کیا بادشاہ اور اینکر پرسن میں فرق نہیں ہونا چاہئے؟


\"Pirzadaایک زمانہ تھا جب برصغیر میں امام مسجد رائے عامہ کو متاثر کرنے کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ اُن کی اِس طاقت کا اعتراف ایسٹ انڈیا کمپنی اور اُس سے جنم لینے والی انگریزوں کی حکومت نے بھی کیا۔ زمانہ اکیسویں صدی میں داخل ہوا تو ہمارے ہاں رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے ایک نئی نسل کا ظہور ہوا جسے اینکر پرسن کہا گیا۔ امام مسجد کے پاس رائے عامہ سے مخاطب ہونے کے لئے پورے ہفتے میں جمعے کے خطبے سے قبل آدھا گھنٹہ ہوتا ہے جبکہ ہر اینکر پرسن کے پاس روزانہ ایک گھنٹے کے ٹاک شو کے لئے ہفتے میں چار دن ہوتے ہیں۔ امام مسجد کی آواز تھوڑی دور تک جاتی ہے جبکہ اینکر پرسنز کی آواز میڈیا کے ذریعے لاکھوں کلومیٹر تک جا سکتی ہے۔ اینکر پرسنز کا شعبہ انسانی آزادی کی جدید نعمتوں میں سے ہے مگر ہمارے ہاں کچھ اینکر پرسنز انسانی بھلائی کے اس پےشے کو ذاتی رعب دبدبے، مالی فائدے اور طاقتور ہونے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ جیسے پرانے زمانے میں بادشاہ اپنے جاہ و جلال کا اظہار رعایا کی بستیوں میں شاہی جلوس نکال کرکیا کرتے تھے ویسے ہی بعض اینکر پرسن اپنی نمودو نمائش مختلف ذریعے سے کرتے ہیں۔ بادشاہوں کی رعایا میں اِکا دُکا افراد دلیر ہوتے تھے جو بادشاہ کی فرعونی طاقت سے متاثر نہ ہوتے اور اپنی دلیری کا انعام اپنا سرقلم کروا کے وصول کرتے تھے مگر اب رعایا عوام میں بدل چکی ہے اور عوامی لوگ اینکر پرسنز کے جاہ و جلال سے مرعوب ہونے کی بجائے ان کی ہی طاقت سے ان کو زیر کردیتے ہیں۔

ایسی ہی ایک تازہ مثال ایک اینکر پرسن کی طرف سے سوشل میڈیاپر اپ لوڈ کی جانے والی ایک تصویر ہے جس میں ایک جیپ نما گاڑی کے بونٹ اور چھت پر شکار کئے گئے لہولہان معصوم پرندوں کو ترتیب سے سجایا گیا ہے۔ اس گاڑی کے ساتھ اینکر پرسن، اُن کی بیٹی اور دو دوسرے افراد گنز اٹھائے موجود ہیں۔ تصویر کے کیپشن میں بے لگام گھمنڈ سے لکھا گیا کہ ”میری بیٹی کی شکار پر پہلی آمد۔ 4 گنوں سے 60 منٹوں میں 60 پرندے“۔ جونہی انہوں نے یہ پوسٹ اَپ لوڈ کی تو تھوڑی ہی دیر میں 800 سے زائد کمنٹس آ گئے۔ ان سب میں اینکر پرسن کے شکار کئے گئے پرندوں کو دکھانے کے بے رحمانہ انداز پر شدید تنقید تھی۔ ٹی وی شو میں بیٹھ کر جمہوریت پڑھانے والے موصوف اینکر رائے عامہ کی جمہوری تنقید برداشت نہ کرسکے اور اپنی پوسٹ ڈیلیٹ کرکے غصے میں لکھ گئے کہ ”میں اِن تمام کمنٹس کا جواب اپنے شو میں دوں گا“۔ اس پر ایک منچلے نے جاتے جاتے لکھ دیا کہ ”آپ اپنے شو میں اپنی اس حرکت کا جواب اس لئے دینا چاہتے ہیں کہ وہاں آپ کو آئینہ دکھانے والا کوئی نہ ہوگا“۔ یہ وہی اینکر پرسن ہیں جن کا محل لاہور کے قریب واقع ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں ”قومی ٹھیکیدار“ نے کچھ اینکر پرسنز کو محل تحفے میں بھی دیئے ہیں۔ اگر ایک معزز وکیل یا پروفیسر صاحب کے صاحبزادے اتنے ہی خوشحال ہونے لگیں تو اعتزاز احسن، رانا ثنااللہ اور اعجاز چوہدری وغیرہ بھی سیاسی نوکریاں چھوڑ کر پروفیسری شروع کر دیں کیونکہ مقصد تو طاقتور ہونا ہے۔ اینکر پرسن نے جن پرندوں کا شکار کیا ہے اُن کے شکار کی قانونی اجازت ہوگی مگرکیا محض شوق کے لئے 60 منٹوں میں 60 معصوم پرندوں کو قتل کردینا اخلاقی جرم نہیں ہے؟ ہوسکتا ہے وہ اپنے ٹی وی شو میں نیک ہستیوں کے شکار کھیلنے کی مثالیں دیں لیکن وہ یہ نہیں بتائیں گے کہ اُس وقت شکار خوراک حاصل کرنے کا بنیادی ذریعہ تھا یا یہ کہ وہ نیک ہستیاں اپنے شکار کے ساتھ تصویریں کھنچا کر شوآف نہیں کرتی تھیں۔ کیا بیٹی صاحبہ کی خوش دلی کے لئے صرف چند پرندوں کو ہی ابدی نیند سلانا کافی نہیں تھا؟ یہی اینکر پرسن اپنے شوز میں بچوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے کھیلنے کے لیے ”پلّوں یعنی کتوں کے بچوں کے گلوں میں رسیاں باندھ کر بھول جاتے ہیں۔ بعد میں وہی رسی پلّوں کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ گلے میں تنگ ہوتی جاتی ہے اور کتے دم گھٹنے سے مرجاتے ہیں“۔ اُن کی جانورں سے اِس دردناک ہمدردی کو دیکھ کر یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ ان 60 پرندوں کو گلوں میں رسی ڈال کر چند دن مزید جینے کا موقع بھی نہیں ملا۔

موصوف اینکر پرسن فطری ماحول سے بہت لگاﺅ رکھتے ہیں اور اکثر ناظرین پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے دنیا میں اپنے سفر کے قصے سناتے ہیں۔ کیا یہ 60 معصوم پرندے پاکستانی فطری ماحول کا حصہ نہیں تھے؟ معصوم پرندوں کے گھونسلوں میں ٹی وی نہیں ہوتا اور وہ مغرب کے وقت سو جاتے ہیں۔ اس لئے انہیں کیا معلوم کہ موصوف ایک غیظ و غضب والے اینکر پرسن ہیں۔ کیا اِن 60 پرندوں کے قتل عام سے پرندوں کی بستی میں ماتم برپا نہیں ہوا ہوگا؟ کیا سوگ صرف انسانوں کی بستی کا حق ہے؟ اِن 60 پرندوں میں نہ جانے کتنی مائیں اور کتنے باپ ہوں گے۔ کیا اُن کے بچوں نے آسمان کی طرف چونچ اٹھا کر کچھ نہ کہا ہوگا؟ فلسفے کی باتیں کرنے والے اوردوسروں کو کم علم سمجھنے والے ان سمجھدار اینکر کے لئے تحریر ہے کہ اٹھارہویں صدی کے جرمن فلاسفر ”کانٹ“ کا کہنا ہے کہ ”جو جانوروں کے ساتھ بے رحم برتاﺅ کرے وہ انسانوں کے ساتھ بھی بے رحم ہوتا ہے“۔ ایک مرتبہ بادشاہ جہانگیر شیروں کے شکار پر گیا تو نور جہاں بھی ساتھ تھی۔ جنگل میں چار شیر نظر آئے۔ نور جہاں نے شیروں کا شکار کرنا چاہا۔ بادشاہ سے اجازت ملنے پر ہاتھی پر بیٹھی نور جہاں نے چھ گولیوں سے چاروں شیر ڈھیر کردیئے۔ نور جہاں کی اس شاندار فتح پر بادشاہ جہانگیر نے تین ہزار اشرفیاں نچھاور کیں اور ایک لاکھ روپے کی پازیبوں کی جوڑی نور جہاں کو تحفے میں دی۔ تزک جہانگیری میں یہ واقعہ پڑھنے کے بعد خیال آتا ہے کہ اگر اُس وقت ٹاک شوز ہوتے تو یہی اینکر بادشاہ جہانگیر کو اپنے شو میں بلا کر پوچھتے کہ وہ شیر کتنے بھولے بھالے تھے کہ پہلی گولی چلنے کے بعد بھاگ جانے یا جست لگانے کی بجائے باری باری نور جہاں کی گولیوں کے سامنے آتے رہے؟ بادشاہت کا زمانہ لد گیا، جمہوریت میں اینکر پرسنز کا زمانہ آیا۔ بے تحاشا شوقیہ شکار اور اس کی بے رحمانہ تشہیر کیا بادشاہانہ ذہنیت کی عکاسی نہیں ہے؟ کیا بادشاہ اور اینکر پرسن میں فرق نہیں ہونا چاہئے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments