جوزف گوئبلز اور سرمایہ داری کے حامی


\"mujahidجوزف گوئبلز جرمن نازی پارٹی کا بہت اہم رکن تھا جو1933میں اڈولف ہٹلر کا پراپیگنڈا وزیر مقرر ہوا۔ ہٹلر کو جوزف گوئبلز بہت پسند تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ گوئبلز کے پاس ایک شاندار فن تھا اور وہ فن تھا پراپیگنڈا کا۔ گوئیبلز اپنے پراپیگنڈے سے جرمن فوج کا حوصلہ بلند کرنے اور دشمن کی فوج کا حوصلہ پست کرنے کا فن جانتا تھایہ الگ بات ہے کہ بعد میں یہ فن بھی کسی کام نہ آیا اور1945 میں نازی فوج کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ جوزف گوئبلز کے ویسے تو بہت سارے مقولے مشہور ہیں مگر ایک مقولہ سب سے زیادہ مشہور ہے کہ’جھوٹ اگر ہزار مرتبہ بولا جائے تو وہ سچ بن جاتا ہے‘ ۔ چند روز قبل ایک دوست کا آرٹیکل پڑھنے کا اتفاق ہوا جنہوں نے اپنے آرٹیکل کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی کہ سرمایہ داری نے انسان کو ترقی کی معراج پر لا کھڑا کیا ہے۔ثبوت کے طور پر میرے دوست نے ایک صدی قبل کے اور اب کے اعدادوشمار پیش کیے جن میں واقع زمین آسمان کا فرق تھا مگر انہوں نے بالکل جوزف جوزف گوئبلز کی فنی مہارت استعمال کرتے ہوئے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کیا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ایک صدی قبل ذرائع پیداوار اس قابل نہیں تھے کہ وہ ساری دنیا کی خوراک کی ضرورت کو پورا کر سکیں مگر آج صرف نیسلے کی کمپنی سات ارب انسانوں کو خوراک مہیا کر سکتی ہے لیکن پھر بھی ہزاروں لوگ بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر موت کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایک صدی قبل ڈاکٹروں اور ادویات کی تعداد اتنی نہیں تھی کہ ساری دنیا کے لوگوں کو صحت کی سہولت دی جاسکتی لیکن آج میڈیکل سٹور ادویات سے بھرے پڑے ہیں لیکن لوگ قابل علاج بیماریوں کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ملیریا، طاعون اور چیچک جیسی بیماریاں بہت عرصہ قبل ختم ہوچکی تھیںجو آج پھر بہت سے بچوں کی موت کی سبب بن رہی ہیں۔
60،70یا 80کی دہائی میں اگر کوئی سرمایہ داری کی حمایت کرتاتھا تو بات سمجھ میں آتی تھی مگر آج جب کوئی سرمایہ داری کی حمایت کرتا ہے تو تعجب ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ اس وقت سرمایہ داری کے کسی بھی سنجیدہ جریدے کو اٹھا کر دیکھ لیںوہ فائنینشل ٹائمز ہو، اکانومسٹ ہو یا وال سٹریٹ جرنل سب کے سب یہی پکار رہے ہیں۔” ریکوری نہیں ہو رہی“ ، ” شدید مندی ہے “،” عالمی معیشت میں استحکام اگلے دس سال تک بھی ممکن نہیں“ وغیرہ وغیرہ۔ مگر ہمارے دوست سرمایہ داری کے اتنے سخت حامی ہیں کہ خدا کی پناہ ۔یعنی مدعی سست اور گواہ چست۔
ویسے اگر سرمایہ داری کی دو ڈھائی سو سال کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیا جائے تو جہاں ہمیںایک طرف سائنس اور ٹیکنالوجی کی بے پناہ ترقی نظر آتی ہے تو دوسری طرف عالمی جنگوں سے کروڑوں معصوم لوگوں کا قتل عام بھی نظر آتا ہے۔جہاں ایک طرف پیداوار کی بہتات نظر آتی ہے تو دوسری طرف قلت اور محرومی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بھی نظر آتا ہے۔ایک طرف عیش و عشرت کا سامان نظر آتا ہے تو دوسری طرف دکھ،تکالیف اور اذیتیں بھی نظر آتی ہیں۔سرمایہ داری کو صرف ایک آنکھ سے دیکھنے والوںکو سب ٹھیک نظر آتا ہے مگر حقیقت اس کے بالکل متضاد ہے۔کچھ دوست یہ بھی گلہ کرتے پائے جاتے ہیں کہ سوشلسٹوں کو سرمایہ داری کی بے جا مخالفت کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ ایسا نہیں ہے ، جب سرمایہ داری کا ظہور ہوا تو اس وقت سرمایہ داری ایک ترقی پسندانہ کردارادا کر رہی تھی۔ سرمایہ داری نے جاگیرداری کا خاتمہ کیا، مذہب کو ریاست سے علیحدہ کیا،بہت بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کیا اور انفراسٹرکچر تعمیر کیا ۔ لیکن آج سرمایہ داری سماج کی ترقی میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ زر کے نظام سے پیدا ہونے والی مقابلہ بازی اور اندھی ہوس کی وجہ سے نہ صرف انسان، جانور، نباتات بلکہ اس سیارے کو بھی خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ اس بات کی نشاندہی میں نہیں کر رہا بلکہ مشہور زمانہ برطانوی سائنسدان پروفیسر سٹیفن ہاکنگ صاحب فرما رہے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ کے مطابق انسانیت کو انسان کی اپنی تخلیقا ت کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہے۔ جن خطرات کی انہوں نے نشاندہی کی ہے ان میں ایٹمی جنگ، ماحولیاتی تپش اور جینیاتی طور پر تخلیق کردہ وائرس شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مزیدترقی سے ایسے نئے طریقے ایجاد ہوں گے جن سے چیزیں غلط سمت میں جا سکتی ہیں۔ انسانیت اس صورت میں زندہ رہے گی اگر فرض کر لیا جائے کہ وہ بالآخر دیگر سیاروں پرنو آبادیا قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ آج سرمایہ داری اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ ترقی پسندانہ کردار جو اس نے اپنے آغاز میں ادا کیا تھا آج بالکل تبدیل ہو چکاہے۔ آج سرمایہ دار کو صرف منافع اور شرح منافع کی فکر ہے اس کے لیے اسے جاگیرداروں یا مذہبی بنیاد پرستوں کو ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے۔ ایک دور تھا جب سرمایہ داری نے بہت بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کیا تھا آج بہت بڑے پیمانے پر بے روزگاری پیدا کی جارہی ہے۔ ایک دور میں انفراسٹرکچر تعمیر کیا گیا تھا آج اس انفراسٹرکچر کو تباہ کیا جارہا ہے۔
لینن نے کہا تھا کہ سرمایہ داری میں آزادی کا مفہوم بالکل ویسا ہوتا ہے جیسا قدیم یونان میں تھا یعنی غلاموں کے مالکان کے لئے آزادی۔ آج اگر آزاد ہیں تو صرف سرمایہ دار یہاں تک کہ ان کے حامی بھی آزاد نہیں ۔ آج سرمایہ داری نے انسان کو ترقی کی معراج پر نہیں بلکہ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جس کے سامنے صرف دو ہی راستے بچے ہیں ، سوشل ازم یا بربریت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments