ایک فقیر چلا جاتا ہے ۔۔۔ جمال احسانی
ایک فقیر چلا جاتا ہے پکّی سڑک پر گاؤں کی
آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی
آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینےلگے
ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی
اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا
پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی
ڈار سے بچھڑا ہوا کبوتر، شاخ سے ٹوٹا ہوا گلاب
آدھا دھوپ کا سرمایہ ہے، آدھی دولت چھاؤں کی
اُس رستے پر پیچھے سے اتنی آوازیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاؤں کی
جمال احسانی
Latest posts by گوشہ ادب (see all)
- کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں - 18/04/2019
- ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے بعض دلچسپ واقعات - 16/02/2019
- کینہ جو ترے دل میں بھرا ہے سو کدھر جائے - 17/01/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).