پاکستان کی تاریخ کا اجمالی جائزہ


پاکستان میں امریکی مداخلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لیاقت علی خان کے دور میں ہی ترقی پسند اور سیکولر لوگوں کو نشانہ بنایا شروع کردیا گیا۔ راول پنڈی سازش کیس بناکر اعلیٰ پائے کے دانش وروں اور مزدور رہ نماؤں کو قید کردیا گیا جن میں فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر، حسن عابدی، ظفر اللہ پوشنی، میجر اسحاق، محمد حسن عطا اور دیگر کئی ترقی پسند دانش ور اور کارکن شامل تھے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دائیں بازو کے فرقہ پرست رہ نما اور بنیاد پرست تو کھل کرکھیلتے رہے اور اس کے مقابلے میں ایک ترقی پسند اور لبرل بیانیہ دے سکنے والے لوگوں کو کچل کر رکھ دیا گیا اور یہ عمل آج تک جاری ہے جس کے نتیجے میں ملک کا معاشرتی تار و پو بکھر کر رہ گیا۔

لیاقت علی خان کا قتل ایک اندوہناک واقع تھا جس سے ملک کے سیاسی نظام کو شدید نقصان پہنچا۔ اس قتل کی سازش کبھی بے نقاب نہ ہوسکی مگر اس کا سب سے بڑا فائدہ تین افرادکو ہوا جو سول اور فوجی افسر شاہی کے نمائندے تھے یعنی ملک غلام محمد، میجر جنرل اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان۔ یہ تینوں حضرات لیاقت علی خان کے قتل کے بعد یکے بعد دیگرے سربراہ مملکت بنے۔ خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم بناکر غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا گیا جو خود سیاست دان نہیں تھے بلکہ ایک بدزبان افسر تھے جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد نئے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں جن کا سب سے بڑا محرک خود ملک غلام محمد تھے۔ پھر میڈیا ٹرائل کا آغاز بھی اسی دور میں ہوا اور فرقہ وارانہ طاقتوں کے استعمال کی شروعات بھی اسی دور میں ہوئی خواجہ ناظم الدین ایک سیدھے سادھے رہ نما تھے جن کا تعلق بنگال کی ایک اردو اسپیکنگ فیملی سے تھا۔ وہ محلاتی سازشوں میں مذکورہ تینوں حضرات کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔

اسی دور میں قادیانیوں کے خلاف تحریک بڑے پیمانے پر شروع ہوئی جس پر قابو پانے میں سول انتظامیہ ناکام ثابت ہوئی یا ناکام بنادی گئی۔ بھانت بھانت کی فرقہ وارانہ جماعتیں منظر عام پر آگئیں اور احمدیوں کے مسئلے کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا جاتا رہا۔ پھر ملک میں غذائی اجناس کی قلتیں پیدا ہوگئیں۔ اخبارات نے خواجہ ناظم الدین کو ”قائد قلت“ کا خطاب دے ڈالا۔ ان کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ وہ دونوں ہاتھوں سے کھانا کھاتے ہیں اسی لیے فربہ ہیں جب کہ ملک میں غذائی قلت ہے۔

اسی طرح مشہور کیا گیا کہ خواجہ ناظم الدین کو مرغیاں پالنے کا بہت شوق ہے اور موصوف دن کا زیادہ وقت اپنی مرغیوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ یہ اس طرح کے الزامات ہیں جیسے بعد میں آصف زرداری اور ان کے گھوڑوں کے بارے میں پھیلائے گئے یا خود نواز شریف کے بارے میں یہ افواہ اڑائی گئی کہ وہ سری پائے، ربڑی اور لسی کے شوقین ہیں اور اعلیٰ سطح کے اجلاس میں بھی کھانوں کا ذکر کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح کی باتیں پھیلانے کے مذموم مقاصد یہ ہوتے ہیں کہ عوام کا اپنے رہنماؤں پر سے اعتماد ختم ہوجائے تاکہ سول اور فوجی افسر شاہی جب چاہے ان عوام کے منتخب نمائندوں کو کان پکڑکر باہر نکال دے اور پھر کچھ لوگوں سے مٹھائیاں بٹوا کر تصویریں چھاپ دی جائیں۔

غرض یہ کہ خواجہ ناظم الدین کے خلاف سازشیں خوب تیار ہوچکیں تو انہیں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اپریل 1953 میں وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کردیا۔ اور محمد علی بوگرا جو پاکستان میں اتنے ہی غیر معروف تھے جتنے کے بعد میں لائے جانے والے معین قریشی یا شوکت عزیز۔ کو وزیر اعظم بنادیا گیا۔

ستم ظریفی دیکھیے کہ وزیر اعظم کو پہلی دستور ساز اسمبلی کا اعتماد حاصل تھا اور انہیں ہٹانے کے لیے اسمبلی میں کوئی عدم اعتماد کی قرارداد پیش نہیں کی گئی جوکہ جمہوری اور قانونی طریقہ تھا۔ اس کے بجائے گورنر جنرل نے ایک حکم کے ذریعے وزیر اعظم کی حکومت برخاست کردی اور پوری اسمبلی نے اپنی جان بچانے کے لیے وزیر اعظم ناظم الدین کا ساتھ نہیں دیا بل کہ نئے وزیر اعظم جو اسمبلی کے رکن بھی نہیں تھے انہیں اعتماد کا ووٹ دے دیا۔

دراصل پہلی دستور ساز اسمبلی کے ارکان جانتے تھے کہ ان کی بنیادی ذمہ داری یعنی آئین بنانے کا کام نہیں ہورہا جب کہ قیام پاکستان کو چھ برس گزر چکے تھے اور خود بھارت 1950 میں اپنا نیا آئین بناکر نافذ کرچکا تھا۔ اب دستور ساز اسمبلی کو خطرہ تھا کہ اگر اس نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کا ساتھ دیا تو ممکن ہے گورنر جنرل پوری اسمبلی کو ہی فارغ نہ کردیں۔

لیکن غلام محمد نے اگلے سال یہ کام کرہی دیا۔ 1954 میں نئے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ اور اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے اسمبلی سے وہ بل پاس کرالیا جس کی رو سے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات چھین لیے گئے تھے۔ غلام محمد اس وقت چھٹی پر تھے مگرانہوں نے جلد ہی جوابی کارروائی کرتے ہوئے اکتوبر 1954 میں پہلی دستور ساز اسمبلی توڑ دی مگر محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم کے عہدے پر برقرار رکھا۔

اب وزیر اعظم موجود تھے مگر اسمبلی نہ تھی۔ اسپیکر مولوی تمیز الدین نے کورٹ سے رجوع کیا تو سندھ کی عدالت نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا مگر پھر وفاقی عدالت کے چیف جسٹس محمد منیر نے پاکستان کی تاریخ کا پہلا تاریک ترین فیصلہ دیتے ہوئے گورنر جنرل کے اقدام کو جائز قرار دیا اور نئی اسمبلی وجود میں لانے کاکہا۔

بعد میں جسٹس منیر خود اس بات کا اعتراف کرتے رہے کہ وہ فیصلہ دباؤ کا نتیجہ تھا اور اس سے ملک میں جمہوریت اور سیاست کو شدید نقصان پہنچا۔ اس سیاہ فیصلے نے ایک ایسی مثال قائم کی جس نے بعد میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا۔

اب عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق نئی اسمبلی بنانے کے لیے بھی کوئی نئے عام انتخابات نہیں کرائے گئے بل کہ اس وقت موجود صوبائی اسمبلیوں سے کہا گیا کہ وہ دوسری دستور ساز اسمبلی کے ارکان کو منتخب کریں۔ اس وقت تک مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت صوبائی انتخاب ہار چکی تھی اور اس کی جگہ جگتو فرنٹ حکومت بنا چکی تھی اس لیے جو نئی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی اس میں مسلم لیگ اپنی پرانی حیثیت کھو چکی تھی۔ اب وزیر اعظم محمد علی بوگرا کو اپنی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے اور ان کی جگہ ایک اور شاطر چودھری محمد علی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔

اسی دوران 1955 میں ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ مغربی پاکستان کے صوبوں کو ختم کرکے ایک ون یونٹ بنایا گیا جس کو عددی طور پرمشرقی پاکستان کے مساوی قرار دے دیا گیا جب کہ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے تقریباً دس فیصد زیادہ تھی۔ ون یونٹ بنانے کے بعد بل کہ اس دوران ہی ملک غلام محمد بیمار ہوگئے اور انہیں ہٹاکر اسکندر مرزا کو نیا گورنر جنرل بنا دیا گیا۔

اسکندر مرزا نے گورنر جنرل بننے کے بعد محلاتی سازشوں میں اور اضافہ کیا اور نئے آئین کے تحت صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کسی بھی وزیر اعظم کو ٹک کر حکومت نہ کرنے دی۔ چودھری محمد علی کے بعد ابراہیم اسماعیل چندریگر، حسین شہید سہروردی اور فیروز خان نون وزیر اعظم بنے مگر اسکندر مرزا کسی سے مطمئن نہیں تھے اور ہر ایک کو ہٹاکر خود اپنی صدارت مستحکم کرنے کے چکر میں لگے رہے۔

1956 میں جب نیا آئین نافذ کیا گیا تو اس کے تحت نئے انتخابات کرانے تھے لیکن باربار ملتوی کرنے کے بعد جب یہ معلوم ہوا کہ اگر انتخابات کرا دیے گئے تو ممکنہ طور پر عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی بھاری اکثریت سے جیت جائیں گی تو اسکندر مرزا نے سات اکتوبر 1958 کو مارشل لا لگاکر آئین کو ختم کرنے کا اعلان کیا اور تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگادی اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بنادیا جنہوں نے اسکندر مرزا کا بھرپور ساتھ دیا۔

اب اسکندر مرزا کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ جنرل ایوب خان انہیں ہی نہ برخاست کردیں تو جنرل ایوب خان کو مطمئن کرنے اور اپنا وفادار رکھنے کے لیے صدر اسکندرمرزا نے چوبیس اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب خان کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا مگر صرف دو دن بعد ہی ستائیس اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب نے اپنے جرنیلوں کو بھیج کر صدر اسکندر مرزا کو گرفتار کرالیا اور پھر جبری جلاوطنی پر ملک سے باہر بھیج دیا اس طرح اب جنرل ایوب خان بلاشرکت غیرے ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے اور ان کی گیارہ سالہ آمریت کا آغاز ہوا جس میں نہ سرف ان کے اپنے گھر والے اور رشتہ دار بل کہ ان کے بیٹوں کے سسرالی بھی ارب پتی بن گئے مگر آج تک ان کی دولت کے ذرائع کسی نے نہ پوچھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments