بچہ جمہورا تالی بجاؤ ۔۔۔ وزیراعظم دیوار سے لگا ہے!


\"edit\"اس ہفتے کے شروع میں ناروے کی ایک تنظیم ’ڈائیلاگ برائے امن‘ نے نارویجئن پارلیمنٹ میں امن کے موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ سیمینار میں بھارت کے عالمی شہرت یافتہ گرو اور ’آر ٹ آف لونگ فاؤنڈیشن‘ کے بانی شری شری روی شنکر اور آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان خاص طور سے شریک تھے۔ برصغیر سے تعلق رکھنے والے ان دو مہمانوں کی موجودگی میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور بھارتی فوج کے مظالم پر گفتگو یقینی تھی۔ تاہم سیمینار کا آغاز شری شری روی شنکر کی زندگی پر مبنی ایک دستاویزی فلم دکھانے سے ہوا جس میں وہ امن کا پیغام لے کر دنیا بھر میں جاتے ہیں اور لوگوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ سیمینار کے پہلے مقرر کے طور پر شری شری روی شنکر نے انہی خطوط پر بات کی اور تعصب اور تفریق سے بالا ہو کر انسانوں سے محبت کرنے اور امن کےلئے کام کرنے کا پیغام دیا۔ تاہم صورتحال اس وقت تبدیل ہو گئی جب آزاد کشمیر کے صدر مسعود خان نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ وہ ایک ایسے خطے کے صدر ہیں، جس کا باقی ماندہ حصہ بھارت کے قبضہ میں ہے جہاں بھارتی سکیورٹی فورسز نہتے مظاہرین کو تشدد اور غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ انہوں نے روی شنکر سے اپیل کی کہ بھارتی وزیراعظم اور حکومت کے ساتھ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے وہ اس غیر انسانی سلوک کو ختم کرائیں۔ مسعود خان کی تقریر کے فوری بعد روی شنکر نے نریندر مودی کے کسی ہرکارے کا روپ دھار لیا اور پاکستان پر دہشت گردی اور بھارت کے خلاف کارروائی کے انہی الزامات کا راگ الاپنا شروع کر دیا جو مودی سرکار کے سارے وزیر اپنے جرائم کو چھپانے کےلئے الاپتے رہتے ہیں۔

سیمینار کی باقی کارروائی میں شری شری روی شنکر امن کے پیامبر بن کر بات نہیں کر سکے۔ وہ تھوڑی دیر بعد یہ ضرور دہراتے تھے کہ وہ سیاستدان نہیں ہیں لیکن پھر تعصب سے بھرپور کسی قوم پرست کی طرح کشمیریوں کی تحریک کو دہشت گردوں کی کارروائی اور پاکستان پر دہشت گرد گروہوں کے ذریعے بھارت پر حملہ کروانے کے الزامات دہراتے رہے۔ وہ اس سوال کا جواب دینے کےلئے بھی تیار نہیں تھے کہ امن کےلئے کام کرنے والے مذہبی گرو کے طور پر وہ کس طرح کشمیری عوام کی تکلیفوں کو کم کرنے یا بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی تعصب سے نمٹنے کےلئے کام کر سکتے ہیں۔ مسعود خان کی تقریر کے بعد روی شنکر کی زبان پر ایک ہی راگ تھا کہ پاکستان دہشت گردی کا منبع ہے۔ اسے ختم کئے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔ امن کے موضوع پر ہونے والے اس اہم سیمینار میں روی شنکر کے یک طرفہ اور متعصبانہ رویہ کی وجہ سے کوئی اہم گفتگو نہیں ہوسکی۔ وہ مسلسل بھارتی حکومت کی جارحیت کا دفاع کرنے میں مصروف رہے اور پاکستان کو غلط ثابت کرنے اور کشمیر میں جاری تحریک کو دہشت گردی قرار دینے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ اس مضحکہ خیز صورتحال کی وجہ سے مسعود خان نے سیمینار کے آخر میں انگریزی کی بجائے اردو میں شری شری روی شنکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ : ’’آپ غلط کہتے ہیں کہ آپ کو سیاست نہیں آتی۔ آپ اچھے بھلے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں۔ آپ کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینا چاہئے۔‘‘

کل شام آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ڈیڑھ گھنٹے طویل ملاقات کی خبر پڑھنے کے بعد یہ طویل قصہ بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد فوج کے دفتر تعلقات عامہ نے جو پریس ریلیز جاری کی ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ: ’’وفد نے آرمی چیف کو 6 اکتوبر کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی کے حوالے سے شائع ہونے والی من گھڑت (پریس ریلیز میں پلانٹڈ PLANTED کا لفظ استعمال کیا گیا ہے) رپورٹ کی تحقیقات کے بارے میں ہونے والی پیش رفت اور سفارشات سے آگاہ کیا۔‘‘ پریس ریلیز میں مزید بتایا گیا ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اس ملاقات کے حوالے سے ملک کی سول حکومت نے کوئی بیان جاری کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ لیکن جن حالات میں اور جس طریقے سے ایک اخباری رپورٹ پر فوج نے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے اور کل جس طرح جوابدہی کےلئے حکمران مسلم لیگ (ن) کے تین زعما آرمی چیف کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، اسے دیکھتے ہوئے دل چاہتا ہے کہ کوئی ’مسعود خان‘ آرمی چیف کو یہ مشورہ دے سکے کہ : ’’ملکی سیاسی معاملات میں آپ کی دلچسپی اب ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ نہ ہی آپ اہم معاملات میں حکومت کی رہنمائی کرنے اور اس کے معاملات میں مداخلت کرنے سے چوکتے ہیں۔ اس لئے اب فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے کا ڈھونگ ترک کیا جائے اور پاک فوج واضح کر دے کہ وہ ملکی سیاسی امور میں ایک فریق کے طور پر شریک ہے۔‘‘

اس طرح جو باتیں اشاروں کنایوں اور ڈھکے چھپے انداز میں کی جاتی ہیں، ان کا کھل کر اظہار ہو سکے گا۔ اور سیاسی حکومتیں جس خوف کو دل ہی دل میں محسوس کرتے ہوئے لرزہ براندام رہتی ہیں، وہ بھی اس کے بارے میں کھل کر بات کر سکیں گی۔ ضروری ہو تو فوج کی تابعداری کرنے والے سیاستدان اور فوج کے جرنیلوں کو اہم ترین سرمایہ قرار دینے والے عوامی لیڈر مل جل کر آئین و قانون میں ایسی گنجائش بھی پیدا کر سکتے ہیں کہ فوج کا سربراہ اور اگر ضروری ہو تو اس کے سارے کور کمانڈرز پارلیمنٹ کے رکن بھی تصور ہوں اور تمام قومی فیصلوں میں شریک ہوں۔ اس طرح کا اقدام کرنے سے سب کا بھلا ہوگا۔ سیاستدان سکھ کا سانس لیتے ہوئے فوجی لیڈروں کے مشوروں کو قبول کرتے وقت شرمندگی محسوس نہیں کریں گے اور فوج کو اپنے احکامات کی تعمیل کے لئے اشارے کرنے کی بجائے باقاعدہ فیصلوں میں شریک ہونے کا حق حاصل ہو جائے گا۔ ایک ایسا حق جو ملک کا آئین فی الوقت اسے فراہم نہیں کرتا لیکن وہ بہرطور اسے حاصل کرنے پر بضد رہتی ہے۔

اس صورتحال میں نقصان صرف ان تبصرہ نگاروں اور ٹیلی ویژن ٹاک شوز کا ہوگا جو فوج اور سول حکومت کے ایک پیج پر نہ ہونے کی خبروں اور تبصروں کے ذریعے روزگار پر لگے ہوئے ہیں۔ یا پھر جمہوریت شہید ہو جائے گی۔ لیکن روز روز اس مظلوم کو کچوکے لگانے سے تو بہتر ہے کہ ایک ہی بار اس کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ پھر اس ملک کے عوام پر یہ تو واضح ہوجائے گا کہ نہ تو ان کے ملک کی فوج غیر سیاسی ہے اور نہ ان کے سیاستدان بااختیار ہیں اور نہ انہیں اپنے ووٹ کی بنیاد پر لیڈر چننے اور ان سے اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کروانے کی امید رکھنے کا حق حاصل ہے۔ انہیں یہ بھی پتہ چل جائے گا کہ اس ملک میں سب سے زیادہ صلاحیت اور عقل کا ارتکاز صرف ایک ادارے میں ہے۔ ملک کا کوئی معاملہ اس ادارے کی رہنمائی کے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے بہترین قومی مفاد کا تقاضہ ہے کہ اس نئے انتظام کو تسلیم کر لیا جائے۔ یوں بھی پارلیمانی جمہوریت کا جنازہ نکالنے کےلئے اس ملک کے سیاستدان اپنے کردار اور اعمال کے ذریعے بھرپور کوشش کرتے رہتے ہیں۔ مختلف طریقوں سے عوام کے ایک بڑی طبقے کو یہ باور کروایا جاتا رہا ہے کہ جمہوریت ان کے مسائل حل نہیں کرسکتی۔ ان کے سیاسی لیڈر بدعنوان ، کم فہم اور دشمن کے ایجنٹ ہیں۔ اس لئے کبھی شہر شہر آرمی چیف سے قوم کی حالت پر رحم کھانے کی اپیل پر مبنی بینر آویزاں ہوتے ہیں اور کبھی کوئی لیڈر تمام جمہوری اور سول اداروں کو مسترد کرتے ہوئے تن تنہا اس قوم کے مسائل حل کرنے اور اسے خوشحالی کے راستے پر گامزن کرنے کا عزم کرتا ہے۔ سیاست میں فوج کے کردار کو باقاعدہ طور سے تسلیم کرکے ایسے گروہوں اور لیڈروں کے درد کا مستقل علاج بھی کیا جا سکے گا۔

یہ تجویز ریفرنڈم کےلئے پیش کی جائے تو اسے اتنے ہی فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہوگی، جتنے فیصد لوگ اس وقت جنرل راحیل شریف کو ملک کی واحد امید سمجھتے ہیں۔ یعنی یہ حمایت سو فیصد بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ماضی میں فوجی سربراہوں کی صوابدید پر ہونے والے ریفرنڈم میں حمایتی ووٹروں کی شرح 90 اور 100 فیصد کے درمیان رہی ہے۔ اگر کوئی ہے جو اس تجویز سے اختلاف کرتا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس قسم کا اقدام عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ کے مترادف ہو گا تو اسے یہ جواب بھی دینا ہوگا کہ جس وقت سرحدوں پر دشمن خطرہ بن کر منڈلا رہا ہو، دنیا بھر میں پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کی کوششیں ہو رہی ہوں، ایک سیاسی جماعت دارالحکومت کو بند کرنے اور بہرصورت منتخب وزیراعظم کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کا اعلان کر رہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ایسے وقت میں آرمی چیف کس حیثیت میں ایک خبر کی اشاعت پر منتخب حکومت سے جوابدہی کر رہے ہیں۔ اور مسلسل یہ تقاضہ کیا جا رہا ہے کہ یہ خبر چھپوانے کے الزام میں بعض وزیروں یا مشیروں کی ’قربانی‘ دی جائے۔ وزیراعظم فوج کے مطالبے کو مسترد کرنے اور غیر ضروری قرار دینے کی بجائے اپنے معتمد ترین ساتھیوں اور بھائی کے ذریعے آرمی چیف کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جب قومی مفاد اور سلامتی کی وضاحت اور حفاظت فوج ہی کو کرنا ہے ور اس بارے میں اسے نہ تو کسی کی رہنمائی کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ حکومت کو یہ حق دینے پر تیار ہے تو اختیار بھی براہ راست اس ادارے کے پاس ہونا چاہئے جو عملی طور سے اب بھی اسے استعمال کر رہا ہے۔ جب اس ملک میں اس اصول کو فراموش کر دیا گیا ہے کہ قومی مفاد اور سلامتی کا تحفظ اور تعین عوام کی منتخب پارلیمنٹ کو کرنا ہے اور سب اس انتظام پر راضی ہیں تو صرف عوام کو دھوکے میں رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب پارلیمنٹ بے اختیار ہے اور غیر منتخب فوج بااختیار ہے اور بہرصورت اپنا اختیار منوانے کے درپے ہے تو اس کا اعلان کر دینے میں کیا ہرج ہے۔ اس سے پہلے چار بار فوجی جرنیلوں نے عوام کے حق حکمرانی کو معطل کیا، آئین کو پامال کیا، ملک پر اپنی حکومت قائم کرکے اہم قومی مفادات کا سودا کیا تو اب ایک سیاسی عمل کے ذریعے سیاسی اختیار حاصل کر لینے میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہئے۔

یوں بھی اس ملک میں جب سے تحریک انصاف نے ’حکومت بھگاؤ‘ مہم کا آغاز کیا ہے تو ہر گوشے میں کئی آنکھیں اور کان بریگیڈ 111 کے بوٹوں کی دھمک کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے خیر خواہوں کی کمی نہیں ہے جو جنرل راحیل شریف کو 29 نومبر سے پہلے کچھ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ قوم کے غم میں دبلے ہونے والے عمران خان تیسری قوت کی مداخلت کے انتظار میں پہلے ہی وزیراعظم نواز شریف کو اس الزام میں نامزد کر چکے ہیں۔ جو اس انتہا تک نہیں جانا چاہتے، وہ دبے لفظوں میں جنرل صاحب کو باور کروا رہے ہیں کہ 1993 میں جنرل عبدالوحید کاکڑ نے کس مہارت سے صدر اسحاق خان اور وزیراعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرکے نئے انتخاب کروا دیئے تھے۔ تو یہ آپشن بھی ماضی کے روشن تجربے سمیت آرمی چیف کے پاس موجود ہے۔ لیکن بدلتے زمانے اور جمہوریت کے تجربے کرنے کے بعد اب شاید کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سیاست میں فوج کا باقاعدہ حصہ طلب کیا جائے اور پارلیمنٹ کی شان میں وردی پوشوں کی موجودگی سے اضافہ کیا جائے۔ اگر یہ تجویز نازیبا اور فوج کی ضرورت اور ملکی نظام کے تقاضوں کے برعکس ہے تو بتایا جائے کہ پاک فوج اس مملکت کا ایک ادارہ ہے جو منتخب ہو کر آنے والی حکومت کے تابع فرمان ہے اور اس کے سربراہ سمیت پورا ادارہ وزیراعظم ، کابینہ اور پارلیمنٹ کے فیصلوں اور احکامات کا پابند ہے۔

کسی خفیہ اجلاس کی خبر باہر آنے کے بعد حکومت ہی اس کا سدباب کرنے کی ذمہ دار ہے۔ فوج کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ سول حکومت نے جان بوجھ کر فوج کو بدنام کرنے اور دشمن کے الزام کی تصدیق کرنے کےلئے یہ خبر شائع کروائی ہے تو باقاعدہ اس کا اعلان کیا جائے۔ اگر فوج حکومت کا زیر نگیں ادارہ ہے تو وزیراعظم سے درخواست کی جائے کہ اس قسم کی خبروں سے فوج کی شہرت کو نقصان پہنچتا ہے، ان کا تدارک کیا جائے۔ وزیراعظم جو بھی فیصلہ کریں، اسے تسلیم کیا جائے۔ اگر فوج حکومت کے متوازی قوت ہے تو وہ واضح کرے کہ جن کالعدم گروہوں کے خلاف کارروائی کا اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے، ان سے فوج کا ماضی میں یا اب کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ بتایا جائے کہ حکومت کے کون سے عناصر اس قسم کے انتہا پسند عناصر کی سرپرستی کر رہے ہیں اور پھر جھوٹی اور من گھڑت خبروں کے ذریعے اس کا الزام فوج پر عائد کر کے دشمن کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ آئی ایس پی آر اس قسم کی پریس ریلیز باآسانی تیار اور جاری کر سکتا ہے۔ پھر اس ملک کے عوام اور ان کے ووٹوں سے منتخب پارلیمنٹ خود ہی ایسی حکومت اور اس میں شامل عناصر سے نبرد آزما ہوگی۔

لیکن اختیارات کی تقسیم پر اب چوہے بلی کا کھیل بند ہونا چاہئے۔ اب یہ خبریں اور تبصرے محظوظ نہیں کرتے کہ بے اختیار وزیراعظم آرمی چیف کی جنبش ابرو کا منتظر رہتا ہے۔ اس قسم کی بے ہنگم بے یقینی میں ملک نہیں چل سکتے۔ فوج سمیت سب لوگوں کو ادراک ہونا چاہئے کہ پاکستان کو انہی رویوں اور حالات نے دنیا بھر میں بچہ جمہورا کی طرح ایک بے توقیر ریاست بنا دیا ہے۔ اب یہ تماشہ بند ہونا چاہئے یا قومی مفاد اور سلامتی کے نعرے لگانے بند کئے جائیں۔ قومی وقار کو برسر عام نیلام کرتے ہوئے، اس کا تحفظ ممکن نہیں ہے۔ اس قوم کو بچہ جمہورا اور وزیراعظم کو کٹھ پتلی بتانا بند کیجئے۔ اب اس پیغام پر ہنسی نہیں، رونا آتا ہے کہ: ’بچہ جمہورا تالی بجاؤ ۔۔۔ وزیراعظم دیوار سے لگا ہے‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments