عبدالسلام کا جھنگ


سلطان اور چندر بھان کے علاوہ بھی جھنگ  شہر کے کچھ حوالے ہیں، جن کے بارے میں قومی تاریخ عمدا ً خاموش ہے۔ ایسا ہی ایک حوالہ ڈاکٹر عبدالسلام کا بھی ہے جسے پاکستان کے حافظے سے مذہب کی آڑ میں حذف کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ذکر پہ شاہی مورخ ایسے ورق پھلانگتا ہے جیسے مقامی سکول میں سائنس پڑھاتے وقت جینیات کے باب کے صفحے جوڑ کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ نہ کوئی کھولے گا اور نہ ہی آگے پڑھ پائے گا۔

سنتوک داس کے نواحی قصبے میں پیدا ہونے والے عبدالسلام نے جھنگ کو یوں اپنا گھر بنایا کہ پھر کبھی جائے پیدائش کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ آپ کے والد تعلیم کے محکمے میں تھے اور دادا اپنے وقت کے عالم، سو گھر میں درس و تدریس کا چلن عام تھا ۔ اب خاندان کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ماں باپ نے کوئی خواب دیکھا تھا اور کچھ احباب سناتے ہیں کہ عبدالسلام جب پہلی جماعت  میں داخل ہونے گئے تو سکول ماسٹر نے انہیں سیدھا چوتھی میں بٹھا لیا۔ مگر بچپن کی باتوں سے بے نیاز عبدالسلام کی تعلیمی زندگی کامیابیوں سے مزین تھی۔ جب ہر شخص ان کی کم عمری کے امتحان اور ہر امتحان میں ریکارڈ کی کہانی پوچھتا تو اس وقت کا عبد السلام اوپر انگلی اٹھا کر اللہ کے کرم کا اشارہ کر دیتا۔ یہ انگریز کا دور تھا اور اس وقت پارلیمان کی کمیٹیاں مظاہروں کے زیر اثر لوگوں کے مذہب پہ فیصلے نہیں دیتی تھی سو سب مولویوں کے اس لڑکے کی مثالیں دیا کرتے۔

ادب میں ذوق رکھنے والا یہ طالب علم جب عملی زندگی میں داخل ہوا تو ماں باپ نے مقابلے کے امتحان میں بیٹھنے کی ضد کی۔ وہ ان مانے جی کے ساتھ مقابلے کے امتحان میں بیٹھا ضرور مگر ریلوے کو شاید اس کی ضرورت نہیں تھی سو لوٹا دیا گیا۔ انہیں دنوں کیمبرج میں وظیفہ جات آئے تو انتہائی نا مساعد حالات کے باوجود عبدالسلام نے درخواست دے ڈالی۔ اب اسے سر چھوٹو رام کی مردم شناسی کہئے یا جوہر قابل کی قسمت، کسی منتخب امیدوار نے جانے کا فیصلہ بدل دیا اور کیمبرج کا وہ وظیفہ، جس کے لئے لوگ ، مہینوں درخواستیں دے کر پہروں دعائیں مانگا کرتے تھے، عبدالسلام کے نام نکل آیا۔ پوری دنیا سے لوگ بھانت بھانت کا سامان لے کر کیمبرج پہنچے تو دروازے پہ اپنا سٹیل کا ٹرنک اٹھائے جھنگ سے آنے والا ایک نوجوان بھی  کھڑا تھا۔

ڈگری مکمل کرنے کے بعد انہیں مزید تعلیم کا وظیفہ بھی ملا اور نوکری کی پیشکش بھی مگر ملک نیا نیا بنا تھا سو وہ لاہور آ کر اپنی ہی مادر علمی میں دن میں حساب پڑھاتے اور شام کو فٹ بال کھیلتے۔ طبیعات کی دقیق گتھیاں سلجھانے والے اس پروفیسر کی گفتگو میں ریاضی کی علامتوں سے زیادہ تصوف کے حوالے ہوا کرتے۔ صبح ، ہال نما کلاسوں میں جمع تفریق سکھانے والا جب رات کو ہاری ہوئی ٹیم کے ساتھ چوبرجی میں دودھ جلیبیاں کھاتا تو سب سمجھ جاتے کہ نیا پروفیسر دو رخ کا سکہ نہیں بلکہ ایک بلوریں منشور ہے جس سے ہر کرن سات رنگ لے کر نکلتی ہیں۔ پھر لاہور میں 1953ء کے بلوے ہو گئے اور پہلی دفعہ عبدالسلام کو لگا کہ وہ اس پیڑ سے کٹ گئے ہیں جس پہ کھڑے تھے۔

اگلے ماہ امپیریل کالج میں پڑھانے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے قبول کر لی اور یوں 30 سال کی عمر میں امپیریل کالج کی تاریخ میں کم عمر ترین پروفیسر ہونے کا اعزاز بھی ایک پاکستانی کے حصے میں آیا۔

مارشل لگاء لگانے اور سیاسی جوڑتوڑ سے فراغت پائی تو 1960ء میں ایوب خان نے ڈاکٹر عبدالسلام کو واپس بلوا لیا۔ پاکستان کی پہلی مربوط سائنسی پالیسی کے پس منظر میں ڈاکٹر عبدالسلام کا نام لیا جاتا ہے۔ انہی کی قیادت میں سپارکو کا قیام عمل میں آیا اور بہت سے سائنسدانوں کو تعلیم کے حصول کے لئے ترقی یافتہ ممالک میں بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ PINSTECH ، اٹامک انرجی کمیشن اور IAEA کے مشن کی سربراہی سے کراچی کے جوہری پلانٹ تک انہوں نے پاکستان میں سائنسی مزاج کی داغ بیل ڈالی۔ ا ٓج ملک کے طول و عرض میں پھیلے تحقیق کے بیسیوں مراکز، جہاں سے تبلیغی جماعتوں کے مشن نکلتے ہیں، حقیقتا اسی ’غیر مسلم‘  پاکستانی کے ذہن رسا کی پیداوار ہیں۔ رہی بات ایٹمی پروگرام کی تو، ملتان میں ہونے والی ملاقات اور جوہری تحقیق تک تو عبدالسلام اس کا حصہ رہے مگر بعد میں جب بھٹو دور میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تو وہ انگلستان چلے گئے۔ ملک بدل گیا مگر وہ دل جو پاکستان کے لئے دھڑکتا تھا ، نہیں بدل سکا سو آپ آخر تک اس پروگرام کے سائنسدانوں سے رابطے میں رہے اور ان کی رہنمائی کرتے رہے۔

پاکستان کے اس سائنسدان کو ان تمام ملکوں نے شہریت کی پیشکش کی جن کی شہریت اختیار کرنے میں وہ لوگ پیش پیش ہیں جو آج ان پہ انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ایک انٹر ویو کے دوران ڈاکٹر صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان جانے سے کیوں گریزاں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں پاکستان سے نہیں بلکہ پاکستان مجھ سے گریزاں ہے۔

جھنگ کے اس شہری کی قابلیت کے اعتراف میں 1979 ء میں نوبل انعام کا اعلان ہوا۔ آپ نے گرینڈ یونیفیکیشن کے نظریے پہ کام کیا جو بہ الفاظ دیگر یہ نظریہ ہے کہ تمام تر قوتیں ایک ہی منبع سے پھوٹتی ہیں۔ جب انعام کا اعلان ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے سب سے پہلے شکرانے کے نفل ادا کئے۔ نوبل انعام کی تاریخ میں پہلی بار انعام یافتگان میں سے کسی نے شیروانی پہنی اور پہلی بار ان درو دیوار میں کسی نے سورت ال ملک کی تلاوت کی

ترجمہ: پھر دوبارہ نظر دوڑاﺅ، تمہاری نظر تھک ہار کر واپس آ جائے گی

اسی سال پاکستان کی حکومت نے بھی انہیں اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا۔ ایسا نہیں کہ مملکت خداداد نے ڈاکٹر عبدالسلام کی قدر نہیں کی مگر یہ ضرور ہے کہ ان کی بصارت ، ہمارے وسائل اور کوتاہ بینی سے بار بار ٹکراتی رہی۔ ہم لوگوں نے ان کے اعزاز میں ٹکٹ تو جاری کر دئے مگر جب عبدالسلام نے ایک تحقیقی مرکز بنانے کی بات کی تو اس وقت کے وزیر خزانہ نے یہ کہہ کر منصوبہ رد کر دیا کہ سائنس دانوں کے لئے اس ’ہوٹل ‘ کی کوئی ضرورت نہیں۔

نوبل انعام ملنے کے بعد ڈاکٹر عبدالسلام لاہور آئے تو سب سے پہلے داتا صاحب گئے اور پھر گورنمنٹ کالج۔ درسگاہ اور درگاہ کا یہ یکساں عقیدت مند تین سو سے زیادہ اعزازات حاصل کرنے کے باوجود مولویوں کا وہ لڑکا ہی رہا جو اپنی ہر کامیابی کو اللہ کی عطا جانتا تھا ۔ ایک ایسی ہی نشست میں جب جھنگ کا ذکر آیا تو کسی نے کہا کہ پہلے جھنگ ہیر کی معرفت مشہور تھا اور اب آپ کا نوبل انعام اس شہر کو شہرت عطا کرے گا۔

ڈاکٹر سلام نے جواب دیا  دنیا میں نوبل انعام لینے والے بہت سے ہیں مگر ہیر صرف ایک ہے۔

اپنی مٹی میں دفن ہونے کی خواہش رکھنے والے عبدالسلام کو اگر معلوم ہوتا کہ اس ملک میں انہیں اپنی قبر کے کتبے کے لئے ایک میجسٹریٹ کی اجازت چاہئے ہو گی تو کیا وہ اپنا فیصلہ بر قرار رکھتے یا وہ سمجھ جاتے کہ جیسے قائد اعظم کی 11 اگست والی تقریر کہیں کھو گئی تھی ویسے ہی جناح کی 1944ء والی سرینگر کی تقریر بھلا دی گئی ہے۔ وقت کے پانیوں کے علاوہ بھی جھنگ کی مٹی کو کوئی کلر چاٹ رہا ہے….

( اگر آپ محمد حسن معراج کا یہ کالم انہی کی آواز میں سننا چاہیں تو ذیل کا لنک دبائیے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments