ایک ماں سے تعزیت


\"waqar25 اکتوبر کی رات کو ابھی تک نامعلوم تین دہشت گردوں نے کوئٹہ سریاب روڈ پر پولیس ٹریننگ کالج میں رات گئے درجنوں زیر تربیت سپاہیوں کو ابدی نیند سلا دیا۔ 60 سے زیادہ جوان اور پاکستان جیسے ملک میں باروزگار جوان اموات نے ان کے گھروں میں کیا قیامت برپا کی ہو گی اس بات کا اندازہ ہر صاحب دل بڑی آسانی سے لگا سکتا ہے۔ احساس محرومی، بے حقوقی اور بے توقیری کے شکار اس صوبہ بلوچستا ن کے دور دور کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے شہیدنوجوان نہ جانے کتنی آنکھوں کا ارمان، کتنے دلوں کی دھڑکن اور کتنے گھروں کا چراغ ہوں گے جو ایک آن میں بجھ گئے۔ اس کا دکھ تو ان کے گھروالے خصوصاً ان کی مائیں ہی سمجھ سکتی ہیں جنہوں نے ان اولادوںکی اپنی کوکھ سے لیکر اب تک پرورش کی۔ گزرتے ہوئے ماہ و سال کے ساتھ وہ اپنے گھر کی اس بہار کو پھلتا پھولتا دیکھتے رہے۔ بہت سوں نے ان کو منتوں، مرادوں اور دعاﺅں سے پایا ہو گا۔ کئی اپنے گھروں کی واحد اولاد نرینہ ہو ں گے۔ کئی خاندانوں کی نسل ختم ہوگئی۔ کئی نوبیاہتا بیوہ ہو گئی ہوں گی اورکئی کے خواب ٹوٹ کر چکنا چور ہو گئے ہوں گے۔ چند گمراہ نوجوانوں نے دہشت گردی کا روپ دھار کر کئی بے گنا ہ اپنے جیسے نوجوانوں کو ہلاک کر دیا۔ نوجوان ہی نوجوانوں کے خلاف استعمال ہوگیا۔ اور دونوں ہی موت کی ابدی کھائی میں جا گرے۔ میڈیا اب ان واقعات کو تحقیقاتی طورپر بے نقاب کرنے کے بجائے ان ماتمی لمحات کو ڈرامائی انداز میں دکھانے کو ترجیح دیتا ہے۔ کیمرہ ان ماتم کدوں میں بدل جانے والے گھروں میں جاکر ان غمزدہ ماﺅں اور بہنوں کے آنسو دکھاتا ہے جہاں مائیں اپنے بیٹوں کی تصویروں سے لپٹ کر آہ و بکا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اور بڑے بڑے شہروں کے چوکوں اور چوراہوں پر سول سوسائٹی کے چند افراد اس ماتم میں شریک ہونے کے نام پر شمعیں جلاتے ہوئے۔ میڈیا کی اس ڈرامائی تسکین اور اپنی شہرت اور پھر ان تصویروں کو اکھٹا کر کے حقوق کے نام پر مالی امداد میں اضافہ کا سامان بھی مہیا کرتے نظر آتے ہیں۔

شہید ہونے والی ان بچوں کی ماﺅں کا دکھ تو سب بانٹ لیتے ہیں اور گھر جا کر سب تعزیت کرتے ہیں لیکن دھرتی ماں کا دکھ کون سمجھے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کو ہے۔ سرزمین پاکستان پر کشت وخون کے انبار لگ چکے ہیں اور موت کے سائے اب بھی کہیں چھٹنے کا نام لیتے نہیں دکھائی دیتے۔ یہ جنگ ہزاروں بچے، جوان، بوڑھے، خواتین، سپاہی، فوجی نگل چکی ہے۔ اپنے ہی جوان گمراہ ہو کر اپنے ہی بھائیوں پر ٹوٹ پڑھے۔ اس صورت حال میں اب تک شہا دتوں کی سرکاری تعداد 50 ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں اس سے بہت زیادہ ہو گی۔ کراچی، کوئٹہ، پشاور، لاہور، ملتا ن، فیصل آباد، راولپنڈی، اسلام آباد غرضیکہ اس سرزمین کا کون سا شہر اور کون سا کونہ ہے جہاں اس جنگ میں اب تک خون نہ بہہ چکا ہو۔ سرکاری ادارے، عدالتیں، مسجد یں، امام بارگاہیں، گھر، ہسپتال، سڑکیں، سکول، کالج، یونیورسٹیاں اور پارک تک خون میں نہا چکی ہیں۔

اس دھرتی ماں کی کوکھ روز اجڑتی ہے اور وہ دیکھتی رہتی ہے۔ ابھی تازہ تازہ یہ خون گردی، اس دھرتی ماں کے چمن کی 61 جوان بہاریں کھا گئی ہے۔ یہ مرنے والے اپنی ماﺅں کے بیٹے تو تھے ہی لیکن دھرتی ماں کا مان بھی تھے۔ کوئی دھرتی ماں سے بھی تعزیت کرے اور اس کے دکھ کو سمجھ سکے۔ اس ما ں کی کوکھ آخر کب تک اجڑتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments