کافر ممتا


وہ ہر ایک سے محبت سے پیش آتی ہیں۔ مجھے پاکستان کی نرسیں یاد آجاتی تھیں۔ مگر مقابلہ بے کار تھا۔ جتنے زیادہ ہم پاکستانی ڈاکٹر بے حس ہیں اتنی ہی ہماری نرسیں بھی بے حس ہیں۔ پورے ملک کا یہی حال ہے کسی شعبے میں بھی کمال فن نہیں ہے۔ یہی ہماری قسمت ہے۔ یہی ہمارا حال، اس میں کس سے کیا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

کیتھرینا نے میرا ہنس کر کشادہ دلی کے ساتھ استقبال کیا۔ جمعرات سے کام شروع کرنا تھا مگر میں بدھ کے دن شام کو وارڈ دیکھنے کے لیے چلا گیا تا کہ مجھے اندازہ تو ہو کہ اگلے چند ماہ کہاں اور کس طرح کے لوگوں میں گزریں گے۔ دو گھنٹے میں اس نے وارڈ کے سارے معمولات سمجھا دیے۔ راؤنڈ کب ہوتا ہے کلینک کہاں پہ چلتی ہے۔ لیبارٹری کے لیے ٹیسٹ کہاں بھیجتے ہیں۔ کون سا کنسلٹنٹ کیا کبھی بھی نہیں کرتا ہے اور کون ہمیشہ ایک ہی کام باربار کرتا ہے۔ میٹنگ کب ہوتی ہے۔ وہ ملنسارتھی، خوش اخلاق تھی اوربالکل پروفیشنل، اس نے مجھے بہت متاثر کیا۔

پاکستان سے باہر یہ میری پہلی نوکری تھی اور اس نوکری پر ہی آئندہ کی نوکری کا انحصار تھا۔ کیونکہ ان ملکوں میں نوکری قابلیت پر ملتی ہے رشتہ داری، سیاسی، تعلقات یا سندھی، پنجابی، مہاجر، پٹھان، بلوچ، بنیادوں پر نہیں ملتی ہے۔ ایک دفعہ نوکری ملتی ہے تو اگلی نوکری اس نوکری میں کارکردگی کی بنیاد پر ملتی ہے اس بنیادپر نہیں ملتی ہے کہ پروفیسر کا بریف کیس کتنا اُٹھایا ہے اس کے گھر کتنی دفعہ گئے ہیں، اسے تحفے کتنے دیے۔ اور اوپر والوں سے تعلقات کیسے ہیں۔ آپ کا سیاسی کنکشن کس سے ہے آپ کا خاندان کیا ہے یا آپ رشوت کتنا دے سکتے ہیں۔

زمین اور آسمان کا فرق ہے دونوں نظاموں میں وہاں کے لوگ کافر ہیں ہم سب مسلمان۔ وہ شراب پیتے ہیں ہم نہیں پیتے۔ وہ سور اور جھٹکے کا حرام کھاتے ہیں ہم ذیبحہ اور حلال نوش کرتے ہیں۔ ہم پردہ کرتے ہیں وہ نہیں کرتے۔ ہمارا مذہب سارے مذاہب سے اچھا ہے وہ لوگ مشرک ہیں۔ ہم ایک خدا کو مانتے ہیں جو واحد ہے، ان کے خدا کا بیٹا بھی ہے۔ عجیب باتیں تھیں۔ میں کنفیوز ہوگیا تھا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔

میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ کیتھرینا سے تعلقات کیسے اور کیوں کر بڑھتے چلے گئے۔ دوستی ہوئی تھی اور دستی کیسے محبت میں بدل گئی۔ شاید دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہوگا اور شاید ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے اور شاید ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ شاید اکیلاپن، شاید اس کی مدد کرنے کی عادت، شاید اس کا دلکش انداز اور ہر وقت خو ش مزاجی سے پیش آنا، شاید اس کا مریض بچوں سے سلوک، شاید اس کا دنیا اور سماج کے بارے میں سوچنے کا طریقہ۔ پتہ نہیں کہ کیا تھا اس میں اسے پسند کر بیٹھا۔

وہ کسی صورت میں بھی کوثر سے زیادہ خوبصورت نہیں تھی۔ وہ ایک عام سی آئرش لڑکی تھی۔ کوثر خوبصورت تھی گوری قدرتی طور پر ٹین ہوئی ہوئی جس کے لیے یورپین لوگ گھنٹوں سورج کی طرف منہ لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس کا قد اچھا تھا پھر اسے اپنے آپ کو لئے دیے رکھنے کا طریقہ بھی آتا تھا۔ ہماری چچی جان بڑی سمجھدار عورت تھیں اور مشرقی عورت کے ہر ڈھنگ انہوں نے اسے سکھا دیئے تھے۔ دولت خوشحالی اور دنیا جہان کے سفرنے اسے ماڈرن بھی بنادیا تھا، کیتھرینا اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔

کیتھرینا کا خاندان معمولی حیثیت کا خاندان تھا اس کے والد کارپنٹر تھے ایک بھائی گالوے یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا جبکہ ایک اوربہن نرس تھی اور اپنے شوہر کے ساتھ لمرک میں رہتی تھی۔ آئرلینڈ کا ایک متوسط محنت کرنے والا خاندان۔

وہ مجھے اپنے گاؤں بھی لے گئی۔ لمرک سے باہر چھوٹا سا گاؤں اور سیدھے سادھے دیہاتی تھے وہ لوگ۔ اس کی دادی بھی ان کے ساتھ رہتی تھی۔ دادی اوراس کی ماں اور اس کا باپ اسی گرمجوشی سے ملے جیسے میرے ماں باپ اور دادی مجھ سے ملتے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں اپنے ہی گھر میں ہوں۔ سارے گرمجوش تھے رشتہ داروں کی طرح۔

کورک میں اٹھارہ مہینہ بڑے بھرپور گزرے، کیتھرینا سے بڑھتی ہوئی دوستی محبت میں بدلی جتنے دن رہا میں اس کا عادی ہوگیا اور میری پرستار اس حد تک کہ اس نے سور کھانا چھوڑ دیا۔ پاکستان اور اسلام کے بارے میں کتابیں پڑھنی شروع کردیں۔ میں اسے چاہتا رہا مگر دل ہی دل میں ڈرتا بھی رہا۔ اقرار بھی کیا اور اپنے آپ سے انکار بھی کرتا رہا۔ اور شدید محبت کے باوجود میں اپنے آپ کو نہیں تیار کرپایا کہ اپنے خاندان، والدین سے کہہ سکوں کہ میں کیتھرینا سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔

میں اپنے گھر والوں سے تو بات نہیں کرسکا لیکن ایک دن کیتھرینا سے مجھے بات کرنی پڑی۔ اسے صورتحال سے آگاہ کرنا پڑا اسے بتانا پڑا کہ اس محبت کو ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کو بھولنا ہوگا۔ مجھے پاکستان واپس جانا ہے اور پاکستان میں اسے کوئی بھی قبول نہیں کرے گا۔ شاید میں خود غرض تھا یا شاید بے غرض۔ میرے اندر کی کشمکش مجھے کہتی تھی کہ کیتھرینا پاکستان میں خوش نہیں رہے گی۔ جس سے محبت کرتے ہو اس کو اس جہنم میں کیوں لے جاتے ہو۔

اٹھارہ مہینہ کم نہیں ہوتے۔ ایک ہفتے میں تو انسان کو اپنے کتے ّ سے بھی پیار ہوجاتا ہے اور وہ تو سوچنے سمجھنے خیال کرنے والی اچھی سی پیاری سی کومل سی کیتھرینا تھی۔ کتنا کام آئی تھی میرے۔ بلا مقصد بغیر غرض مجھے چاہا تھا اس نے۔ میری پہلی نوکری میں کام کرنے کا ڈھنگ سکھایا تھا مجھے۔ مجھے گھمایا۔ میری ساتھ گھومی۔ ہم لوگوں نے کورک کی پہاڑیوں میں کیمپنگ کی۔ لمرک کے اطراف میں سائکلنگ کی، خوبصورت کاؤنٹی کلیر میں گھومے۔ شراب خانوں میں بیٹھ کر اچھا وقت گزارا، آئرش میوزک کے دھن پر ناچے، جھومے اور گائے تھے۔

لزڈن ورنا کا میلہ، بہت مزا آیا تھا وہاں پر۔ ہرسال لزڈن ورنا جو ایک چھوٹا سا شہر ہے وہاں ایک میلہ ہوتا ہے جسے شادی کا میلہ کہا جاتا ہے۔ کنوارے لوگ وہاں جمع ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ رشتے لگتے ہیں پھر شادیاں ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ امریکہ سے بہت سارے آئرش امریکن لڑکے لڑکیاں اسی میلے میں آتے ہیں تاکہ آئرلینڈ میں ان کا رشتہ ہوسکے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments