پاکستان کی معیشت کے اندرونی حقائق، دعوے اور تضادات


عمران ساجد

اپوزیشن کو غم ہے اگرترقی جاری رہی تو ان کی سیاست ختم ہوجائے گی، وزیراعظم نواز شریف

\"imran-sajid\"لفظ ترقی اتنا تواتر سے کہا جا رہا ہے کہ میرے جیسے کئی افراد یہی سمجھنے لگ گئے ہیں کہ شاید ملک میں کسی خزانے سے سونا برآمد ہوگیا ہو اور اس کی آمدنی ہم سب پر نچھاور کی جا رہی ہے۔ شاید ہمارے وطن عزیز میں تمام آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر کر دیا گیا ہو۔ شاید ہر کسی کی صحت کے تحفظ کی ذمہ دار ریاست ٹھہری ہو۔ شاید ملک کے تمام بچوں کی مناسب تعلیم کا بندوبست ہو گیا ہو۔ شاید تمام نوجوان افراد کو روزگار یقینی بنا دیا گیا ہو۔ کم از کم میں تو پہلے اسی معیار کو مدنظر رکھ کر بات کر سکتا ہوں۔ کیوںکہ یہ بنیادی ضروریات زندگی ہیں جن سے شاید حکمران طبقہ بھی انکاری نہ ہو۔ لیکن آئے روز اخبارات میں تو کسی اور ہی تصویر کی عکاسی ہوتی ہے۔ ترقی کے معیار کو چیک کرنے کے لیے بہت سے انڈیکٹرز کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے چند ایک کا احوال مختلف زاویوں سے جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اول نمبر پر معیشت ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار فرماتے ہیں ہم نے معیشت کو درست سمت پر ڈال دیا ہے۔ لیکن تھوڑا سا دماغ پر زور ڈالیں تو معیشت کی بنیاد کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس خیال کو سمجھنے کے لیے ایک گھر کی مثال لیتے ہیں جس کی ماہانہ آمدنی 20000 ہے لیکن ماہانہ اخراجات 25000 ہیں۔ ظاہری سی بات ہے اگر اس گھر کے سربراہ نے اپنے اضافی اخراجات کو کہیں نا کہیں سے تو حاصل کرنا ہی ہے۔ اس کے پاس دو آپشنز ہیں ایک اضافی 5000 کسی سے سود پر ادھار لے لے یا اپنی آمدنی کو کسی پیداوار میں اضافے کے ذریعے پورا کر لے۔ اس کےلیے بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنی پیداوار میں اضافہ کر لے۔ کیونکہ اس سود زدہ ادھار کی رقم سے زیادہ عرصہ تک اس گھر کی معیشت چل نہیں سکتی۔ ملکی معیشت میں بنیادی طور پر یہی مسئلہ درپیش کہ اخراجات آمدن سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان زائد اخراجات کو بھاری سود پر قرض لے کر پورا کیا جاتا ہے۔ دوسری آپشن زائد پیداوار اور برآمدات کی شکل میں نظر آتی ہے۔ حکومتی بیانیہ ہے کہ ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں۔ لیکن اسی حکومت کے ناک کے نیچے ادارہ شماریات یہ صدا لگا رہا ہے کہ اس مالی سال کے پہلے دو ماہ میں برآمدات 12 فیصد کم ہو گئی ہیں اور آنے والے ماہ میں بھی حالت ابتر ہے۔ اسی سال جون میں ہم نے پاکستان کی تجارتی تاریخ میں سب سے بھیانک 29 ارب ڈالر کا خسارہ برداشت کیا ہے۔

بات جب ملکی معیشت پر چل رہی ہے تو بتاتا چلوں فی کس آمدنی کے معیار پر ہماری پوزیشن 141 ویں نمبر پر ہے۔ کم از کم ایک تہائی سے زیادہ ایسی آبادی ہے جس کی روزانہ کی اوسط آمدنی 200 روپے سے بھی کم ہے۔ ورلڈ بینک کے ایز آف ڈوئنگ بزنس انڈیکس میں ہم 189 ممالک میں سے 138 نمبر پر کھڑے ہیں۔ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ جو پیپلزپارٹی کی کرپٹ حکومت کے دور 2009 میں 4.6 ارب ڈالر تھی آج شفاف اور دھلی ہوئی حکومت میں 0.7 ارب ڈالر پر آ گئی ہے۔ کشکول توڑنے کا دعوٰی کرنے والے اسی کشکول کو زنبیل بنا چکے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اب ہمارا بیرونی قرضہ قریب 73 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جو مجموعی قومی پیداوار کا لگ بھگ 62 فیصد تک پہنچ گیا۔

مہذب معاشرے میں ترقی کا آغاز تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات سے کیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں مغلیہ سلطنت اس ترقی کو سریے سے بڑھانا چاہ رہی ہے۔ مہذب معاشرے میں تعلیم پر مجموعی قومی پیداوار کا کم از کم 4 فیصد سرمایہ تعلیم پر لگایا جاتا ہے مگر یہاں ترجیحات پر ایک نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب تعلیم اور صحت پر بجٹ 2016-17 میں 117 ارب کی خطیر رقم خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یاد رہے یہ وہی رقم ہے جس کا نصف سے زیادہ حصہ بنا خرچ کیے دوبارہ محکمہ خزانہ اگلے بجٹ میں استعمال کرتا ہے۔ اور دوسری جانب اورنج ٹرین پر خرچ کرنے کے لیے 165 ارب روپے کی معمولی سی رقم طے کی ہے۔ یہ وہی صوبہ ہے جس کے جنوب میں لوگ صاف پانی کے لیے ترستے ہیں۔ اور یہ وہی ملک ہے جس کے 60 لاکھ بچے سکول جا ہی نہیں پاتے۔ اور نظام تعلیم اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ ہم پرائمری تعلیم میں دنیا سے 50 سال اور سیکنڈری تعلیم میں 60 سال پیچھے ہیں۔ نصاب ایسا کہ طلبہ ماسٹر ڈگری کر کے بھی یہ جان نہیں پاتے کہ اب آگے ملازمت کے لئے کس سمت میں آگے بڑھنا ہے۔ خوراک انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ گلوبل ہنگر انڈکس میں ہم دنیا کے بدترین ممالک میں 11 ویں نمبر پر براجمان ہیں۔ جی ہاں یہ وہی ملک ہے جس کی کیلوریز انٹیک انڈکس میں 170 ممالک میں سے 131 واں نمبر ہے۔ جس میں لوگ خوراک میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً بمشکل 1700 کیلوریز ہی حاصل کر پاتے ہیں۔ دوسری جانب یونان جیسے یورپ کے پسماندہ ملک میں لوگ اوسطاً 3600 کیلوریز بذریعہ خوراک حاصل کرتے ہیں۔ ہماری 1700 کیلوریز میں سے 45 فیصد کیلوریز کا تعلق صرف گندم کے ساتھ ہے۔ اس سے خوراک میں توازن جیسے بے معنی احساس کو دیکھا جا سکتا ہے۔

س ملک میں ترقی کی حالت اتنی نمایاں ہے کہ کل آبادی میں سے صرف 1 فیصد لوگ ہی ڈائریکٹ انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ باقی لوگ تو اس سسٹم پر اعتماد ہی نہیں کرتے ڈائریکٹ ٹیکس تو بہت دور کی بات ہے۔ نیشنل اسمبلی میں ایسے اراکین بھی موجود ہیں جنہوں نے ایک ڈیڑھ ہزار ٹیکس دینے کا بس تکلف ہی کیا ہے۔ خبروں سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو ایک کام بہت نفاست سے کرنا آتا ہے اور وہ ہے کرپشن، چاہے وہ فرنٹ مین کے ذریعے حاصل ہو یا کک بیک کے ذریعے حاصل ہو۔ یہ وہی حکمران ہیں جن کا اپنا کاروبار بہت نظم و ضبط سے چلتا ہے مگر قومی ادارہ سٹیل مل لگاتار خسارے میں جاتا ہے۔ اپنا بینک بیلنس لگاتار ملٹی پلائی ہو رہا ہے۔ مگر ملکی تجارتی خسارہ لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔

ملک ٹوٹتا ہے ٹوٹ جائے، تباہی ہوتی ہے تو ہوتی جائے، معیشت ڈوبتی ہے تو ڈوب جائے، لوگ بھوک سے خودکشی کرتے ہیں تو کرتے جائیں اور دہشتگردوں کے حملے میں ہلاک ہوتے ہیں تو ہوتے جائیں۔ بس کرپشن پر سب کا اتنا زبردست اتفاق ہے کہ جو کوئی اس کا نام لے گا وہ ترقی کا مخالف ٹھہرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments