پرویز رشید، شیخ رشید اور جمہوریہ کا عروج و زوال


\"wajahat1\"پرویز رشید کو وفاقی وزیر اطلاعات کے عہدے سے الگ کر دیا گیا ہے۔ شیخ رشید جمعہ کے روز راولپنڈی میں جلسہ کرنا چاہتے تھے۔ بڑے اجتماع کے امکانات موہوم تھے، عمران خان بنی گالا سے برآمد نہیں ہوئے۔ شیخ رشید ایک موٹر سائکل پر سوار کمیٹی چوک میں نمودار ہوئے۔ یک عددی ہجوم کے سامنے مختصر خطاب کیا اور ڈاک گاڑی کی چال چلتے گلیوں میں روپوش ہوگئے۔ عین اس وقت اسلام آباد کے ہاکی گراونڈ میں ایک کالعدم تنظیم کا جلسہ پورے تزک و احتشام کے ساتھ جاری تھا۔ گلاب کی پتیاں خوشبودار تھیں اور حلق کے آخری کناروں سے برآمد ہونے والے نعرے ناقابل اشاعت تھے۔ تصویر کے یہ سب حصے کسی نہ کسی خبر سے ملتے ہیں۔ سیاسی عمل مفلوج ہوجائے تو اقتدار کی لڑائی میڈیا کے سہارے آگے بڑھائی جاتی ہے۔ سراج اورنگ آبادی نے کہا تھا، خبر تحیر عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی، نہ تو تو رہا، نہ تو میں رہا، جو رہی سو بے خبری رہی!

خبر اور بے خبری کے درمیان کی منزلیں زوال جاں کا فسانہ ہیں۔ خبر تک رسائی اور خبر کا بیان جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ غیر جمہوری ذہن خبر سے خوف زدہ ہوتا ہے۔ خبر کی قدر پیمائی کے لئے قومی سلامتی اور قومی مفاد کی پرچھائیاں کھڑی کی جاتی ہیں اور پھر ان خیموں میں عربی بدو کا اونٹ چلا آتا ہے۔ پڑھنے والوں کو مئی 1949 میں سول ملٹری گزٹ کی وہ خبر یاد ہوگی جسے بنیاد بنا کر سولہ روزناموں میں ایک مشترکہ اداریہ شائع کیا تھا۔ اور پھر 13 مئی 1949 کو سول اینڈ ملٹری گزٹ کو چھ مہینے کے لئے بند کر دیا گیا تھا۔ راولپنڈی سازش کیس کا اکھوا اس خبر سے پھوٹا۔ پاکستان کے رہنے والوں کو پہلی بار خبر ملی کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے خطے پر ریاستی تنازع پاکستان کے داخلی اقتدار کا ہتھیار بن چکا ہے۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی 1992 میں انگریزی روزنامہ نیوز کی مدیر تھیں۔ ایک خبر کی اشاعت پر مدیر کو غداری کے مقدمے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اکتوبر 2011 تو ابھی کل کی بات ہے۔ایک غیر ملکی اخبار میں بے نام و نشاں صحافی کی خبر نے حسین حقانی کی صورت میں ہمیں ایک غدار عطا کیا تھا۔ اپریل 2014 میں ذرائع ابلاغ کے اکھاڑے میں جو رن پڑا، اس کے پس پشت بھی ایک یا دو چھوٹی چھوٹی خبریں کارفرما تھیں۔ کئی مہینے قبل پانامہ لیکس غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں سامنے آئیں۔ کچھ اٹھا پٹخ ہوئی کے بعد سطح آب ہموار \"pervaizہوگئی۔ ہمارے ملک میں پانامہ لیکس کا مردہ صحن میں رکھا ہے۔ ان انکشافات کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ بیرون ملک سرمایہ کاری جرم نہیں۔ بیرون ملک کاروباری کمپنیوں کی ملکیت تو سیاسی خط تقسیم کے دونوں طرف پائی گئی ہے۔ ہم لیکن وزیراعظم کا سر مانگتے ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں پانامہ کے انکشافات شفاف سیاسی عمل کا حصہ تھے۔ ہم مگر سیاسی عمل کو ذاتی خواہشات کے غیر شفاف آئینے میں دیکھنا چاہتے ہیں اور۔۔۔ خبر سے شفافیت کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اشتراکی نمونے کی ریاست زیادہ پرانی بات نہیں۔ اشتراکی ریاست معیشت سے بھی کہیں زیادہ مداخلت خبر میں کرتی تھی۔ ادبی کتابیں بھی سنسر کی جاتی تھیں۔ سولزے نتسن بھی جلاوطن تھا اور میلان کنڈیرا بھی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نظریاتی ریاست خبر میں قومی مفاد کے تعین پر اجارہ مانگتی ہے۔ کچھ کالعدم تنظیموں کے بارے میں خبر کی بنیاد پر اسلام آباد کے ایوان لرزہ براندام ہیں، اور کالعدم تنظیمیں دارالحکومت ہی میں جلسہ کر رہی ہیں۔ تو کیوں نہ سمجھا جائے کہ کہیں نہ کہیں کوئی ہے جو مذہبی سیاست کو اثاثہ سمجھتا ہے۔ مذہبی سیاست جمہور کے حق حکمرانی سے انکار کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی پر عدم اعتماد کرنے والے بھی جمہور کے حق حکمرانی سے خائف ہوتے ہیں۔ معاملہ قومی سلامتی سے وفاداری کا نہیں۔ معراج محمد خان نے قومی مفاد کے نام پر ہی جیلیں کاٹی تھیں۔ پرویز رشید ایوب حکومت کے خلاف بھی سڑکوں پر تھے، ضیاء الحق کے گیارہ برس میں بھی معتوب تھے اور پرویز مشرف کا رحمدل عرصہ اقتدار تو ابھی کل کی بات ہے۔ معراج محمد خان اور پرویز رشید کا حقیقی جرم یہ ہے کہ یہ آئین کی کتاب اور ووٹ کے ٹکڑے کی روشنی میں سیاست کرنے والے لوگ ہیں۔ دوسری طرف شیخ رشید ہیں جو 1985 سے 1999 تک نواز شریف کے سپاہی تھے، پھر \"sheikh-rasheed\"پرویز مشرف کے ہم رکاب تھے۔ اور اب کرپشن کے سخت مخالف ہیں۔ دیکھئے قوموں کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ معیشت اور معاشرت کے بدلتے ہوئے زاویوں کو سمجھ کر ریاستی موقف کو نئے حالات سے مطابقت دی جائے۔ امریکہ کی خانہ جنگی اس تبدیلی کا اعلان تھی کہ انسانوں کو غلام بنا کر معیشت چلانے کا عہد ختم ہوگیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد عورتوں کے حق رائے دہی کو جمہوری تصویر کا حصہ بنانا بہت بڑا انقلاب تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ دار دنیا نے جان لیا کہ نو آبادیوں کا وقت گزر گیا ہے۔ درجنوں ممالک نے جمہوریہ کے طور پر آزادی حاصل کی۔ آزادی کی یہ لڑائی ان خطوں کے سیاسی رہنماؤں نے لڑی۔ ریاستی کل پرزوں نے آزادی کی لڑائی نہیں لڑی۔ کسی ایک نوآبادی نے مذہبی ریاست کے طور پر آزادی حاصل نہیں کی۔ آزادی ملنے کے بعد نو آزاد ممالک نے جمہوریہ کو اسمائے صفت سے مزین کرنا شروع کیا۔ کہیں جمہوریہ عوامی ہوگئی تو کہیں جمہوریہ کو امارات کا نام دیا گیا۔ قومی ریاست کو متعین جغرافیے اور مساوی شہریت کے اصولوں سے مفر نہیں۔ جمہوریت سے انحراف کر کے قومی ریاست کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ یہی وہ خبر ہے جسے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الطاف گوہر کے چند غیر متعلقہ اشعار پیش خدمت ہیں۔ واللہ پرویز رشید کی طرف اشارہ مقصود نہیں

خیال یار گیا، انتظار یار گیا

گیا وہ یار گیا، مدتوں کا پیار گیا

وہ جس کے حسن میں شوخی تھی موج دریا کی

مچلتی، ناچتی موجوں سے ہم کنار گیا

وہ تند خو، وہ مرا دلربا، ستم آرا

مرا قرار، مرا دشمن قرار گیا

اب ان سے تذکرہ ہجر یار کیا کیجئے

نہ جن کا یار گیا ہے، نہ جن کا پیار گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments