکن حکومتی ترجمان واضح کررہے ہیں کہ انہیں بہر صورت عمران خان کے اسلام آباد بند کرنے کے منصوبہ کو ناکام بنانا ہے اور وہ اس مقصد کے لئے سیاسی قیمت بھی ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔

یہ افسوسناک حکمت عملی ہے۔ اگر عمران خان عدالتوں کے حکم کے باوجود اسلام آباد بند کرنے اور سڑکوں کو ٹریفک کے لئے روکنے کی کوشش کرتے تو ایک طرف وہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے تو دوسری طرف عوام حکومت کی فراخدلی اور تحریک انصاف کی زور ذبردستی کو محسوس کرسکتے تھے۔ اس بات کا امکان بھی موجود تھا کہ تحریک انصاف عدالتی حکم کی روشنی میں اور بلند بانگ دعوؤں کے باوجود کثیر تعداد میں کارکنوں اور حامیوں کو اسلام آباد لانے میں دشواریوں کے سبب خود ہی کوئی بیچ کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کرتی۔ اس بات کا اشارہ آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کے وکیلوں نے دیا بھی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے استفسار پر تحریک انصاف کے وکلا نے عدالت کو یقین دلایا کہ عمران خان عدالت کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے اور حسب حکم 31 اکتوبر کو عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہو کر اپنا مؤقف بیان کریں گے۔ لیکن حکومت کے پالیسی سازوں نے صبر و تحمل سے کام لینے کی بجائے کل سے تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہؤا ہے۔

راولپنڈی میں لال حویلی کے اطراف سارے راستوں کو بند کردیا گیا ہے۔ شیخ رشید گرفتاری سے بچنے کے لئے اپنی رہائش گاہ سے باہر کسی مقام پر موجود ہیں لیکن وہ نماز جمعہ کے بعد جلوس نکالنے اور جلسہ کرنے کے عزم کا اظہار کررہے ہیں۔ بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ کو جانے والے راستوں کو بھی بند کیا گیا ہے اور یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ انتظامیہ انہیں گھر سے نکلنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔ راولپنڈی کی انتظامیہ نے اسلام آباد کے حکام سے کہا ہے کہ عمران خان کی راولپنڈی آمد سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے ذرائع بتا رہے ہیں کہ عمران خان یا تو ہیلی کاپٹر کے ذریعے لال حویلی پہنچیں گے یا کارکنوں کے جلو میں اپنی رہائش گاہ سے نکل کر پولیس کی اتھارٹی کو چیلنج کریں گے۔

حکومت فی الوقت دوسرے درجے کے لیڈروں اور متحرک کارکنوں کو گرفتار کرکے ریلی اور جلوس کو ناکام بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ لگتا ہے کہ حکمران عمران خان ، شیخ رشید یا تحریک انصاف کے دیگر اہم لیڈروں کو گرفتار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ لیکن ان کی نقل و حرکت محدود کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے کارکنوں سے رابطہ نہ کرسکیں۔ لیکن وہ اس بات کو بھول رہے ہیں کہ اب رابطہ کے کئی مؤثر ذرائع موجود ہیں اور منصوبہ بندی کرنے اور ہدایات دینے کے لئے کسی لیڈر کا کارکنوں یا اپنے نائبین سے بنفس نفیس ملنا ضروری نہیں ہے۔ جلسہ ہونے کی صورت میں انتظامیہ کو صرف یہ خیال رکھنا تھا کہ مظاہرین توڑ پھوڑ نہ کریں اور قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔ لیکن راستے روکنے اور پابندیاں لگانے کے بعد ملک بھر کا الیکٹرانک میڈیا تحریک انصاف کا ترجمان بنا ہؤا ہے۔ حکومت کی کسی بات کو اہمیت نہیں دی جائے گی اور آئیندہ چند روز حکومت ایک طرف تحریک انصاف کے کارکنوں کے دباؤ کا شکار ہوگی تو دوسری طرف عدالتی احکامات کو مسترد کرنے کی خطرناک مثال قائم کرے گی۔ اگر حکومت بھی عدالتی حکم کے مطابق شہر بند کرنے کے ناجائز کام سے باز نہیں رہتی تو وہ دوسروں سے قانون کے احترام کی توقع کیوں کر کرسکتی ہے۔

حکومت اور انتظامیہ کا مؤقف ہے کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ لوگوں اور سیاسی رہنماؤں کو سیاسی احتجاج سے روکنے کا یہ ہتھکنڈہ فرسودہ اور ناجائز ہے۔ اب اس قانون کا استعمال بند ہو نا چاہئے۔ ماضی میں اپنے سیاسی احتجاج کو جائز قرار دینے کے لئے نواز شریف خود اس قانون کے استعمال کو غلط قرار دے چکے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس دفعہ کو سیاسی اجتماع کو روکنے کے لئے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ حکومت کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ وہ 2 نومبر کو اسلام آباد کو بند کرنے کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کے لئے قبل از وقت اقدامات کررہے ہیں۔ تاکہ اس روز عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ لیکن زور ذبردستی پر مبنی حکومتی اقدامات عمران خان کا کام آسان کررہے ہیں۔

حکومت کو عدالتی احکامات کا احترام کرنا چاہئے اور سیاسی مسائل کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ عمران خان کا راستہ روک کر نہ حکومت کے سیاسی مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی شہری زندگی بحال رہ سکے گی۔ عمران خان جو کام اگلے ہفتے کرنا چاہتے تھے، حکومت وہی کام ابھی سے کرکے اپنا مقدمہ ہار رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments