ہوس اقتدار میں ظلمتوں کا سفر


\"i-am-pervez-rasheed-1431859565-4604\"وزیر اطلاعات پرویز رشید کی کابینہ سے معطلی پر عمران خان نے قوم کو مبارکباد دی ہے اور کہا ہے کہ ایک درباری گیا، اب دربار کی چھٹی ہونے والی ہے۔ اس کے برعکس وزیراعظم نواز شریف نے قصور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حکومت نہ صرف یہ پانچ سال پورے کرے گی بلکہ آئندہ 5 برس بھی انہی کی پارٹی کی حکومت ہوگی۔ وزیراعظم کے ترجمان مصدق ملک یہ وضاحت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ 6 اکتوبر کو روزنامہ ڈان میں ایک خبر شائع ہوئی تھی اور جس کی اشاعت پر فوج سخت ناراض ہے اور اسے قومی سلامتی کے منافی قرار دے چکی ہے ۔۔۔۔۔ وزارت داخلہ کی تحقیقات میں یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ یہ خبر کس نے اخبار تک پہنچائی تھی۔ پرویز رشید وزارت اطلاعات کے سربراہ تھے، اس لئے انہیں عارضی طور پر کابینہ سے معطل کیا گیا ہے تاکہ غیر جانبدارانہ تحقیقات ہوسکیں۔ اس مقصد کےلئے اب ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں آئی ایس آئی ، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے اعلیٰ افسر شامل ہوں گے۔ تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ یہ خبر باہر نکالنے بلکہ گھڑنے والے کون لوگ تھے۔ وزیراعظم ہاؤس کی ایک پریس ریلیز کے مطابق پرویز رشید کو اس لئے حکومت سے علیحدہ کیا گیا ہے کیوں کہ اب تک ہونے والی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس خبر کے افشا ہونے کے حوالے سے ان سے کوتاہی سرزد ہوئی ہے۔ پرویز رشید کی معطلی کی خبر جمعرات کو پاک فوج کے سربراہ سے چوہدری نثار ، اسحاق ڈار اور شہباز شریف کی ڈیڑھ گھنٹہ طویل ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس سے قبل ملک میں یہ اطلاعات گردش کر رہی تھیں کہ حکومت کو اس خبر کی خطا پر کسی وزیر کی قربانی دینا پڑے گی۔

پرویز رشید کی قربانی اس لحاظ سے آسان تھی کہ وہ وزیر اطلاعات تھے لہٰذا خبر کی ترسیل کی ذمہ داری ان پر تھوپنا آسان ہے۔ اس کے علاوہ وہ آؤٹ سائیڈر تھے یعنی ان کا براہ راست نواز شریف کے خاندان یا قریب ترین لوگوں سے تعلق نہیں تھا۔ حکومت کو فوج کے ساتھ مفاہمت کےلئے یہ انتہائی اقدام اٹھانا پڑا ہے کیونکہ 2 نومبر کو تحریک انصاف کی طرف سے دھرنا اور اسلام آباد بند کرنے کے اعلانات کی روشنی میں وہ اس تاریخ سے پہلے فوج کو کسی حد تک راضی کرنا چاہتی تھی تاکہ اس خوف سے نجات حاصل کی جا سکے کہ دھرنے کے دوران کوئی ناخوشگوار صورتحال سامنے آنے کی صورت میں فوج حکومت کے خلاف کوئی انتہائی اقدام نہیں کرے گی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ آج کے اعلان کے بعد اور مزید تحقیقات کا وعدہ کرنے کے بعد فوج کا غصہ کم ہو گیا ہے اور وہ حکومت کے اقدامات سے مطمئن ہو کر اب جمہوریت کے تسلسل کی ’’اجازت‘‘ دینے پر راضی ہو گئی ہے۔ یا نواز شریف اور ان کے بزرجمہر اپنے طور پر یہ اقدام کرکے سمجھ رہے ہیں کہ ایک وزیر قربان کرنے سے فوج مطمئن ہو جائے گی اور ہم موجودہ بحران سے باہر نکل آئیں گے۔

حکومت اگر یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ بحران سے کسی حد تک نکلنے اور مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی ہے تو وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہے۔ سپریم کورٹ نے یکم نومبر کو پاناما لیکس کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کےلئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سرکردگی میں 5 رکنی بینچ تشکیل دیا ہے۔ دھرنے سے ایک روز قبل مظاہرین کو روکنے کےلئے حکومت کی پھرتیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال اور فوج کی طرف سے ناراضگی کے اشاروں کی روشنی میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو ان درخواستوں پر بھی غور کرنا ہے کہ پاناما پیپرز میں وزیراعظم کا خاندان براہ راست ملوث ہے، اس لئے انہیں کام کرنے سے روک دیا جائے۔ اگر سپریم کورٹ نے بھی پاک فوج کی طرح قومی مفاد کی من پسند تشریح کرتے ہوئے یہ ضروری سمجھا کہ نواز شریف کا برسر اقتدار رہنا ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا تو کوئی بھی فیصلہ حیرت کا سبب نہیں ہونا چاہئے۔ ملک میں منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی صورت میں عمران خان کی سرکردگی میں لاتعداد لوگ خوشی سے بھنگڑے ڈالنے پر تیار ہوں گے۔

ایسی صورت میں حکمران مسلم لیگ (ن) بھی نواز شریف کی نااہلی یا معطلی یا کام کرنے سے روک دیئے جانے پر پریشان ہونے سے زیادہ اس بات پر دست و گریبان ہوگی کہ کون بھاگ کر وزیراعظم کی کرسی پر قبضہ کر سکتا ہے۔ راوی بتاتے ہیں کہ پارٹی کے اندر نواز شریف کا جانشین بننے کے کئی اہل اور مفاہمت پسند قائدین موجود ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے طور پر آرمی ہاؤس کے مکین کو اپنی مسکینی اور تابعداری کا یقین دلائے گا۔ بلکہ یہ بھی بتائے گا کہ آئندہ آرمی چیف اب نواز شریف مقرر نہیں کریں گے، جو ایسے معاملات میں کسی مفاہمت یا مشورہ سننے کے قائل نہیں ہیں۔ بلکہ نیا جانشین اس معاملے میں زیادہ ’تابعداری‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی جنرل کو فور اسٹار جنرل اور آرمی چیف بنائے گا جس کی طرف سبکدوش ہونے والے آرمی چیف اشارہ کریں گے۔ یعنی فوج کو بطور ادارہ خوش کرنے اور من مانی کرنے کی کھلی چھٹی دی جائے گی۔ بظاہر یہ صورتحال کسی افسانے کا حصہ لگتی ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن جس ملک میں فوج کے اشارے پر لاتعداد وزیراعظم معزول ہو چکے ہوں اور ایک کو تختہ دار پر کھینچا جا چکا ہو، اس ملک میں ایسے افسانے ہی حقیقت کا روپ دھارتے ہیں۔

6 اکتوبر سے پہلے کون یہ کہہ سکتا تھا کہ ایک خبر کی اشاعت پر فوج اس حد تک برافروختہ ہو گی کہ وہ حکومت کو زیرو بم کرنے پر آمادہ ہوجائے گی اور وزیراعظم اس قدر بدحواس ہوں گے کہ وہ یہ بھول کر کہ انہیں اس ملک کے ایک کروڑ سے زائد ووٹروں نے منتخب کیا ہے اور پارلیمنٹ اس ملک کا سب سے بااختیار ادارہ ہے اور وہیں سے انہیں قوت ، حمایت اور تحفظ حاصل کرنا چاہئے۔۔۔۔ فوج کے سربراہ کی ناراضگی دور کرنے اور انہیں راضی کرنے کےلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جائیں گے۔ وزیراعظم کی طرف اپنے وزیر اطلاعات پر ایک ایسی خبر کی اشاعت کی ذمہ داری ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو سامنے آنے والی معلومات کے مطابق پرویز رشید تک پہنچنے سے پہلے سیرل المیڈا تک پہنچ چکی تھی۔ سیرل المیڈا 6 اکتوبر کی رپورٹ پراٹھنے والے طوفان کے بعد ایک مضمون میں واضح کر چکے ہیں کہ یہ خبر ان کے پاس 3 اکتوبر کو ہی پہنچ گئی تھی۔ البتہ اس کی مختلف ذرائع سے تصدیق میں مزید تین روز صرف کئے گئے۔ اخبار کے ایڈیٹر اور سیرل المیڈا اس خبر کی صداقت پر مصر ہیں اور اسے واپس لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے اس کے من گھڑت یا پلانٹڈ PLANTED ہونے کا دعویٰ فوج کی طرف سے ہی کیا جا رہا ہے اور حکومت فوج کے دباؤ میں اس خبر کو غلط قرار دینے پر مجبور ہے۔

فوج کو مسلح ادارہ ہونے کی وجہ سے چونکہ قومی سلامتی اور مفادات کا عملی کسٹوڈین مان لیا گیا ہے (حالانکہ قومی ضرورتوں کا خیال رکھنا آئینی لحاظ سے پارلیمنٹ اور حکومت کی ذمہ داری ہے) اس لئے یہ بات بھی تسلیم کی جا رہی ہے کہ یہ خبر بنانے، پہنچانے اور شائع کروانے میں لازمی طور سے سویلین حکومت کے کار پردازوں کا ہی ہاتھ ہو گا۔ یہ کوئی کہنے، سننے یا ماننے کو تیار نہیں ہوگا کہ ڈان نے خبر کی تصدیق کے عمل میں معلومات پر پورا یقین کرنے کےلئے عسکری ذرائع سے بھی رابطہ کیا ہوگا۔ بلکہ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ عسکری ذرائع نے ان معلومات کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کیا تھا۔ یعنی 6 اکتوبر کو رپورٹ شائع ہونے سے پہلے ہی بعض عسکری حلقوں کو بھی یہ معلوم تھا کہ اس قسم کی خبر ڈان میں شائع ہونے والی ہے۔ سول حکومت سے قربانی مانگنے اور ذمہ داری قبول کرنے کا تقاضا کرنے والی فوج سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ کیا اس نے اپنے ان ’’ذرائع‘‘ کا سراغ لگا لیا ہے جن سے اخبار نے رابطہ کیا تھا اور جنہوں نے خبر پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔ لیکن اس ’’مہلک‘‘ خبر کو اشاعت پذیر ہونے سے رکوانے کےلئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا تھا۔ اخبار کے رابطہ میں آنے والے یہ ذرائع یقیناً آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسران میں سے کوئی ہوگا۔ اگر وہ اسی مرحلے پر خبر کو قومی سلامتی کے برعکس قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیتا اور صحافی یا ایڈیٹر پر یہ واضح کرتا کہ یہ خبر ’’پلانٹ’’ کی جا رہی ہے تو شاید کوئی بھی ذمہ دار اخبار ایسی من گھڑت خبر شائع کرنا پسند نہ کرتا۔ لیکن اشاعت کے بعد سیاسی حکومت کو گھیرتے ہوئے اسے تو ناک رگڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن نہ حکومت یہ سوال اٹھانے کا حوصلہ کرتی ہے اور نہ فوج کے سربراہ اپنے افسروں سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں کہ خبر کی اشاعت میں ان کا کتنا ہاتھ ہے یا وہ کیوں بروقت اس کی اشاعت رکوانے میں ناکام رہے۔

ملک میں ایسی تفصیلات میں جانے اور ایسی بات کرنے کا ماحول موجود نہیں ہے جس میں فوج سے باز پرس کرنے یا جوابدہی کا تاثر ملتا ہو۔ سیاستدان ہوں یا میڈیا ، فوج کے کہے کو پتھر پر لکیر مان کر اس پر یقین کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اس لئے یہ بات طے کرلی گئی ہے کہ : ’’6 اکتوبر کی خبر من گھڑت تھی۔ اسے لیک کرنے والے وزیراعظم کے قریبی لوگ تھے۔ یہ خبر جان بوجھ کر اخبار کو فراہم کی گئی۔ اس خبر کی اشاعت سے قومی سلامتی کو نقصان اور دشمن کو فائدہ پہنچا ہے۔ لہٰذا جو لوگ بھی اس معاملہ میں ملوث ہیں، انہیں نہ صرف یہ کہ حکومت سے نکال دیا جائے بلکہ اس قومی جرم کی سزا بھی دی جائے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایسے بلند آہنگ اینکرز اور اندر کی خبر نکالنے والے تجزیہ کاروں اور حمیت قومی سے لبریز کالم لکھنے والے دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو ’چور‘ کو پکڑنے اور اسے آرمی ایکٹ کے تحت ملکی مفادات کو زک پہنچانے کے الزام میں سزا دینے کا بے ہنگم شور مچا رہے ہیں۔ نعروں پر یقین کرنے والی قوم کے لئے اس قسم کے الزامات اور بیانات ہی سچ کا مصدقہ ثبوت ہوتے ہیں۔ اس ماحول میں دلیل ، جواز ، شواہد اور جمہوری طریقہ کار کی بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہو چکا ہے۔

اسی لئے فوج سے یہ پوچھا نہیں جا سکتا کہ اس خبر میں کون سی معلومات غلط تھیں، نئی تھیں یا ان سے قومی مفاد کو کیا نقصان پہنچا۔ یوں تو یہ قومی مفاد بھی ایک ایسا ہیولہ ہے جس کی شناخت جی ایچ کیو کے احکامات کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔ کوئی دوسرا یہ بتانے کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ قومی مفاد کیا ہوتا ہے۔ اس کی شکل صورت کیسی ہو سکتی ہے اور اسے محفوظ رکھنے کےلئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ اب جبکہ خبر یعنی پلانٹڈ خبر کے الزام کی تحقیقات ہوں گی اور اس جرم میں ملوث لوگوں کو شناخت کیا جائے گا تو یہ پوچھنا بے حد اہم ہو گیا ہے کہ اس رپورٹ میں کون سا ایسا مصالحہ خاص طور سے شامل کیا گیا تھا جو بازار میں عام طور سے دستیاب نہیں ہے۔

مختصراً اس رپورٹ میں کالعدم تنظیموں اور انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے بات کی گئی تھی۔ سب یہ جانتے ہیں کہ ہر اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ معاملہ زیرغور آتا ہے کیونکہ قومی ایکشن پلان کے تحت ان عناصر کا خاتمہ ضروری ہے۔ ایک یہ بات کہی گئی تھی کہ سیکرٹری خارجہ نے بتایا کہ دنیا میں ہم جہاں بھی کشمیر کی بات کرنے جاتے ہیں۔ وہاں ہمیں لشکر طیبہ ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ اس اطلاع میں بھی کچھ نیا نہیں ہے۔ البتہ یہ معلومات ضرور نئی تھیں کہ سیاسی لیڈروں نے شکایت کی کہ صوبائی حکومتیں جب ناپسندیدہ عناصر کے خلاف کارروائی کرتی ہیں تو عسکری ادارے آڑے آ جاتے ہیں۔ اگر یہ اطلاع اشتعال انگیز حد تک غلط ہے تو آئی ایس پی آر کو اس کی تردید میں فوری طور پر بیان جاری کرنا چاہئے تھا۔ اس کی بجائے بتدریج سیاسی حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے کےلئے اقدام کئے گئے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ فوج کا اصل مسئلہ ایک خبر میں فراہم کردہ غلط معلومات تھیں یا اس کی بنیاد پر منتخب حکومت کو ہراساں کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ تحقیقات سے قبل اگر فوج یہ وضاحت کرنے میں ناکام رہتی ہے کہ اسے ڈان کی رپورٹ کے کس حصے پر کیا اور کیوں اعتراض ہے اور اس سے قومی سلامتی کو کیسے نقصان پہنچا ہے تو اسے ایک منتخب حکومت کے خلاف ملک کے طاقتور عسکری ادارے کی زور زبردستی ہی سمجھا جائے گا۔

لیکن اس صورتحال کی ساری ذمہ داری وزیراعظم نواز شریف اور ان کی سیاسی پارٹی پر ہی عائد ہو گی۔ حیرت ہے کہ تیسری بار ملک کا وزیراعظم بننے والا شخص ابھی تک یہ حوصلہ نہیں رکھتا کہ وہ خود کو لیڈر کے طور پرمنوا سکے اور فوج پر واضح کرسکے کہ درست اور غلط کا فیصلہ اسے ہی کرنا ہے اور وہی پارلیمنٹ کی مدد سے قومی مفاد و سلامتی کی وضاحت اور تعین کرسکتا ہے۔ فوج کا کام اس کی ہدایت اور پالیسی کے مطابق احکام بجا لانا ہے۔ لیکن جو وزیراعظم ایک اخباری رپورٹ پر فوج کے سامنے لرزہ براندام ہے اور اپنے وزیر اطلاعات کو سبکدوش کرکے فوجی سربراہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا خواہشمند ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے خود سوچنا چاہئے کہ وہ جلسوں میں لوگوں کے سامنے کس حق و اختیار کی بات کرکے آئندہ کئی برس تک حکمران رہنے کے دعوے اور خواہش کر رہا ہے۔ جو لیڈر ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اپنے کمزور ساتھیوں کو قربان کرنا ضروری سمجھے، اسے کیسے ملک کی قیادت کا حق دیا جا سکتا ہے۔

نواز شریف نے اپنی کمزوری اور سیاسی عاقبت نااندیشی کی وجہ سے ملک کے عسکری اداروں کے سامنے عوام کے منتخب وزیراعظم کو بے توقیر کیا ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ ایسی حکومت کی سربراہی کا کیا فائدہ ہے جو آرمی چیف کے ایک اشارے پر زوال پذیر ہو سکتی ہے۔ کیا بہتر نہیں ہوگا کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کرکے پارلیمنٹ کو بتا دیں کہ وہ کیوں ملک کی قیادت کرنے سے قاصر ہیں؟ لیکن یہ حوصلہ پیدا کرنے کےلئے مفاد کے بغیر سیاست کرنا ضروری ہوگا۔ اسی کمزوری کی وجہ سے سیاستدان بے وقعت اور لاچار ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اگر واقعی اس ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اگر حقیقی معنوں میں یہ درد اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں کہ فوج غیر ضروری طور پر جمہوری حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی، منتخب حکومت پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے تو انہیں فوج کے ساتھ مفاہمت کا درمیانی خفیہ راستہ تلاش کرنے کی بجائے خود کو پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔

خبر کی اشاعت کو من گھڑت قرار دینے کی بجائے، اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے فوجی قیادت سے پارلیمنٹ کے فلور پر یہ پوچھنا چاہئے کہ وہ کیوں اور کیسے اسے غلط قرار دیتی ہے۔ کابینہ کے ایک وفادار رکن کو علیحدہ کرنے اور بعض سرکاری افسروں کو ناکردہ گناہ کی سزا دلوانے کی بجائے ۔۔۔ خود ذمہ داری قبول کریں۔ تب ہی یہ طے ہوسکے گا کہ پارلیمنٹ کا وزن زیادہ ہے یا فوج کے بارود میں زیادہ طاقت ہے۔ جب تک منتخب لیڈر درپردہ منت سماجت کرتے رہیں گے، وہ جمہوریت کو نہیں صرف اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے۔ کبھی اس میں ناکام ہوں گے اور کبھی کامیاب۔ کبھی بےعزت ہوکر حکومت جاری رکھیں گے، کبھی کان سے پکڑ کر نکال دیئے جائیں گے۔ ملک میں نہ جمہوریت آئے گی اور نہ عوام جمہوریت یا سیاستدانوں پر اعتبار کرنا شروع کریں گے۔ بدستور مفاد اور اقتدار کے لئے جد وجہد ہوتی رہے گی۔ ہوس اقتدار میں ظلمتوں کا سفر جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2771 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments