کشمیر احتجاج سے پرے


\"irshad

چوٹی کے سیاستدان اورسابق بھارتی وزیرخارجہ یشوونت سنہا کی قیادت میں سول سوسائٹی کےایک وفد نے گزشتہ ہفتے سری نگر کا سہ روزہ دورہ کیا۔ وفد نے سید علی گیلانی، میرواعظ عمر فاروق، سول سوسائٹی، حکومت اورکاروباری طبقات کے ساتھ بات چیت کی۔ یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ ان کا وفد ذاتی حیثیت میں سری نگر آیا ہے۔ یہ مثبت شروعات ہے کم ازکم سول سوسائٹی کی سطح پر ہی سہی بات چیت کا کوئی عمل شروع ہوا۔ ڈیڈلاک تو ٹوٹا۔

کشمیر میں جاری تحریک کو لگ بھگ چار ماہ ہونے کو ہیں۔ اس دوران کشمیریوں نے غیر معمولی قربانیاں دی اور بے پناہ مصائب جھیلے۔ انہوں نےجس عزم اور ہمت کا مظاہرہ کیا اس کی نظیر عصری تاریخ میں تلاش کرنا محال ہے۔ مسلسل کرفیو، ہرٹالوں، مظاہروں اور مزاحمت کاروں کی جدوجہد نے مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ کشمیرمیں ایک طرح کی رائے شماری ہوچکی ہے۔ لوگوں نے آزادی کے حق میں ووٹ دے دیا ہے۔

اس تحریک میں لوگوں نے مالی اور جانی نقصان کو خوش دلی کے ساتھ قبول گیا۔ تاجروں نےمالی نقصان کی پروا کی اور نا طلبہ اورطالبات کا تعلیمی سال ضائع ہونے پر والدین نے واویلا مچایا۔ لوگوں کی ملازمتیں چلی گئیں لیکن وہ معترض نہ ہوئے۔ کوئی ایک آواز بھی ایسی نہیں اٹھی کہ بس اب بہت ہوگیا۔

نوجوان جو اس تحریک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مفاہمت کے موڈ میں نظر نہیں آتے۔ حریت کانفرنس کی لیڈرشپ کا بھی مسئلہ یہ ہے کہ ہڑتال کی اپیلوں کے علاوہ احتجاج کا کوئی دوسرا راستہ اسے سجھائی نہیں دیتا۔ نہ ہی اس حوالے سے زیادہ غور کیا جاتاہے کہ تحریک کو زیادہ موثر اور متحرک بنانے کے لیے کیا نئے اور تخلیقی طریقے تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ اب چار ماہ ہونے کو ہیں شہریوں کی برداشت کی قوت جواب دے چکی ہے۔ معمول کی زندگی بحال ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا کوئی ایسا آبرومندانہ راستہ ہے کہ لوگوں کو احساس شکست سے بچاتے ہوئے تحریک کے اگلے مرحلے کا اعلان کیاجائے؟ لوگوں کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ انہوں نے جو قربانی دی وہ بے ثمر ہوگی۔

بھارتیہ جنتاپارٹی اور بالخصوص نریندرمودی کشمیریوں یا پاکستان سے کسی بھی قسم کی بات چیت کے حق میں نہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی حکومت احتجاج کے آگے گھٹنے ٹیکتی نظر آئے۔ عالم یہ ہے کہ بھارت کے اندر سے جو بھی منصف مزاج لوگ کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی پر احتجاج کرتے ہیں یا پھر انسانی حقوق کی پامالیوں پر آواز اٹھاتے ہیں انہیں غدار قراردیا جاتا ہے۔ بعض پر تو باقاعدہ غداری کے مقدمات قائم کیے جاچکے ہیں۔ بھارتی میڈیا پر بھی معتدل مزاج آوازوں کو دبایا جاتاہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ایسا نقطہ نظر سامنے نہ آسکے جوریاستی پالیسیوں کا پول کھولتا ہو اور مودی سرکار کو کشمیریوں کی آواز سننے کی صلاح دیتا ہو۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ عالمی برادری بھی مسئلہ کشمیر کو قومی مفادات اور بالخصوص معاشی مفادات کے عدسے سےدیکھتی ہے۔ دنیا میں عدل اورانصاف کا پیمانہ یہی رہ گیا ہے کہ کس ملک یا قوم کی مارکیٹ بڑی ہے اور وہاں سرمایہ کاری کی کتنی گنجائش پائی جاتی ہے۔ دنیا نے جس طرح کشمیر پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی اس کی عصری سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ فلسطین، کوسوا، جنوبی سوڈان سمیت دوسرے بہت سارے تنازعات پر عالمی ضمیر نہ صرف جاگا بلکہ تڑپا لیکن کشمیر پر خاموشی کی چادر تان کر سو گیا۔ آخر کیوں؟ ہمیں اس پر ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنا شروع کرنا ہوگا۔ غیرجانبدارانہ تجزیہ کرسکیں تو کوئی راستہ نکل آئے گا۔

اسلامی ممالک کی تنظیم اوآئی سی اور انسانی حقوق کونسل جنیوا کے علاوہ کسی بھی ملک یا عالمی ادارے نے تشویش کے علاوہ کشمیر پر کوئی ٹھوس اقدام کی طرف توجہ نہیں دلائی اورنہ ہی بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ موجودہ بدترین سلوک سے باز آجائے۔ اس عالمی طرزعمل کی بدولت کشمیری نوجوانوں میں پرامن سیاسی اور سفارتی جدوجہد کے ثمرآور ہونے کے امکانات پر سے اعتماد اٹھتا نظر آتاہے۔ یہ تاثر عام ہے کہ پرامن سیاسی جدوجہد میں دم خم نہیں کہ وہ عالمی ضمیر کو جھنجوڑ سکے۔ متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے مظفر آباد پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں کو ہتھیاروں کی سپلائی کرے تاکہ وہ بھارت کا مقابلہ کرسکیں۔

اگر اس طرح کے مطالبات کو اہمیت ملتی ہے تو اس سے صورت حال مزید پیچدہ ہوجائے گی۔ ممکن ہے کہ اس طرح کشمیر عالمی منظر نامے پر آجائے کیونکہ میڈیا میں حادثات اور ہلاکتوں کو صفحہ اول پر جگہ ملتی ہے جب کہ پرامن احتجاج پر میڈیا زیادہ دھیان نہیں دیتا۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ عالمی تناظر میں پرتشدد تحریکوں کو زیادہ آسانی کے ساتھ عالمی حمایت سے محروم کردیا جاتاہے۔ بھارت کے لیے پرتشدد واقعات اور سرگرمیاں سفارتی سطح پرایک طرح کا سہارا بن جاتی ہیں۔

مزاحمتی لیڈرشپ کو اس پہلو پر غور کرنا ہوگا کہ کس طرح لوگوں کے جذبہ آزادی کو برقرار رکھا جائے لیکن انہیں جہادی عناصر،بالخصوص داعش، کے ہاتھوں یرغمال نہ بننے دیا جائے ۔ علاوہ ازیں نوجوانوں کو بھی یہ باور کرنا ہوگا کہ یہ ایک لمبی لڑائی ہے۔ آزادی کے حصول کے لیے طویل المعیاد منصوبہ بندی اور موثر حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ محض بندوق پر انحصار یا پھر طویل ہڑتالوں سے کام چلنے والا نہیں۔ ہڑتال کا مقصد احتجاج ریکارڈ کرانا اور یہ بتانا مقصود ہوتاہے کہ شہری حکومت یا قابض اداروں کی عملداری کو مسترد کرتے ہیں۔ کشمیریوں نے یہ پیغام نہ صرف دے دیا بلکہ ببانگ دہل دیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ایسے احتجاجی طریقوں پر غور کیا جائے جو شہریوں کے مصائب کو کم کرسکیں۔ ان کی زندگی کو مزید مشکلات سے دوچار نہ کریں۔

بھارتی مذاکرات کاروں کا جو وفد سری نگر کا دورہ کررہاہے اس کے توسط سے مسلسل ہڑتال کے خاتمے کی کوئی باعزت راہ نکالی جانی چاہیے۔ متبادل کے طور پر ہر جمعہ کو ہڑتال کی جاسکتی ہے۔ اقوم متحدہ کے مبصرین کے دفاتر سری نگر اور راولپنڈی کے سامنے مستقل ہرٹالی کیمپ قائم کیا جاسکتاہے۔ لندن، نیویارک اور برسلز میں بھی ایسے ہی کیمپ قائم کیے جاسکتے ہیں جہاں ہر اتوار کو چند گھنٹوں کے لیے کشمیری اور دنیا بھر سے انسانی حقوق کے علمبردار، قلمکار، دانشور، شاعر اور سیاستدان کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوں۔ ایسے بے شمار آئیڈیاز پر کام کیا جا سکتا ہے جو مسئلے کو زیادہ شدت سے اجاگر کرسکتے ہیں لیکن شہریوں کے لیے مشکلات کا سبب نہیں بنتے۔

بھارتی کی سول سوسائٹی ، میڈیا اور سیاستدانوں کے ساتھ بات چیت کا دروازہ ہرقیمت پر کھلا رہنا چاہیے۔ پیش نظر رہے کہ جب تک بھارتی رائے عامہ میں کشمیریوں کی بات سننے والے پیدا نہیں ہوں گے اس وقت تک کوئی بھی مثبت پیش رفت ممکن نہیں۔ سید علی گیلانی نے اوڑی میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کے اہل خانے سے اظہار ہمدردی کرکے اس جانب ایک قدم بڑھایاہے۔ بھارتی شہریوں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ کشمیری ان کے دشمن نہیں بلکہ وہ محض اپنا حق مانگ رہے ہیں۔

خود حریت کانفرنس اور مزاحمتی لیڈرشپ میں نئے چہروں کو سامنے لانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ نئے آئیڈیاز اور توانائی کےساتھ لیڈرز کی ایک نئی نسل سامنے آسکے۔ جو اس مشعل کو تھام سکے۔

کالم پر تبصرے کے لیے لکھیں:ershad.mahmud@gmail.com

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments