جنرل جذباتی نہیں ہوتے


\"12121\"نو برس پہلے کچھ ایسا ہی موسم تھا۔ یہی نومبر کا مہینہ تھا اور دھوپ بہت پھیکی تھی۔  یہ مہنیہ ایمرجنسی کے نفاذ سے شروع ہوا اور 27 نومبر کی شام جنرل پرویز مشرف نے وردی اتار دی جسے وہ اپنی کھال کہتے تھے۔ نئے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو کمان کی چھڑی سونپتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں میں واضح لرزش تھی۔ حالات ایسے تھے کہ سیاست دانوں کی ناک میں نادیدہ سوزش کی خبر رکھنے والے اخبار نویسوں نے بھی جنرل پرویز مشرف کے کانپتے ہاتھوں اور لرزیدہ چال کی نشان دہی نہیں کی۔

اگر چہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جنرل پرویز مشرف گاہے وردی اور گاہے سویلین لباس میں نظر آتے رہتے تھے مگر جاننے والوں کو معلوم تھا کہ پرویز مشرف کی وردی محض لباس کے شخصی انتخاب کا معاملہ نہیں۔ وردی کے اس قصے میں مضمر سیاسی اور آئینی پہلوؤں سے قطعِ نظر اس بحث کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ طاقت کی سیاست کے کھیل میں وردی ایک زبردست استعارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر سنہ 2000 میں امریکی صدر بل کلنٹن پاکستان آئے تو اس بات کا خاصا چرچا رہا کہ امریکی صدر سے ملاقات میں جنرل پرویز مشرف نے کوٹ پتلون زیب تن کر رکھا تھا۔ سنہ 2004 میں ڈاکٹر قدیر خاں سے اس تاریخی ملاقات کے دوران جنرل پرویز مشرف فوجی وردی میں ملبوس تھے، جس کے بعد ڈاکٹر قدیر نے ٹیلی ویژن پر قوم سے معافی مانگی تھی۔ نو مارچ 2007 کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ ملاقات کے بعد اس امر پر خاصی لے دے ہوتی رہی کہ کیمپ آفس پنڈی میں ہونے والی اس ملاقات میں جنرل پرویز مشرف نے وردی کیوں پہن رکھی تھی۔\"01\"

قصہ یہ ہے کہ فوجی اقتدار ڈنڈے کا کھیل ہے اور فوجی وردی ڈنڈے کا لباسِ مجازہے۔ پاکستان میں چار فوجی سربراہ کل ملا کر 33 برس تک حکومت کر چکے ہیں۔ آزادی کے بعد ساٹھ برس میں دو دفعہ ایسا موقع پیش آیا کہ فوجی حکمران نے دورانِ اقتدار وردی کو خیر باد کہا۔ پہلا موقع ٹھیک 57 برس پہلے تب پیش آیا تھا جب ایوب خاں نے از خود فیلڈ مارشل کا رسمی عہدہ سنبھال کر فوج کی کمان جنرل موسٰی خاں کے سپرد کی تھی۔ ایوب خاں کا ستارہ عروج پر تھا اور موسٰی خاں مزاجاً عقب نشین واقع ہوئے تھے۔ یوں بھی یہ روایت ابھی پختہ نہیں ہوئی تھی کہ فوج کے ہر سربراہ کو ملک کا آئندہ رہنما تصور کیا جائے۔

تاہم آٹھ برس بعد 1966 میں یحییٰ خاں نے موسیٰ خاں کی جگہ لی تو جلد ہی واضح ہو گیا کہ یحییٰ خاں کے عزائم مختلف تھے۔ 1967 کے اوائل میں ایوب خاں کو دل کا معمولی دورہ پڑا تو یحییٰ خاں نے انہیں باقاعدہ یرغمال بنالیا۔ انہیں کسی وزیر، افسر حتیٰ کہ اپنے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی اجازت نہیں تھی۔ مقصد اس مشق کا یہ تھا کہ اگر ایوب خاں خالق حقیقی سے جا ملیں تو آئینی طور پر سپیکر قومی اسمبلی کو اقتدار سونپنے کے بجائے یحییٰ خاں براہِ راست اقتدار سنبھال سکیں۔ ایوب خاں بیماری سے تو جانبر ہو گئے لیکن دو ہفتوں کی اس قید سے اقتدار پر ان کی گرفت جاتی رہی۔

1969  کے ابتدائی مہینوں میں ایوب خاں نے یحییٰ خاں سے حکومت مخالف تحریک پر قابو پانے کے لئے جزوی مارشل لا کی درخواست کی جو یحییٰ خاں نے ترنت ٹھکرا دی۔ مارچ 1969 کی ایک روپہلی صبح یحیٰی خاں نے ایوب کے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنا چاہا۔ ایوب خاں نے دس برس پہلے سکندر مرزا کو ڈنڈا ڈولی کیا تھا۔ ان اشاروں کا مطلب خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا دروازہ بند کرنے کی کیا ضرورت ہے، جو تم چاہتے ہو، وہی ہو گا۔ یہ واقعہ \"02\"ملک کی اس ان لکھی روایت کا باقاعدہ اعلان تھا کہ صدر پاکستان بھلے فوج کا سابق سربراہ ہی کیوں نہ ہو، پاکستان پر اصل حکمران وہ ہوگا، جس کی کمان میں فوج کا کپتان ہوگا۔ فوج کے شیر پر سوار ہو کر اقتدار میں پہنچنے والا شیر سے اترنے کی کوشش کرے گا تو شیر کا اگلا سوار اسے ہڑپ کر جائے گا۔

یحییٰ خاں اور ضیا الحق نے یہ سبق سیکھ لیا تھا، دونوں جب تک اقتدار میں رہے انہوں نے وردی اتارنے کا نام نہیں لیا۔ بھلے مشرقی پاکستان کی کشتی ڈوب جائے یا بستی لال کمال کی فضا میں سی 130 پھٹ جائے۔ 29 مئی 1988 کو وزیراعظم محمد خاں جونیجو برطرف کیے گیے تو ان پر بنیادی الزام یہ تھا کہ وہ ”وردی اتارو“ مہم کی پس پردہ پشت پناہی کر رہے تھے۔ ادھر سیاستدانوں نے بھی یہ سبق سیکھ لیا کہ فوجی حکمران کو اس وقت تک اقتدار سے نکالنا ممکن نہیں جب تک وہ فوج کا سربراہ ہے۔ سو پہلے مرحلے میں اس کی وردی اتروا کر اسے دانتوں سے محروم کیا جائے تاکہ اسے سیاسی طور پر پچھاڑنے کا امکان پیدا ہو سکے۔ بھلے اس ضمن میں فوج کے نئے سربراہ کے عزائم ہی کو تھپکی کیوں نہ دینی پڑے۔

جنرل پرویز مشرف تک آتے آتے جہاں فوجی حکمرانی کی روایت نے پختگی اختیار کر لی تھی، وہاں فوجی حکمران کی اندھی طاقت سے نمٹنے کے طور طریقوں میں بھی نفاست آئی۔ پرویز مشرف کے اقتدار کی ابتدا ہی سے وردی اتارنے کے مطالبے کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔ اپریل 2002 کا ریفرنڈم ہو یا 17ویں آئینی ترمیم، دسمبر 2004 میں قبائلی شورش کی آڑ میں وردی اتارنے کے وعدے سے انحراف ہو یا عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواستوں کے ذریعے وردی سے چھٹکارا پانے کی کوشش یا پھر 3 نومبر کا وہ عبوری آئینی حکم، جس کی طرف صدر مشرف نے بہت پہلے یہ کہہ کر اشارہ دیا تھا کہ آخری مکا میں ہی رسید کروں گا۔ یہ سب وردی ہی کے شاخسانے تھے۔ سب کرشمے تھے باغ میں گل کے۔\"03\"

نو برس پہلے 2007 میں کچھ ایسا ہی موسم تھا۔ اور پھر تین برس پہلے 2013 میں ایسا ہی پت جھڑ کا سمے تھا۔ 2016 کا نومبر شروع ہو چکا۔ احمد مشتاق نے لکھا تھا

موسموں کا کوئی محرم ہو تو پوچھوں اس سے

کتنے پت جھڑ ابھی باقی ہیں بہار آنے میں

اور احمد مشتاق ہی کا ہم صفیر ناصر کاظمی تھا جس نے لکھا تھا

ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصر

چمن میں کس قدر پتے جھڑے ہیں

\"Pakistan\'sمگر یہ سب تو نام نہاد دانش وروں کے قصے ہیں۔ انقلاب لانے والے اپنے رہنماؤں کے اشارے سمجھتے ہیں اور سالاروں کا مزاج جانتے ہیں۔ اسی سے ایک پرانا قصہ یاد آ گیا۔ 1959  کی ایک شام صدر ایوب نے فوج کی کمان جنرل موسیٰ کے سپرد کی تو الوداعی تقریر میں ان کی آواز بھرا گئی۔ ایک اردو اخبار نے یہ خبر دیتے ہوئے لکھا کہ صدر ایوب فوج سے 30 سالہ وابستگی کو خیر باد کہتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔ اس پر بڑا طوفان اٹھا۔ ایک وردی پوش کرنل نے اخبار کے مدیر کی میز پر ڈنڈا بجاتے ہوئے دھمکیاں دیں۔ مو ¿دبانہ گزارش کی گئی کہ اس خبر میں ہونے والی غلطی کی نشاندہی کی جائے۔ کرنل صاحب نے فرمایا ’جنرل جذباتی نہیں ہوتے۔ ‘ واقعی جنرل جذباتی نہیں ہوتے لیکن وردی اتارنے والا ایوب خاں ہو یا پرویز مشرف، جنرل نہیں رہتا، سابق جنرل ہو جاتا ہے۔ اسی لئے الوداعی تقریروں میں جذبات راہ پا جاتے ہیں۔ جسے اپنے ہاتھوں سے فوج کا ڈنڈا سونپا جاتا ہے، وہ فوج کا نیا جنرل ہوتا ہے اور وہ جذباتی نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments