آخر وہ حسن ہی کیا جس کی تعریف نا ہو


\"mohsin-shahbaz\"لڑکپن کے اوائل میں ہمارے اکثر شب و روز جامعہ کراچی کے شعبہ فارمیسی میں بیتا کرتے۔ یہ وہ وقت تھا جب وقت تھم تھم کر گزرا کرتا ، اکثر اوقات تو اس وقت کے ساتھ ہماری سانسیں تک تھم جایا کرتیں اور اندیشہ ہماری جان کو خطرے تک کا لاحق ہوجایا کرتا۔ اکثر ہم نے شعبہ فارمیسی کی انجمن برائے حسین خواتین کو خط لکھ کر آگاہ کرنا چاہا کہ اپنا حسن سنبھالیں یا پھر ہمیں سنبھالیں،ادائوں پر ذرا سی نظرڈالیں یا پھر مجھ معصوم پر ہی نگاہ کرم فرمائیں۔ کہیں کسی روز آپ کی انجمن کی کسی حسینہ کی ادائوں کی تاب نا لاتے ہوے گر وقت تھم گیا اور ہم گزر گئے تو نا جانے حسن کے شبے میں کتنی دوشیزائوں کو گرفتار کرلیا جائے۔ لگے ہاتھوں یہ تجویز دینے کا خیال بھی من میں آیا کہ خود گرفتار ہونے سے بہتر ہے آپ تمام خواتین آپس میں مشورہ کرکے اک مقابلہ حسن برپا کرلیں اور جس حور کے سر پر تاج سجے ہمیں اس کی تحویل میں دے دیں۔ ہم نے کئی خطوط لکھے، بلکہ اکثر لڑکوں کو تو لکھ کر بھی دیے لیکن خود کبھی ایسا کوئی خط ارسال کرنے کی ہمت نا ہوئی کہ اگر الفاظ کے ذریعے اظہار میں کچھ کمی پیشی رہ گئی تو معاملہ بگڑ بھی سکتا ہے لہذا ہمیشہ خود بنفس نفیس حاضر ہوکر جذبات کا بھرپور اظہار کیا۔ بھلا وہ حسن ہی کیا جس کی تعریف نہ ہو۔

تاہم حسن کی اس تعریف میں ہمیشہ جمعیت کے اہلکار دیوار بن جاتے، نا جانے کیوں؟ کبھی ہم پر آنسو گیس سے شیلنگ کردی جاتی تو کبھی حسینائوں کو نظر بند کردینے کی ناکام کاوش کی جاتی۔ ہمارا کسی خاتون کے ساتھ محض بات کرنا ہی ان خود ساختہ غیرت کے محافظوں کو انتہائی تشویشناک گزرتا۔ کئی مرتبہ ہمیں پیار تو کئی مرتبہ سختی سے سمجھایا گیا۔ جب ہم ان سے بھی زیادہ ڈھیٹ ثابت ہوے تو ہمیں کافر، بے غیرت، وغیرہ وغیرہ قرار دیدیا گیا۔

 \"karachi-university-images-5\"

مزے کی بات تو یہ ہے کہ آج تک کسی خاتون کو نا ہم نے شکایت کا موقع دیا، نہ ہی کبھی کسی نے شکایت کی۔ کسی کی عزت پر حرف ہماری جانب سے کیا آنا تھی اکثر محض لڑکیوں کے ساتھ بیٹھنے پر نا صرف لڑکوں کی خوب پٹائی کی گئی بلکہ لڑکیوں کو بھی خوب ہراساں کیا گیا۔ اکثر جامعات میں انجانے ملتے ہیں، نظریں ٹکراتی ہیں، دیوانے ملتے ہیں اور افسانے بن جاتے ہیں۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں یہ دیوانے درسگاہوں سے امتیازی اعداد میں نا صرف کامیاب بھی ہوجاتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اچھا مستقبل بھی گزارتے ہیں۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے، جو ریاست سرکاری جامعات میں مذہبی انتہا پسندی نہیں روک سکتی، جو سرکار اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لگی یہ متوازی عدالتیں نہیں روک سکتی، جی ہاں عدالتیں! جو کہ مقدمہ سازی بھی کرتی ہیں، مقدمہ کی سنوائی بھی کرتی ہیں، اور سزائیں بھی مقرر کرتی ہیں۔ جو ریاست اپنی جامعات سے گھٹن ختم نہیں کرسکتی وہ ریاست خودکش دھماکے کیوں اور کیسے روک سکتی ہے؟

آپ کسی بھی غیر سرکاری درسگاہ میں چلے جائیں، آپ وہاں آزادی سے سوال بھی اٹھا سکتے ہیں۔ جو چاہیں زیب تن بھی کرسکتے ہیں، جہاں چاہیں جس کے ساتھ جاہیں بیٹھ بھی سکتے ہیں گھوم بھی سکتے ہیں اور پڑھ بھی سکتے ہیں۔ لیکن جامعہ کراچی میں جمعیت کے باعث ایسا ممکن نہیں۔ ہر گز نہیں۔ جب تک آپ یہاں ہیں آپ کو ڈر کر دب کر زندگی گزارنا ہوگی۔

 \"images\"

اگر دنیا بھر سے لڑکیاں ایک چائے والے کے حسن کی تعریف کرسکتی ہیں، تو ہم مرد حسینائوں کے حسن میں ڈوبے چند تعریفی کلمات یا اشعار کیوں نہیں کہہ سکتے؟ آخر وہ حسن ہی کیا جسکی تعریف نا ہو!

واضح رہے میں نا صرف خواتین و حضرات کا احترام کرتا ہوں بلکہ ان کی چاہت، ان کی رائے اور ان کی مرضی کا بھی احترام کرتا ہوں۔ کسی پر اپنی سوچ یا مذہب کو مسلط نہیں کرتا۔ جامعات میں ہم سب پڑھنے اور علم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ایسے میں ڈگری کے ساتھ ایک عدد محبت بھی حاصل کرلی جائے، افسانے پڑھتے پڑھتے اپنا بھی ایک افسانہ لکھ لیا جائے تو اس میں مجھے یا آپ کو کوئی اعتراض کیوں ہونا چاہیے؟ آخر دو لوگ بالغ ہیں،اپنی مرضی کے مالک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments