قانون والا اور جنگل کا قانون


\"Sadia\"صحرا کی خاک چھاننے اور کچھ مزید جھک مارنے سے پہلے ہم نے اپنی زندگی کے سب سے قیمتی اور حسین سال درس و تدریس میں بتائے ہیں۔ سچ کہئے تو یہ سال بیتے ہی کبھی نہیں۔ آج بھی ذہن کے پردے پر یوں کڑھے رکھے ہیں کہ جیسے کوئی ماں بڑے ہی دلار سے اپنی بیٹی کے بچپن میں ہی اس کے جہیز کا ریشمی دوپٹے کاڑھے اور پھر ململ کے کپڑے میں لپیٹ کر صندوق میں سینت دے کہ مبادا میلا نہ ہو جائے۔ کاڑھتے ہوئے بھی بیٹی کے نیک نصیبوں کی دعا میں مگن رہے اور صندوق میں رکھتے ہوۓ اس کی ڈولی اٹھنے کے خیال سے ہی پلکیں بھگو دے۔ اتنے پیار اور سبھاؤ می گزرا وقت جاتا ہی کہاں ہے۔ بس نقش ہو کر رہ جاتا ہے، وہ بھی بڑے مان اور سمان سے، کبھی نہ جانے کو، ہمیشہ ساتھ رہنے کو۔

لگ بھگ سال سے اوپر ہوا اس دیس کی راہ سدھارے لیکن وہ وقت ہے کہ اب بھی دل پر دل پر دھرا ہے، بالکل آبنوسی میز پر بیلے اور چمبے کے گجروں کی طرح، خود بھی مہکتا اور دل کو بھی سرشار کرتا۔ لیکن وہ کیا ہے کہ یہ راحت صرف ان اساتذہ کا نصیب ٹھہری ہے کہ جنہوں نے یہ راہ کسی مجبوری نہیں بلکہ خالصتا اپنی آشا کے تحت چنی ہو۔ ناتےداروں اور خیر خواہوں کے یہ بھینے بھینے طعنے سنے ہوں

\’ہاں تو اس دن کے لیے انجینرنگ یونیورسٹی کی خاک چھانی تھی کہ اسکول میں استانی بن کھڑی ہو۔\’

لیکن کیا کریں صاحب، پریت کی لت موہے ایسی لاگی کہ آج بھی دل وہیں کھنچتا چلا جاتا ہے۔ ماضی میں ذرا خود کو اور پیچھے کھینچوں تو نظر اس وقت پر جاتی ہے کہ جب آتش جوان تھا۔ کمرہ تدریس کی راحت کوبیان کرنا بھی ناممکن ہے کہ جس تن لاگے وہ تن جانے۔ اس طویل پریم کتھا کو سننے کے لئے نہ تو آپ کے پاس عمر نوح ہے اور نہ ہم سے دلی مرحوم کا یہ فسانہ چھیڑا جائے گا۔ معاف کیجئے گا صاحب۔

 جیسا کہ یونیورسٹی سے نئے نئے نکلے تھے لہذا ایک نوجوان استاد کی شخصیت طلبا کو اپنے قریب معلوم ہوتی تھی۔ باوجود اس کے کہ خاکسار کی کمرہ جماعت میں سختی ایک ضرب المثل تھی لیکن باہر نکلتے ہی سب جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا تھا۔ کبھی جو غلطی سے کسی بچے کو زیادہ ڈانٹ دیا تو اگلے دن تک دل پر ایک بوجھ سا رہتا تھا۔ ہزار کوشش ہوتی تھی کہ اگلا سورج نکلتے ہی کسی طرح اس کی تلافی کر ڈالیں۔ ان سب کی کامیابیاں اپنی لگتیں۔ بچوں کی مختلف مقابلوں میں جیتی ہوئی مسکراہٹوں کے سامنے اپنا بچپن کا وہی وقت بھی ہیچ لگتا۔ کچھ یہی حال ان فرشتوں کا بھی تھا۔ ان کی مائیں کہا کرتی تھیں کہ بچیاں گھروں میں دن رات ہمارا تذکرہ کیا کرتی تھیں اور ہم جیسے ملبوسات کی ضد کرتیں۔ ہمارے انداز بیان کی تقلید کرتیں۔ اپنے ننھے سے دل کے رونے یہ سب بچے اپنے ماں باپ سے کم اور ہم سے زیادہ رویا کرتے۔ وہ تو خدا بھلا کرے سوشل میڈیا اور رابطے کے دیگر ذرائع کا کہ یہ محبّت آج بھی یوں ہی برقرار ہے۔ وہ وقت یوں ہی دل کے قریں دھرا ہے۔ بتائے نہیں بیتتا۔

غالباً یہی وجہ تھی کہ اس تعلیمی ادارے کے اپائنٹمنٹ لیٹر کی ایک شق یہ بھی تھی کہ اساتذہ ایسی کسی قسم کی سرگرمیوں سے احتیاط برتیں گے جن کا طلبہ پر غلط اثر پڑنے کا ذرا سا بھی احتمال ہو۔ لاابالی عمر تھی، ہر چیز سوچے بغیر آگے کو چلنے والی۔ قسم لیجئے جو کسی بھی شق کو بہت غور سے پڑھا ہو۔ لیکن یہ بات تب بھی ذہن میں بیٹھ چکی تھی کہ یہ سب بچے صرف جنم دینے والوں کے ہی نہیں بلکہ ہمارے بھی ہیں۔ ان کے اخلاق کا ذمہ ہم پر بھی اتنا ہی ہے کہ جتنا ان کے ماں باپ کا۔ یہی قرض تھا جو آج بھی کاندھوں پر دھرا ہے۔ چکائے نہیں چکتا۔ بالکل یوں ہی جیسے وہ حسین وقت یادوں کے دریچے سے گزرنے پر راضی نہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے۔ ہم تو بیٹھے تھے ایک غیر سیاسی کالم لکھنے کو اور ذکر آ گیا اپنی ہی یادوں کا۔ ارادہ تو تھا کہ ذکر کریں کچھ آج کے تھرکتے ہوئے سیاسی منظر کے ماضی حال مستقبل کا، آئین کو للکارتے اپوزیشن لیڈروں کا) کہ صاحب بس چہرے ہی تو بدلتے ہیں یہاں)، سڑکوں پر مار کھاتے سیاسی کارکنوں کا، خوبصورت محلوں میں تقریریں اور پش اپس لگاتے خان صاحب کا، کسی فلمی ہیرو کی طرح جلسہ گاہ میں پابندیوں کے باوجود گھسنے والے شیخ صاحب کا، اسی نشے میں حافظ سعید اور مسعود اظہر کو محب وطن کہنے کا، پرویز رشید صاحب کی قربانی کا، بلاول کے بے مایا آنسوؤں کا، میاں صاحب کی سیاسی بوکھلاہٹ کم نبیل گبول صاحب کے تھالی سے لڑھک جانے کا، اقتدار کی دہلیز پر کھڑے ہو کر دارالحکومت کو بند کرنے کا، بلیک لیبل شہد کی بوتلوں اور بھنے تیتروں کا، ایک دوسرے پر ذاتی الزامات کی غلاظت کی بوچھاڑ کرنے والوں کا، اپنے ہی ملک میں اختلاف رائے پر شیلنگ کرنے کا، اپنے مخالفین کو سیکورٹی رسک قرار دینے کا، اپنے ہی دھرنے کو کینسل کرنے کا ۔۔۔ لیکن کچھ کہا نہیں جا رہا۔

کیا کہئے کہ ہماری نظر اور دل ہیں کہ کل سوشل میڈیا کے منظر عام پر آنے والی اس ویڈیو سے ہٹنے کو راضی ہی نہیں کہ جس میں اپوزیشن جماعت کی ایک خاتون نے بنی گالہ میں داخلے سے پابندی پر وہ طوفان برپا کیا کہ خدا ہی کی پناہ۔ زبانی توتکار کا تو کیا کہنا کہ اختلاف رائے ہم سب کا جمہوری حق ٹھہرا۔ لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ جنگلوں کا بھی دستور ہوا کرتا ہے۔ ایف سی کے یہ غریب اہلکار کھڑے اپنی بےبسی پر یوں چپ سادھے کھڑے تھے کہ جیسے بے جان لاشیں ہوں۔ خاتون نے بیرئیروں کا تو خیر کیا لحاظ کرنا تھا لیکن اس پولیس والے کو بھی نہ چھوڑا۔ یوں دھکے دیے جیسے اپنی ہی تہذیب کو کب کے دے چکی تھیں۔ وو تو خدا بھلا کرے ان صاحب کی دانشمندی اور صبر کا کہ کسی قسم کا رد عمل ظاہر نہیں کیا ورنہ جو ردعمل ان کی جماعت کی جانب سے آتا اس سے آپ بھی واقف ہیں اور ہم بھی۔

بس یہ ویڈیو ریلیز ہونے کی دیر تھی کہ ہماری ٹائم لائن ان سب طلبہ کی پوسٹس سے بھر گئی جو انہی خاتون کی موجودہ اور ہماری سابقہ اسٹوڈنٹس تھیں۔ جی، معلوم ہوا کہ یہ بھی ہماری ہم پیشہ ہیں۔ اور جیسا کہ استاد تو طلبہ کے آئیڈیلز ٹھہرے سب ہی ان کی تعریف میں رطب السان تھیں۔ کسی نے تو اپنی اس رول ماڈل کی تقلید کا عزم بھی ظاہر کیا۔ جی تو جلا لیکن چپ رہے۔

 دل کی دل میں ہی رہنے دی کہ آخر اس طوفان بدتمیزی کا نتیجہ کیا ہے؟ آپ تو اپنی چمچماتی گاڑی میں قانون کا تمسخر اڑاتی ہوئی آگے چل پڑیں۔ دھرنا ختم بھی ہو گیا تو اگلے الیکشنوں سے پہلے کی آخری رات تک یہ حکومت کا تختہ الٹانے کی تحریک تو جاری رہے گی۔ اختلاف رائے کے بنیادی حق سے تو کوئی انکار ہے ہی نہیں۔ البتہ دارالحکومت کو بند کرنے کی دھمکی دینا اور دوسری طرف آنے جانے کے راستوں کو کنٹینروں سے بلاک کر دینا یقینا کسی قانون میں جائز نہیں۔ لیکن یہاں ضابطہ ہے ہی کیا، کہاں کا قانون، کیسا دستور۔۔۔ جانے دیجئے۔ اس وقت تو ایک ہی سوال ذہن میں کلبلا رہا ہے کہ ان تمام جید رہنماؤں، جو بظاہر اس قوم کے \’روشن\’ مستقبل کی خاطر یہ کشت کاٹنے میں مصروف ہیں، پر کوئی اخلاقی ذمےداری بھی عائد ہوتی ہے یا نہیں؟ اپنے مخالفین کی ذاتی زندگی، جسم اور یہاں تک کے کھانے پینے پر کیچڑ اچھالنا تو ہمارا قومی مزاج ٹھہرا۔ لیکن ایک پولیس والے کو سر عام ذلیل کرنا اور پھر بھی نیک ٹھہرنا کہاں کا انصاف ہے؟ آپ جن نسلوں کے مستقبل کے رول ماڈل بنے بیٹھے ہیں کیا ان کے اخلاق کی کوئی ذمےداری آپ پر نہیں عائد ہوتی؟ کچھ ہی عرصہ پہلے ایک خاتون صحافی نے ایک پولیس کانسٹیبل سے بدتمیزی کے جواب میں تھپڑ کھایا تو ہماری صحافی برادری نے بھی ان خاتون کو برابر کا ذمےدار ٹھہرایا۔ یہ تو ذکر رہنے ہی دیجئے کہ پدر شاہی کے اس معاشرے میں بہت سوں نے اسی سپاہی کو اپنا ہیرو بھی مانا۔ اس کے ساتھ سلفیاں بھی بنائیں ۔ کیا کبھی اس خاموش پولیس والے کا تذکرہ بھی ہو گا جو ایک ایلیٹ کلاس کے ہاتھوں خاموشی سے نہ صرف ذلیل ہوتا رہا بلکہ کیمروں کے سامنے اپنی عزت نفس بھی گنواتا رہا۔

بالکل بھی نہیں! کہ نہ تو یہ نیلی آنکھوں کا ملک چائے والا ہے اور نہ ہی خاکی وردی والا محافظ۔ وہ پولیس والا جو دن رات مرتا بھی ہے اور لاش اٹھانے کے لئے کسی ایمبولینس کا مستحق بھی نہیں ٹھہرتا۔ قانون آپ کو اختلاف رائے کا حق تو ضرور دیتا ہے لیکن کسی غریب کو اپنی دولت کے نشے میں ذلیل کرنے کا قطعی نہیں۔ خیر یہ تو وہ جنگل ہے جہاں جنگل کا قانون بھی نہیں چلتا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اجازت دیجئے، چلتے ہیں۔ سلام صاحب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments