ایسے اعلٰی بکرے کی قربانی آسان تو نہیں ہے
کہتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں راولپنڈی شہر کے نواح میں سردار لہنا سنگھ امرتسری نامی ایک متمول سردار ڈیرہ ڈالے بیٹھے تھے۔ واہے گرو کی کرپا سے بہت کچھ تھا ان کے پاس۔ زمینیں چوکھے دانے دیتی تھیں اور دودھ گھی کی لہریں بہریں تھیں۔
ایک دن دربار صاحب سے سنت بھولا سنگھ جی پدھارے۔ سردار لہنا سنگھ جی امرتسری نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور خوب ٹہل سیوا کی۔ کچے صحن میں تازے پانی کا چھڑکاؤ کیا اور رنگین پایوں والی منجی ڈال کر سنت بھولا سنگھ جی کو اس پر بٹھایا اور دیسی گھی سے چپڑی ہوئی روٹی دیسی مرغی کے قورمے کے ساتھ ان کے سامنے رکھی۔
اتنے میں سامنے سے ایک تنومند جسم کا لنگڑا بکرا گزرا۔ ایسا شاندار بکرا سنت جی کی نظر سے کم ہی گزرا تھا۔ مگر سنت جی نے حیرت سے دیکھا کہ اس کی ایک ٹانگ لکڑی کی تھی۔
سنت جی نے حیران ہو کر پوچھا کہ سردار لہنا سنگھ جی امرتسری، اس بکرے کی ایک ٹانگ لکڑی کی کیوں ہے؟
سردار جی دکھی لہجے میں بولے
ادھر گھر میں آگ لگ گئی تھی۔ سارا پریوار سویا پڑا تھا۔ یہ باڑے کا دروازہ توڑ کر گھر میں کودا اور ہمیں جگایا تو ہم باہر بھاگے۔ ہبڑ تبڑ میں چنوں منوں اندر ہی رہ گئے تھے۔ یہ بھڑکتے شعلوں میں کود کر انہیں اپنے منہ سے پکڑ کر باہر کھینچ لایا۔ مالک پر برا وقت آیا تو اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی اس بکرے نے۔
اچھا تو آگ سے اس کی ٹانگ جل گئی تھی؟
نہیں۔ ادھر میں رات چوکیداری کے لئے فصلوں میں سویا تھا تو ایک جنگلی سور نے حملہ کر دیا۔ میری کرپان گر گئی اور قریب تھا کہ سور مجھے پھاڑ ڈالے کہ اس بکرے نے اس پر حملہ کر دیا۔ بہت لڑائی ہوئی پھر سور زخمی ہو کر دوڑ گیا۔ مالک پر برا وقت آیا تو اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی اس بکرے نے۔
اچھا تو اس لڑائی میں اس کی ٹانگ زخمی ہو گئی اور کاٹنی پڑی؟
نہیں سنت بھولا سنگھ جی ایسی بات نہیں ہے۔ تو میں بتا رہا تھا کہ ایک دن میں بیل گاڑی پر کھیتوں سے مویشیوں کے لئے چارہ لاد کر لا رہا تھا تو بیل گاڑی کا پہیہ ٹوٹ گیا۔ میں نیچے دب گیا۔ پتہ نہیں کب تک دبا پڑا رہتا کہ اس بکرے کی نظر پڑ گئی۔ یہ بھاگا بھاگا گھر کی طرف گیا۔ راستے میں آوارہ کتے اس کے پیچھے پڑ گئے مگر یہ ذرا نہیں ڈرا اور بندے لے کر آیا جنہوں نے مجھے نکالا ورنہ تو سانس گھٹنے سے ہی میں مر جاتا۔ مالک پر برا وقت آیا تو اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی اس بکرے نے۔
ان آوارہ کتوں نے اس کی ٹانگ کاٹ کھائی ہو گی؟
نہیں سنت جی۔ بات تو پوری سنا کریں۔ ایک دن چنوں ادھر جوہڑ کے کنارے کھیل رہا تھا تو اس کا پیر پھسلا اور وہ اندر گر گیا۔ دور دور تک کوئی نہیں تھا جو اس کی مدد کرتا۔ اس بکرے نے دیکھ لیا تو سیدھا جوہڑ میں گھس گیا حالانکہ بکروں کو کہاں تیرنا آتا ہے۔ چنوں کو باہر کھینچ لایا اور یوں اس کی جان بچا لی۔ مالک پر برا وقت آیا تو اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی اس بکرے نے۔
سردار جی، میں سمجھ گیا۔ جوہڑ میں مگرمچھ نے اس کی ٹانگ کاٹ کھائی ہو گی۔
نہیں سنت بھولا سنگھ جی۔ آپ نہیں سمجھے۔ بھلا ایسے اعلی بکرے کو بھی ایک ہی باری میں کوئی پورا کا پورا کاٹ کھاتا ہے؟ ہم سرداروں نے بھی اس کی قربانیوں کی قدر کی ہے۔
ادھر پنڈی اور اسلام آباد وغیرہ میں سردار لوگ قربانیوں کی خوب قدر کرتے ہیں۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).