عمران خان آخر چاہتے کیا ہیں؟


عمران خان صاحب ایک نابغہ روزگار شخصیت ہیں۔ بنیادی طور کھلاڑی ہیں اس لئے پرجوش ہیں۔ قوم کے فرزندان خوابیدہ کو امید دلاتے رہتے ہیں کہ وطن عزیز میں \"zafarullah-khan-3\"موجود ناانصافیوں کو بیک جنبش قلم ختم کرنے کا گر ان کی زنبیل میں موجود ہے۔مشکل بس یہ ہے کہ ان کے ساتھ انتخابات میں دھاندلی کی گئی وگرنہ بقول شخصے ملک میں شہد(ازراہ کرم شہد کو شہد ہی سمجھا جائے) کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔سیاست کے گلیاروں کا درک رکھنے والے سینہ چاکان چمن تو جانتے ہیں کہ سیاست میں خوابوں کا بیوپار کیا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس کھیل میں پیادے کیسے کھیت رہتے ہیں اور شاہ میدان میں کہاں کھڑے ہو کر منزل مارتا ہے۔ مشکل مگر یہ ہے کہ سیاست کے بیوپار میں آنے والی نئی پیڑی اس بات سے نابلد نظر آتی ہے کہ نظریاتی سیاست کے ڈانڈوں نے کہاں جنم لیا اور یہ کہ وطن عزیز میں سیاسی نابغوں کو کب کب اور کہاں کہاں ’اصلی جمہوریت‘ کے نام پر آمریت کی چھتری تلے پروان چڑھایا گیا۔ نظریے کی سیاست موجود ہے یا نہیں؟ نظریے کی سیاست سماج کے ارتقا سے انحراف ہے یا نہیں، یہ بحث کو پھر کبھی پر اٹھا رکھتے ہیں۔ البتہ میمو گیٹ سے لے کر سرل گیٹ تک یہ بات واضح ہے کہ جمہوریت کے بلاتعطل تسلسل میں ابھی کئی پڑاﺅ درپیش ہیں۔ اس موضوع پر بھی بات ہوتی رہے گی۔ سر دست معاملہ یہ درپیش ہے کہ عمران خان اور ان کے خوشہ چیں ہمیں بتاتے رہتے ہیں کہ احتجاج کی جو سیاست وہ کر رہے ہیں دراصل یہ عوام کی چاہت ہے۔ اس پس منظر میں بحث طلب موضوع یہ ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟

 عوام کی چاہت سے پہلے شاید ضروری ہے کہ اس بات پر بحث کی جائے کہ’ موعودہ عوام ‘ اپنی سیاسی رائے کے لئے کس چیز پر انحصار کر تے ہیں۔وطن عزیز میں چونکہ سیاسی تجزیہ اخباری خبروں اور ٹی وی ٹاک شوز کی بنیادپر کیا جاتا ہے اس لئے یہ تجزیات اکثر و بیشتر شکارپوری اچار جیسے بارہ مسالے کا سا چٹخارے دار سواد دیتے ہیں۔اخبار میں خبر کیسے چھپتی ہے اور ٹی وی ٹاک شو میں اینکر کیا کہتا ہے ، یہ ایک پوری داستان ہے۔صحافت کے اساتذہ بتاتے ہیں کہ ایک اچھا رپورٹر بننے کے لئے کم و بیش دس سے بارہ سال درکار ہوتے ہیں۔ ادھر صورت حال یہ ہے کہ میڈیا ئی انقلاب کے ساتھ بے شمار ٹی وی چینلز اور اخبارات کی بہتات ہو گئی اس لئے جس رپورٹر کا تجربہ دس بارہ سال کا تھا وہ تجزیہ نگار، اینکر، کالم نگار، ایڈیٹر وغیرہ میں تبدیل ہو گئے اور جو دو تین سال کے تجربے حامل رپورٹر تھے وہ سینیئر صحافی اور نمائندہ خصوصی میں تبدیل ہو گئے۔یوں خبر کی حقیقت یا خبرکھوج سے زیادہ اس کا پرکشش ہونا زیادہ لازم سمجھا گیا۔اس پر تو شاید بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک آدھ استثنا ءکے ساتھ اخباری مالکان صحافت کو خدمت سے زیادہ کاروبار کی نظر سے دیکھتے ہیں اس لئے اشتہار کی بھوک نے خبر کی موت واقع کر دی۔ اب خبر کی کھوج، خبر کی حقیقت، خبر کے تمام پہلوﺅں کو پیش کرنے کی بجائے سب سے پہلے خبر دینے کی ریس شروع ہو گئی جس نے رپورٹنگ کا گلا گھونٹ دیا۔ خبر کے لئے اب رپورٹر نصابی اصول کی بجائے گوگل سرچ پر انحصار کرنے لگا۔ اور یوں بریگنگ نیوز، چٹخارے دار خبر اوراشتہا انگیز سرخی سے خبر کا ست رنگا اچار سامنے آنے لگا۔ اس ست رنگے اچار کا نقصان یہ ہوا کہ خبر اب خبر نہیں رہی۔خبر کی ایک شکل سیاسی بیان کی سی ہو گئی ہے اور اس کی دوسری شکل Angled Newsیا Planted Newsکی ہوتی ہے۔

دوسری طرف ٹی وی ٹاک شور کی حالت بھی کم و بیش یہی ہے۔ مالک کو TRPsدرکار ہوتی ہیں۔ اینکر نے کو شو مقبول بنانا ہوتا ہے۔ یوں تجزیئے کی بجائے زیادہ سے زیادہ اشتعال انگیزی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایک طرف ٹی وی کا مالک ہے جس کو بزنس درکار ہے۔ دوسری طرف حکومت ہے جس کو اپنی امیج بلڈنگ کی فکر ہوتی ہے۔ تیسری طرف کچھ ادارے ہیں جن کے اپنے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں۔ اس پورے پس منظر میں بیس، پچیس اینکرز ہیں جو ایٹمی تابکاری سے لے کر خشک سالی تک، عالمی امور سے لے کر ملکی سلامتی اور سیاسی تجزیہ کاری میں ید طولی رکھتے ہیں۔ اس افلاطونیت کے ساتھ ساتھ اب تجزیہ حقائق کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ اپنے تعلق (affiliation)کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ ٹی وی پر کوئی ٹاک شو شروع ہونے سے پہلے تعین کے ساتھ بتایا جا سکتا ہے کہ فلاں پروگرام میں فلاں فلاں تجزیہ نگار حکومت کو چور ، لٹیرا اور حتی کہ گالی دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔ فلاں فلاں صاحب حکومت وقت کے قصیدے گائے گا۔ فلاں فلاں صاحب عسکری اداروں کے امیج بلڈنگ کی راگنی چھیڑے گا۔اس منظرنامے میں جہاں خبر اور تجزیہ کی عملی موت واقع ہو گئی ہے وہاں اس مردہ خبر اور تجزیہ سے بننے والی رائے عامہ کی صورت حال کیا ہو گی؟ بدقسمتی یہ ہے کہ اس تجزیاتی چشمے سے سیراب ہونے والی رائے عامہ کی سیاسی دلیل جذبات سے بھری ہوتی ہے۔ سماج کی نامیاتی ارتقا ءاور سماج میں موجود پستی کو بیک جنبش قلم ختم کرنے کی امیدیں ہوتی ہیں۔ اقتدار ہاتھ نہ آنے پر ملک کے اداروں اورموجودہ سیاسی طبقات پر بددیانتی کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ اور آخری تان ’ پٹواری، چور، مسٹر ٹین پرسنٹ، ڈیزل اور ایزی لوڈ‘ جیسی قبیح اصطلاحات پر ٹوٹتی ہے۔

 ادھرملک میں شرح خواندگی سرکاری دعوﺅں کے مطابق تو ساٹھ فیصد ہے جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ دس سے بارہ کروڑ لوگ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ ملک میں رجسٹرڈ ووٹر کی کل تعداد 2013 کے الیکشن کے مطابق 86,132,751 تھی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 2013 میں ووٹر کا ٹرن آوٹ 52.02 فیصد رہا۔ الیکشن میں کل ووٹ پول ہونے کی تعداد 44,859,313 تھی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز نے 32.77 فیصد کے حساب کل 14,794,188 ووٹ حاصل کئے۔ تحریک انصاف نے 16.92فیصد کے حساب سے کل 7,563,504 ووٹ حاصل کئے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 15.32 فیصد کے حساب سے کل 6,822,958 ووٹ حاصل کئے۔ پاکستان کی کل آبادی کو اگر اٹھارہ کروڑ تسلیم کر لیا جائے تو تحریک انصاف کے حاصل کردہ ووٹوں کی بنیاد پر یہ کل آبادی کا 4.20 فیصد بنتا ہے۔ چار فیصد کو جب عوام کہا جانے لگے اور اس کی بنیاد پر احتجاج کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا جائے تو سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں مقصود کچھ اور تو نہیں؟ویسے بھی عمران خان صاحب الیکشن 2013 بعد قوم کو تسلسل سے بتاتے رہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی مگر اس کے ثبوت وہ پیش نہ کر سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے انتخابات میںدھاندلیاں ہوتی ہیں اور ہر جماعت حصہ بقدر جثہ کی بنیاد پر اس بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے مگر یہ کہنا کہ الیکشن کمیشن دھاندلی میں فریق تھا یا پھر عدلیہ فریق تھی قرین قیاس نہیں ہے۔صورت حال مگر یوں ہے

 کہ اس دھاندلی کی بنیاد پر چار ماہ کا طویل دھرنا دیا گیا۔ پارلیمان سے استعفوں کا شوشا چھوڑا گیا۔ کسی امپائر کو بلاوا دیا گیا، حتی کہ سول نافرمانی جیسے غیر آئینی عمل کی کال بھی دی گئی ۔ ان سب سیاسی قلابازیوں کے بعد اب پانامہ پر میدان گرم کیا گیا ہے۔ صورت حال مگر یوں ہے کہ آج ہی سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے معاملے پر تحریک انصاف کے وکیل حامد خان اعلی عدالت کو یہ بھی نہ بتا سکے کہ یہ پانامہ لیکس کس ادارے نے جاری کئے۔ اعلی عدالت کے کہنے پر کہ ’ آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں کہ وزیراعظم نے یہ جائیداد فلاں عرصہ میں خریدی گئی اور پیسہ کرپشن کا تھا‘۔ اس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ثبوت ہم کہاں سے لائیں یہ تو اداروں کا کام ہے۔ اہل مروت اگر سوال کریں کہ صاحب! خان صاحب تو تواتر سے فرما رہے تھے کہ ان کے پاس ثبوت موجود ہیں تو سیاست کی نئی پیڑی لفافہ صحافی، چور اور کرپٹ جیسے اصطلاحات سے استقبال کرتی ہے۔

عمران خان صاحب سے گزارش ہے کہ جب وہ جمہوریت کے لئے یورپ کی مثالیں دیتے ہیں تو ازراہ کرم یورپی جمہوریت میں حزب اختلاف کے کردار پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ نصابی تعریف کو چھوڑ کر اگر خان صاحب 2010میں یورپی پارلیمنٹ کے ’ وینس کمیشن‘ کی رپورٹ ’ On The Role Of The Opposition In a Democratic Parliament ‘ پر ہی ایک نظر ڈال لیں تو قوم کا بھلا ہو جائے گا۔ رپورٹ چونکہ طویل ہے اس لئے اس کے مندرجات لکھے نہیں جا سکتے ۔ البتہ اس کی تلخیص اگر دو جملوں میں کر دی جائے تو یوں بنتی ہے، ’ حزب اختلاف کی اساسی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے افعال کو آئین و قانون کے اندر رہتے ہوئے منظم اور پر امن طریقے سے انجام دیں۔ ان کا بنیادی کام پارلیمان میں حکومت کی طرف سے بنائے جانے والے قوانین اور بلوں میں اصلاح کی تجاویز ہیں۔ جزب اختلاف اور حزب اقتدار کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے طرز عمل سے باز رہیں جو ملک میں” جمہوری بحث“ کو تباہ کرنے کا باعث اور عوام کے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں پر اعتماد کو کمزور کرتا ہو‘۔ دیکھنا چاہیے گزشتہ تین برس میں خان صاحب نے پارلیمان میں کیا کردار ادا کیا اور سڑکوں پر کتنا عرصہ گزارا۔

تحریک انصاف کے کارکنوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ اگر وہ برا نہ مانیں تو جذبات کی ہانڈی کو ابال دینے کی بجائے سیاسی اقلیم کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ بات جان لینی چاہیے کہ کسی سیاسی جماعت کے کردار پر تنقید کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ تنقید کرنے والا ضمیر فروش ہوتا ہے یا کسی دوسرے جماعت کا کارکن ہوتا ہے۔ یہ بھی دست بستہ التماس ہے کہ سیاسی تجزیئے میں اعداد و شمار کے وزن کو جان کر حزب اقتدار پر تنقید کرنی چاہیے۔ ادھر تو کبھی روزانہ چار ارب روپے کی رشوت کے قصے ہیںیا اربوں روپے سوئس اور دوبئی کے بنیکوں سے برآمد ہوتے ہیں۔ یہ جان لینا چاہئے کہ ناانصافی نہ بیک جنبش قلم ختم ہوتی ہے اور نہ ہی سماج دنوں اور مہینوں میں بدلتا ہے۔ محمد حنیف نے لکھا تھا، ’ مجھے اس آدمی سے خوف آتا ہے جس زندگی میں ایک ہی کتاب پڑھی ہو اور اسی کو سچ مانتا ہو‘۔ کہنے دیجیے کہ اس آدمی سے بھی خوف کھانا چاہیے جو ایک ہی آدمی کو برحق سمجھتا ہو اور اسی کو ہی قوم کا واحد مسیحا اور ناخدا سمجھتا ہو۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments