یارو اسے یو ٹرن نہ کہنا


\"omair

عمران خان نے اسلام آباد بند کرنے کا اعلان واپس لے لیا ہے۔ یار لوگ ابھی سے اسے یو ٹرن کہہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کہنا درست نہیں۔ عمران خان پانامہ لیکس میں وزیراعظم نوازشریف کے ملوث ہونے کی تحقیقات چاہتے تھے۔ اسلام آباد لاک ڈاؤن کی دھمکی اسی لیے دی گئی۔ اگر عمران خان نے یو ٹرن لینا ہوتا تو اسی وقت لے لیتے جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں احتجاج کرنے سے منع کیا تھا۔

اب سپریم کورٹ نے یہ تحقیقات اپنے ہاتھ میں لے لی ہیں۔ اب عمران خان کے پاس احتجاج کرنے کا جواز ہی باقی نہ رہا تھا۔ لہذا انہوں نے درست فیصلہ کیا، اور دو نومبر کو لاک ڈاؤن کے بجائے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ اب میں عرض کروں گا کہ عمران خان نے ایسا کیا کیا جسے یو ٹرن یا اس سے ملتی جلتی چیز سمجھا جائے۔

عمران خان نے اپنے کارکنوں کو بنی گالا بلایا۔ سینکٹروں وہاں ان کی رہائش گاہ کے باہر پہنچے۔ موسم کی سختی کا مقابلہ کیا، لیکن عمران خان اپنے گھر کی آسائش میں زندگی کرتے رہے۔ باہر ان کے کارکن چٹائی بچھا کر رضائی اوڑھے لیٹے ہوتے تھے، اندر عمران خان چادر اور چار دیواری کے تحفظ میں ہوتے۔

ایسی چیزیں تو علامتی ہی ہوتی ہیں۔ باہر کارکن پر سختی ہو اور اندر لیڈر آرام سے ہو۔ یہ ایک عقیدت مند کے لیے تو درست ہو سکتا ہے کسی سیاسی کارکن کے لیے نہیں۔

بہت سے لوگ اس بات پر بھی عمران خان پر تنقید کر رہے ہیں کہ انہوں نے کارکنوں کے شانہ بشانہ پولیس کا مقابلہ نہیں کیا۔ سیاسی لحاظ سے یہ بھی ایک درست حکمت عملی تھی۔ عمران خان کو پولیس گرفتار کر لیتی تو کارکن بددل ہو جاتا۔ تحریک کا جوش ختم ہو جاتا۔

عمران خان لاک ڈاؤن کے لیے پر عزم تھے۔ انہیں دس لاکھ لوگوں کی آمد کا یقین چاہے نہ ہو، لیکن یہ یقین ضرور تھا کہ وہ اسلام آباد بند کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ انہیں بہترین فیس سیونگ فراہم کرتا تھا۔ لیکن انہوں نے اس \"imran2\"فیصلے کو چیلنج کیا۔

ہاں اب اسے یو ٹرن نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے کہ جس فیصلے کو انہوں نے چیلنج کیا تھا، بعد میں اسی کا ریفرنس دیتے ہوئے کہہ رہے تھے اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں پریڈ گراؤنڈ جلسے کی اجازت دے رکھی ہے۔

پولیس یا دوسرے معنوں میں حکومت کارکنوں کے ساتھ سختی سے پیش آئی۔ لیکن سوچیے حکومت کے پاس بھی دوسری آپشن کیا تھی؟ کیا وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اسلام آباد بند کرنے کی اجازت دے دیتی۔ احتجاج کرنا تحریک انصاف کا حق ضرور ہے، لیکن آزادانہ نقل و حمل بھی تو شہریوں کا حق ہے۔

ویسے تو کارکنان کی ہمت کو بھی سلام ہے۔ وہ سختیاں برداشت کرتے ہیں، کسی صلے کے بغیر۔ وہ بھی تو دیکھتے ہوں گے کہ ان کا لیڈر نسبتاً آسائش میں ہے، لیکن خندہ پیشانی سے سب برداشت کرتے چلے جاتے ہیں۔

جو سمجھتے ہیں کہ عمران خان کو شکست ہوئی ہے۔ وہ بھی اپنی رائے پر نظر ثانی کریں۔ عمران خان پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے ایک لائحہ عمل بنوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اگر کمیشن بن جاتا ہے تو وہ ٹرمز آف ریفرنس کے لیے فریقین کے متفق ہونے کا انتظار نہیں کرے گا۔ کمیشن کو تاخیر ہوتی محسوس ہوئی تو وہ تحقیقات کے لیے اپنے ٹرمز آف ریفرنس بنا لے گا۔
عمران خان کے فیصلے سے اس تاثر کو بھی تقویت ملی ہے کہ ان کے پیچھے کوئی تیسری قوت نہیں تھی۔

لہذا اس صورتحال کو کسی کی جیت اور کسی کی ہار نہ سمجھا جائے۔ جو ہوا ہے وہ ملک پاکستان کےلیے اچھا ہوا ہے۔ ہاں، پلیز! اسے عمران خان کا یو ٹرن نہ کہا جائے۔

عمیر محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمیر محمود

عمیر محمود ایک خبری ٹیلی وژن چینل سے وابستہ ہیں، اور جو کچھ کرتے ہیں اسے صحافت کہنے پر مصر ہیں۔ ایک جید صحافی کی طرح اپنی رائے کو ہی حرف آخر سمجھتے ہیں۔ اپنی سنانے میں زیادہ اور دوسروں کی سننے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمیر محمود نوک جوک کے عنوان سے ایک بلاگ سائٹ بھی چلا رہے ہیں

omair-mahmood has 47 posts and counting.See all posts by omair-mahmood

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments