بی جی (خاکہ)۔


بی جی شادی ہو کر بارہ برس کی عمر میں ایسی سسرال آئیں کہ دوبارہ کبھی میکے جانا نصیب نہ ہوا۔ کہتی تھیں کہ نور کے ماموں ایک دفعہ مجھے لینے آئے تھے کہ میں اپنی بھاوج کو اس کے میکے جا کر منا کر لے آؤں مگر میں ان دنوں ایسی حالت میں تھی کہ سفر کے قابل نہ تھی۔ بھائی اس وقت ایسے ناراض ہو کر گئے کہ پھر کبھی ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔ میری بھاوج نے بھائی کے نام پر بیٹھے بیٹھے پوری جوانی گزار دی۔

بی جی کے پاس قصے کہانیوں کے علاوہ بے شمار جیتے جاگتے کردار موجود تھے۔ جن کے بارے میں کئی گھنٹے گفتگو کر سکتی تھیں۔ بی جی لڑکیوں کی تعلیم کی حامی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچیوں کو اتنا تعلیم یافتہ ضرور ہونا چاہیے کہ اگر کبھی برا وقت آئے تو سلائی کڑھائی کرکے یا نوکری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔

رجب المرجب کے مہینے میں جمعہ کی نماز سے قبل سورہ الملک کا ختم ضرور کرواتیں۔ کبھی اکیس دفعہ کبھی اکتالیس دفعہ کبھی اکہتر دفعہ۔ اس دن گھر کے جو مکین فارغ ہوتے یا جو بچیاں اور لڑکے پڑھ سکتے ہر ایک کے حصے میں آٹھ، دس دفعہ کی پڑھائی ضرور آتی۔ اس کے بعد گھر میں تبارک کی روٹی فاتحہ کے لئے تیار ہوتی تھی۔ وہ میٹھی روٹی بسکٹ کی طرح کی ہوتی تھی جس پر تل لگے ہوتے تھے۔ وہ کہتی تھیں کہ یہ روٹی جب سورج سوا نیزے پر ہوگا تو ہمیں اس کی سختی سے بچائے گی۔

گھر میں جب کوئی پریشانی آ جاتی تو بی جی فوراًنفل مان لیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ بڑے بیٹے کے شدید گردے کا درد اٹھا اور جان پر بن گئی تو بی جی نے ڈیڑھ سو نفل صحت یابی کے لیے مان لیے، جو ادا کرتے ہوئے بچوں سے حساب لکھواتی جاتی تھیں تاکہ حساب میں غلطی نہ ہو۔ مغرب کے بعد ان کا معمول تھا کہ کلمہ طیبہ اور تیسرے کلمہ کا ورد کرتیں اور اس کا حساب بچوں سے ایک کاپی میں لکھواتی جاتیں۔ استغفار بھی کثرت سے پڑھتیں۔ ہم کہتے کہ بی جی اس قدر تسبیحات کیوں پڑھتی ہیں، تو کہتیں کہ مرتے وقت سوا لاکھ کلمہ ہونا چاہیے ساتھ جانے کے لیے۔

سنا تھا بی جی کو مدینے جانے کی بہت خواہش تھی اور جب بڑے بیٹے کے ہمراہ حج پر گئیں تو وہاں سے آبِ زم زم سے اپنا کفن دھو کر لائی تھیں۔ جس پر پاک مٹی سے کلمہ بھی لکھا ہوا تھا۔ ہر دس پندرہ دن بعد یا مہینے بعد صندوق کھلوا کر کفن نکالتی اور اگر کبھی دھوپ کی ضرورت ہوتی تو دھوپ لگا کر رکھ دیتیں۔ پوتے پوتیوں، بہو بیٹوں کو وصیت کر رکھی تھی کہ جیسے ہی میرا انتقال ہو نہلانے اور کفنانے میں دیر نہیں کرنا میت کے سرہانے بیٹھ کر اونچی آواز سے مسلسل یسین پڑھنا اور میت اٹھنے سے قبل گیارہ دفعہ سورۃ البقرہ ضرور پڑھ کر بخشنا۔

جس قدر ممکن ہو سورہ الملک سورہ یسین سورہ المزمل کا ثواب پہنچاتے رہنا۔ کہتے ہیں کہ بی جی نے بانوے برس عمر پائی بڑھاپے میں ان کا رنگ سانولا ہوگیا تھا۔ رمضان المبارک میں ایک دن کسی بات پر غصہ آگیا، مغرب کے وقت یہ کہتی ہوئی مڑیں کے اب ایسے گروں کہ پھر کبھی نہ اٹھ سکوں۔ اسی رات باتھ روم جاتے ہوئے کسی چیز سے ٹکرا کر گریں، کولہے کا گولہ ٹوٹ گیا تھا۔ اس زمانے میں کولہے کے گولے کی سرجری تھی یا نہیں مجھے علم نہیں۔

بیٹوں کو سختی سے منع کردیا تھا کہ ہسپتال نہ لے جانا۔ بچے چار ماہ تک خدمت کرتے رہے۔ مگر ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے سخت ترین اذیت اور تکلیف میں مبتلا رہیں۔ اس دوران دونوں بہوؤں نے بڑی خدمت کی۔ اکثر کہتیں کہ یہ میری پائنتی میں تم نے کس کے بچے لٹا کر چھوڑ دیے ہیں ان چھوٹے بچوں کو اٹھا لو یہ مجھے تنگ کر رہے ہیں یا کبھی کہتیں کہ دیکھو نور کے ماموں آئے ہیں دروازہ بجا رہے ہیں جا کر دروازہ کھول دو یا پھر اکثر ان لوگوں کے نام لیتیں جو دنیا سے جاچکے ہیں۔ بچے انھیں وہ نظر آرہے تھے جو کم سنی میں انتقال کر گئے تھے۔

ہمارا خیال تھا کہ اس وقت تک ان کے بڑے بھائی بھی وفات پا چکے ہوں گے۔ بیماری کے دوران ہاتھ جوڑ کر اللہ تعالی سے معافی مانگتی رہیں۔ 29 مئی 1995 ء کو رات ساڑھے گیارہ بجے تمام پوتے پوتیوں، اپنے بیٹے بہوؤں کی موجودگی میں یسین سنی، تمام لوگوں پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے کلمہ پڑھا اور اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔ دو گھنٹے کے اندر انھیں نہلا دھلا کر کفنادیا گیا۔

غسل کے بعد ان کا رنگ انتہائی صاف اور پیلاہٹ لئے ہوئے تھا۔ چہرے کے تمام جھریاں ختم ہوگئی تھیں۔ موت کے بعد ایسے پرسکون چہرے شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مئی کے دن تھے۔ سخت گرمی تھی۔ گھر میں برف منگوا کر ان کی چارپائی کے نیچے رکھ دی گئی۔ تدفین دوسرے دن ظہر میں ہوئی۔ بی جی اپنی طبعی عمر پوری کر کے گئی تھیں۔ مگر ہمیں اس صدمے سے سنبھلنے میں ایک عمر لگی۔ آج بھی زندگی میں کبھی کوئی پریشانی آجائے تو کبھی خواب میں اور کبھی خیال میں آکر کہتی ہیں کہ میری لاڈو پریشان نہ ہو، اللہ بہتر کرے گا۔ بحیثیت ماں، بحیثیت بیوی بحیثیت دادی اور بحیثیت ساس بہت کم خواتین ایسی ملیں گی جنھوں نے اپنی زندگی اتنی متحرک اور فعال گزاری ہوگی اور بیک وقت اتنے سارے بچوں کی تربیت کر گئی ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments