ادب و فن میں فحش کا مسئلہ (2)


اس قسم کے مقابلے کو اگر پرکاری سے استعمال کیا جائے تو وہ کیا اثر پیدا کرتا ہے، اس کی مثال میں، میں ڈے لوئیس کی ایک نظم پیش کروں گا جو انھوں نے موجودہ جنگ کے متعلق لکھی ہے۔ یہ ایک بہت چھوٹی نظم ہے، جس میں توپوں کو عضو تناسل سے تشبیہ دی ہے، وہ دنیا کے رحم میں بربادی کا بیج بونے کے لیے تنی کھڑی ہیں۔ غالباً شاعر کی ذہنی گندگی، مگر کیا دنیا میں کوئی دوسری تشبیہ رہ ہی نہیں گئی تھی؟ لیکن غور کیجیے کہ جو زور اس تشبیہ سے پیدا ہوتا ہے وہ کسی اور سے ممکن نہیں تھا۔ محض تناؤ کا زور نہیں بلکہ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جو چیزیں انسان کے لیے رحمت ہو سکتی تھیں، وہ آج لعنت بنی ہوئی ہیں۔ عضو تناسل افزائش اور برکت کا نشان ہے لیکن یہاں اسے بربادی کی علامت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ توپ سائنس اور علمی ترقیوں کی نمائندگی بھی کرتی ہے، ان چیزوں کا مقصد تھا کہ فطرت سے انسان کی لڑائی میں اس کی مدد کریں لیکن آج وہ خود انسان کی ہلاکت کے درپے ہیں۔ اس خیال کو کسی اور علامت کی مدد سے اتنی ہی چھوٹی نظم میں ادا کرنے کی کوشش کیجیے، لیکن یہ خیال رہے کہ وعظ کا عنصر نہ آنے پائے جس طرح یہ نظم اس سے پاک ہے۔ تو یہ قطعاً انفرادی طور سے فن کار پر منحصر ہے کہ وہ عریانی سے کیا کام لیتا ہے۔ اور اسے پاکیزہ ترین جذبات کے اظہار کی خدمت لی جا سکتی ہے اور لی گئی ہے۔ رلکے نے کہہ رکھا تھا کہ آرٹ کا مقصد تعریف کرنا ہے لیکن ہمارے زمانے میں تعریف کرنا کوئی ایسا آسان کام نہیں ہے۔

اگر رلکے خود تعریف کر سکا ہے تو زندگی سے بھاگ کر، اپنے آپ کو مداخلت سے محفوظ کرنے کے بعد، خاص قسم کے عارفانہ اور مابعد الطبیعاتی جذبے کو اپنے اوپر طاری کرے۔ لارنس نے تعریف کی ہے مگر زندگی کے ایک خاص مظہر کی، ایک مخصوص شعلے کی جو آدمی کو ایسے لپیٹ لیتا ہے کہ بے اختیار منھ سے تعریف نکل ہی آتی ہے لیکن عامیہ زندگی کی سطح پر اتر کر، اس کی ظاہری کیفیت کو قبول کر کے۔ ناک بھوں چڑھائے بغیر اس میں رہبانیت یا خدا کے جلوے یا کسی آفاقی اصول کو تلاش کیے بغیر، تعریف کرنا ہر آدمی کا کام نہیں ہے۔ اور پھر ہمارے زمانے میں کہ جب فرد اور سماج میں اتنی مغائرت اور مخالفت ہو لیکن جوئس نے اسی طرح تعریف کی ہے اور “یولیسس” کے اس حصے میں جس کی وجہ سے کتاب کو ضبط کر لیا گیا تھا۔ میرین بلوم ایک معمولی عورت ہے اور ایسی ہی شہوت پرست۔ اس میں کوئی بات بھی بلند یا پاک نہیں اور ایسی ہی ایمان داری اس کی خود کلامی میں برتی گئی ہے لیکن اس کی عریاں خیالی اسے ٹھوس بنا دیتی ہے۔ اس کا رشتہ ہماری دنیا، ہماری زمین سے مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر میں اس کی جنسیت زمین اور زندگی کی حمد کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور یہ جذبہ اتنا ہی اعلیٰ و ارفع ہے جتنا کوئی اور۔ بالکل ایسا ہی ٹھوس کردار چوسر نے اپنے “باتھ کی خاتون” کی شکل میں پیش کیا ہے۔ دونوں عورتیں زندگی سے بے اندازہ لطف لیتی ہیں، دونوں زندہ رہنے کی بے پایاں خواہش رکھتی ہیں مگر “باتھ کی خاتون” میں ایک بات زیادہ ہے، وہ مرنے سے بھی نہیں ڈرتی۔ زندگی نے اسے جو کچھ دیا ہے وہ اس سے پوری طرح مطمئن ہے۔ حالاں کہ ہمارے زمانے کے کردار زندگی سے بیزار ہوتے ہوئے بھی موت اور وقت سے لرزتے ہیں۔ اپنی جوانی کے گذر جانے کے خیال سے وہ افسردہ تو ضرور ہوتی ہے مگر باقی عمر سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے۔ وہ اپنی جنسیت کی مدد سے وقت پر فتح حاصل کرتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ خدا نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نسل کو بڑھاتا رہے۔ اسی وجہ سے وہ خدا کا شکر ادا کرتی ہے کہ اسے پانچ شوہر ملے ہیں اور وہ چھٹے کا استقبال کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ وہ اپنے کو عفیفہ بنا کر نہیں رکھنا چاہتی بلکہ شادی کے کاروبار میں اپنی ساری زندگی کے پھول کو پیش کرے گی، وہ اصلاح ادب کانفرنس سے پوچھتی ہے :

“مجھے یہ بھی تو بتائیے کہ اعضائے تناسل بنا نے کا مقصد کیا تھا؟ یہ لوگوں نے اپنی کتابوں میں کیوں لکھ رکھا ہے کہ مرد کو اپنی بیوی کا قرض ادا کرنا چاہیے۔ اب وہ اپنی ادائیگی کیسے کرے گا، اگر اپنا نفیس آلہ استعمال نہ کرے ؟ بیوی کی حیثیت سے میں تو اپنے آلے کو ایسی ہی آزادی سے استعمال کروں گی جیسے میرے خالق نے مجھے عنایت کیا ہے۔ اگر میں روک ٹوک کروں تو مجھ پر خدا کی مار ہو۔ میرا شوہر اسے صبح و شام دونوں وقت لے سکتا ہے۔ جب اس کا دل چاہے آئے اور اپنا قرض چکائے لیکن افسوس! عمر نے جو سب چیزوں میں زہر ملا دے گی، میری خوب صورتی اور میرا زور چھین لیا ہے۔ خیر، جانے دو، چلو رخصت۔ شیطان بھی اسی کے ساتھ جائے۔ آٹا تو ہو ہی چکا، اس کا کیا ذکر، اب تو جیسے بھی ممکن ہو گا مجھے بھوسی ہی بیچنی پڑے گی لیکن اب میں بھی پوری زندہ دلی سے رہوں گی۔ ” ورجینیا و ولف بڑی حسرت اور رنج کے ساتھ کہتی ہیں، “اب یہ قہقہہ کرۂ زمین پر دوبارہ نہیں سنا جائے گا، جو پیٹ کی تہوں سے اٹھتا ہے۔ “

چوسر کے ایک عالم نے ان تمام حصوں کو اپنی کتاب سے نکال دیا ہے۔ اسی طرح مڈلٹن مرے (جن کی رائے کا میں ہر جگہ بہت احترام کرتا ہوں ) فرماتے ہیں کہ “لارنس نے ‘لیڈی چیٹرلی کا عاشق’ میں جو ناقابل تحریر الفاظ استعمال کیے ہیں وہ نفس مضمون کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے، صرف گالی برائے گالی ہیں۔ ” شاید۔ لیکن میرا ذاتی رد عمل تو یہ ہے کہ ان گالیوں اور بعض عامیانہ حرکتوں کی وجہ سے میلرز اور لیڈی چیٹرلی عام انسانوں سے بہت قریب آ گئے ہیں اور یہ بات لارنس کی کتاب میں ذرا کم ہی ہوتی ہے۔ اس سے صرف کتاب کے ٹھوس پن اور انسانیت ہی میں اضافہ نہیں ہوتا بلکہ لارنس کے پیغام کی اشاعت میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس کی حقیقت ہم سے قریب ہو جاتی ہے اور وہ ایسی چیز نہیں رہتی جس تک پہنچنے کی ہم خواہش بھی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح بکرے اور بکری پر لارنس کی نظموں کی حقیقت نگاری، جنسی جذبے کی تندی، وحشت اور ایک حد تک مضحکہ خیزی کا اظہار ہے بلکہ اس حقیقت نگاری میں “جنس کے پیغمبر” کی، جنس سے جھجک، ڈر اور نفرت جھلکتی ہے۔

لارنس کے ذکر سے مجھے ایک اور سوال یاد آتا ہے۔ عریانی کے معذرت خوا ہوں کی طرف سے بعض دفعہ فحش اور غیر فحش کا فرق بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سفید رومال سے چہر ہ صاف کر کے کہا جاتا ہے کہ جنس کے ذکر میں لذت کا اظہار نہ ہونا چاہیے اور نہ ترغیب کا عنصر۔ مگر مجھے اس سے اختلاف ہے، کیوں کہ حقائق کو بھی اس سے اختلاف ہے، آخر لذت سے اتنی گھبراہٹ کیوں ؟ جب ہم کسی پیڑکو، کسی کردار کے چہرے کو، اس کے کپڑے کو، کسی سیاسی جلسے کو مزے لے لے کر بیان کر سکتے ہیں اور تنقید اسے ایک اچھی صفت سمجھ سکتی ہے تو پھر عورت کے جسم کو یا کسی جنسی فعل کو لذت کے ساتھ بیان کرنے میں کیا بنیادی نقص ہے ؟ دراصل اس اعتراض کی بنیاد وہ روایتی احساس ہے جو جسم کے بعض حصوں اور بعض جسمانی افعال سے جھجکتا ہے اور انھیں بنفسہ گندہ اور پلید سمجھتا ہے اور ان کے وجود کو ابدی لعنت کا داغ۔ یہی ذہنیت جو ایک طرف تو ادب اور آرٹ پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے لیکن دوسری طرف لاتعداد فحش کتابوں کو جنم دیتی ہے۔ لذت بجائے خود کسی فن پارے کو مردود نہیں بنا سکتی بلکہ اس کے مقبول یا مردود ہونے کا دارومدار ہے لذت کی قسم، اس کی سطح پر، فن کار کے مزاج اور نقطۂ نظر پر۔ کیا شیکسپیئر کی وینس اور ایڈونس، ٹیشئین کی برہنہ عورتیں، دودین کے دو مجسمے، “دائمی بہار” “بوسہ” اور “ہم آغوشی” لذت اور ترغیب سے بالکل خالی ہیں ؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے، کیا ہم انھیں فحش کہہ کر چھوڑسکتے ہیں ؟

فحش کی یہ ترغیب والی تعریف غالباً ترقی پسند وں کی طرف سے ہوئی ہے۔ لیکن یہ مسئلہ بہت پھیل جاتا ہے۔ فحش کے سوال سے کہیں آگے یہ فیصلہ ہو جائے کہ جنس قطعاً گندی اور غیر شریفانہ چیز ہے۔ اس لیے اس سے لذت کا اظہار اور اس کی ترغیب بھی نا مناسب ہے۔ میں ماننے کو تیار ہوں لیکن اگر تاکید جنس پر نہیں بلکہ ترغیب پر ہے تو ادب کے ذریعے سے انقلاب یا سماجی تبدیلی کو ترغیب دلانا بھی اتنی ہی نامناسب چیز ہے۔ ترغیب کا مسئلہ چھیڑ کر ترقی پسند ایک پڑوس میں جا پہنچتے ہیں جس کے سائے سے بھی وہ بھاگتے ہیں یعنی جیمز جوئس۔ جوئس کا نظریہ ہے کہ جمالیاتی جذبے میں “حرکت” نہیں ہوتی بلکہ فرار، آرٹ نہ تو کسی چیز کی خواہش ہمارے دل میں پیدا کرتا ہے اور نہ کسی چیز سے نفرت، جو آرٹ اس اصول کا پابند ہے وہ مناسب آرٹ ہے اور جو خواہش یا نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، غیر مناسب آرٹ ہے، خواہ وہ فحش ہو یا اخلاقیات۔ اس سلسلے میں جوئس نے وینس کے مجسمے کی مثال دی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں وینس کی رانیں اس وجہ سے پسند آتی ہیں کہ وہ بڑا تندرست بچہ پیدا کر سکتی ہیں اور پستان اس لیے کہ ان میں بچے کو دودھ پلا کر توانا رکھنے کی بڑی صلاحیت دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح وینس عورت اور ماں کے فرائض کا مثالی نمونہ بن جاتی ہے اور اسی وجہ سے وہ ایک بڑا فن پارہ ہے لیکن جوئس کے نزدیک یہ احساسات جمالیات کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ علم اصلاح نسل کی طرف۔ وینس ہمیں صرف اس وجہ سے پسند آتی ہے کہ اس میں حسن اور آہنگ ہے۔

جوئس کا یہ بیان بنیادی طور پر بہت صحیح اور کم سے کم مفید ضرور ہے مگر اس نے انتہا پسندی کی بھی حد کر دی ہے۔ شاید کوئی فوق الانسان ہوا ہو جس نے ایسا فن پارہ پیش کیا ہو یا جس کا رد عمل اتنا جچا تلا ہو۔ کم سے کم میرے اندر تو فن پارہ ضرور حرکت پیدا کرتا ہے۔ حالاں کہ یہ حرکت وہ نہیں ہوتی جو فحش یا اخلاقیات سے پیدا ہوتی۔ خود جوئس کے یہاں کافی نفرت اور بیزاری پائی جاتی ہے اور میرین بلوم کا کردار کسی طرح ترغیب سے خالی نہیں اور لارنس کے یہاں ترغیب کے کیا معنی، وہ تو جنسی تعلقات کے ایک عنصر کا پرچار کرتا ہی ہے،اگر کسی جگہ صحت مند مباشرت کی ترغیب پائی جائے تو میں اسے فحاشی کہنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ آپ فوراً اعتراض کریں گے کہ پھر تو شاید کوک شاستر بھی ادب بن گیا۔ لیکن یہاں میں فحش کو آرٹ ثابت کرنے پر اپنا زور قلم صرف نہیں کر رہا ہوں بلکہ صرف آرٹ کو فحش سمجھے جانے سے بچانا چاہتا ہوں۔

سوال دراصل ترغیب کا نہیں بلکہ آرٹ اور غیر آرٹ کا۔ غیر آرٹ کے لیے ایک نام تجویز کرتا ہوں، جذباتیت۔ یہ جذباتیت کسی طرح کی بھی ہو سکتی ہے۔ نفس پرستی، انقلاب پرستی، اخلاق پرستی، ساری گڑبڑ یہاں سے چلتی ہے کہ عموماً فن پارے کو بڑی سادہ چیز سمجھا جاتا ہے اور اس کی پیچیدگی کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہم اس کے صرف ایک رخ، ایک احساس کو لے لیتے ہیں اور اسی کو سارا فن پارہ سمجھتے ہیں اور اسی غلط فہمی پر اپنے فیصلے کی بنیاد رکھتے ہیں۔ یہیں سے جذباتیت شروع ہوتی ہے۔ اگر یہ جذباتیت فن کار میں ہو تو وہ سرے سے فن پارہ پیدا کر ہی نہیں سکے گا، اسے اخلاقی وعظ بنا دے گا یا فحش۔ اور جب یہ جذباتیت پڑھنے والے یا دیکھنے والے میں ہو تو وہ اچھے خاصے فن پارے کو توڑ مروڑ کر غیر آرٹ بنا دیتی ہے مثال کے طور پر اصلاح ادب کانفرنس۔

اس الجھن کا ایک مخرج اور بھی ہے۔ ہماری تنقید کے نزدیک آرٹ نام ہے اپنے جذبات کے اظہار اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا۔ یہ سن کر ہربرٹ ریڈ سے تو اپنا قہقہہ نہیں رک سکا لیکن مجھ میں ابھی اس سے انکار کی جرأت نہیں پیدا ہوئی۔ بہرحال آرٹ کوئی انجکشن کی پچکاری نہیں ہے جس کے ذریعے سے نئے نئے جذبے ہمارے اندر داخل کیے جاتے ہوں۔ زیادہ بک بک کیوں کروں، آپ ارسطو کا “کیتھا رسز” والا نظریہ جانتے ہیں۔ آرٹ میں ایک جلابی کیفیت ہوتی ہے جو ہمارے جذبات \"dh-lawrence\"سے زوائد کو خارج کر کے ہمارے اندر توازن اور سکون قائم کرتی ہے۔ جذباتیت اور آرٹ میں یہی فرق ہے۔ دونوں ہمارے گھٹے ہوئے جذبات کو راستہ دیتے ہیں لیکن جذباتیت میں روک نہیں ہوتی۔ وہ جذبات پر کوئی حد نہیں قائم کر سکتی۔ آرٹ جذبات کی حد بندی کرتا ہے، ان کی تنظیم کرتا ہے اور انھیں ایک خاص نقش کی شکل میں ترتیب دیتا ہے۔ ٹیشین کی برہنہ تصویر دیکھنے کے بعد ہم بازار میں کود کر راستہ چلتی عورتوں کے کپڑے پھاڑنا نہیں شروع کر دیتے بلکہ اپنے جنسی جذبات میں ایک بہتر توازن اور ارتقا پاتے ہیں۔ شاید فحش سے پہلا والا اثر پیدا ہوتا ہے۔ اگر آرٹ ہمارے اندر کوئی جذبہ پیدا کرتا ہے تو وہ بقول ہربرٹ ریڈ، تحیر کا جذبہ ہے۔ اگر آرٹ صحیح قسم کا ہے اور پڑھنے والا اس سے کوئی غلط نتیجہ مرتب کرتا ہے یا اس کے اندر فاسد مادہ بھڑک اٹھتا ہے تو اس کے لیے اس فن پارے کو ملزم نہیں گردانا جا سکتا۔ آرٹ شہوت پرستی یا دنیا کے گنا ہوں پر زار و قطار رونا یا لال جھنڈا لے کر دو دو گز اونچے اچھلنے لگنا نہیں سکھاتا بلکہ حسن، ترتیب اور آہنگ کو تحیر کی نظروں سے دیکھنا۔

اگر موجودہ ادب میں فحش موجود ہے تو اسے ہوّا بنانے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اگر آپ لوگوں کو فحش کی مضرتوں سے بچانا چاہتے ہیں تو انھیں یہ سمجھنے کا موقع دیجیے کہ کیا چیز آرٹ ہے اور کیا نہیں ہے اور آرٹ کیوں فحش، اخلاقیات، سیاست اور اقتصادیات سے بہتر اور بلند تر ہے۔ جو شخص آرٹ کے مزے سے واقف ہو جائے گا، اس کے لیے فحش اپنے آپ پھسپھسا ہو کر رہ جائے گا۔ کم سے کم اپنی ذہنی تندرستی کے دوران میں تو وہ فحش کو چھونا بھی نہیں چاہے گا۔ سب سے نفیس پہچان فحش اور آرٹ کی یہی ہے کہ فحش سے دو بارہ وہی لطف نہیں لے سکتے جو پہلی مرتبہ حاصل کیا تھا۔ آرٹ ہر مرتبہ نیا لطف دیتا ہے۔ اس توازن اور ارتفاع کی مثال کے طور پر مجھے فراق صاحب کا شعر یاد آتا ہے

ملے دیر تک ساتھ سو بھی چکے

بہت وقت ہے آؤ باتیں کریں

اردو کی جنسی شاعری میں بہت کم ایسے شعر ہوں گے جن میں یہ معصومیت، یہ ذہنی لطافت، آرٹ کا یہ تحیر پایا جاتا ہو۔ میں اس شعر کو دہرانے سے کبھی نہیں تھک سکتا۔

فن کا تناسب بذات خود ایسی چیز ہے جو گندی سے گندی بات کو بے ضرر بنا دیتا ہے اور فنون میں یہ تناسب لکیروں، رنگوں وغیرہ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ ادب میں بیانیہ انداز کے لوازمات بھی اس کی ایک قسم ہیں، مثلاً شیخ سعدی کا مشہور مصرعہ، “ہمیں بہ حملۂ اول عصائے شیخ بخفت” اور پھر قہقہہ تو بڑی سے بڑی غلاظت کو دھو دیتا ہے اور عقل؟ ایسے لوگوں کے نام یاد کیجیے جن کی عقل واقعی خوف ناک قسم کی تھی اور پھر یہ غور کیجیے کہ انھوں نے کتنی عریانی برتی ہے۔ دو چار نام تو مجھ سے سنیے۔ رابیلے، چوسر، شیکسپیئر، سوئفٹ، والٹیر، جوئس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments