فیض صاحب کوہ گراں اور راہ گزر کے درمیاں


ایک تحریر کا موضوع فیض احمد فیض کے لندن میں آخری ایام ہوں۔ لکھنے والے خالد حسن ہوں اور انگریزی تحریر کو قرۃ العین حیدر نے اردو کے روپ میں ڈھالا ہو تو پھر یہ کہنے کی ضروت باقی نہیں رہتی کہ اس تحریر کو پڑھنا چاہیے۔
\"quratul\" لندن ہی ایک ایسا شہر ہے جہاں فیض صاحب بار بار آتے ہیں۔ محض ایک مرتبہ انہوں نے دیارِ غیر میں سکونت اختیار کرنے کا ارادہ کیا تھا جب بھی نگاہ انتخاب لندن پر پڑییہ 1961ءوغیرہ کی بات ہے لیکن فیض صاحب پھر یہاں سے واپس چلے گئے۔ ان کی نظم

یار آشنا نہیں کوئی ٹکرائیں کس سے جام

کس دلربا کے نام پر خالی سبو کریں

اسی زمانے میں لکھی گئی تھی میں یہ تصور کرناچاہتا ہوں کہ یہ نظم لندن کے کسی Pub میں عالم تنہائی میں لکھی گئی۔

لیکن فیض صاحب اور تنہا ! موصوف کبھی لندن میں اکیلے نہیں ہوتے۔ آشنا اور نا آشنا بھانت بھانت کے لوگ انہیں گھیرے رہتے ہیں میں آج تک دونوں اقسام کا فرق نہ پہچان سکا کیونکہ فیض صاحب کسی کو اجنبی سمجھتے ہی نہیں۔ اپنے دوستوں دشمنوں اور اجنبیوں کے لئے ان کی گرمجوشی اور درد مندی لندن کی بارش کی طرح ہے جو سب پر یکساں برستی ہے۔ لندن کے گلی کوچوں سے ان کی شدید جانکاری اور ناموں اور چہروں کو یاد رکھنے کی صلاحیت کی طرح ان کا سنس آف ڈائریکشن بھی خاصا حیران کن ہے۔ لندن ایک لا متناہی شہر ہے خصوصا اگر آپ اس میں کھو جائیں جو میرے ساتھ بالخصوص اس کے مشرقی اور جنوبی مغربی حصوں میں اکثر ہوتا \"khalid-hassan\"  رہتا ہے۔ چند سال قبل ، فیض صاحب کو کرسٹل پیس سے آگے ایک صاحب کے گھر پہنچاتے ہوئے میں راستہ بھول گیا نقشے کے مطالعے نے مزید گڑ بڑا دیا۔ بحیثیت ایک دیرینہ لندن نواسی کچھ دیر تک تو میں نے ظاہر کیا کہ راستے سے بخوبی واقف ہوں مگر فیض صاحب ذرا بے نیازی سے سامنے کا جائزہ لے کر بولے ” ناک کی سیدھ میں نکل جاﺅ پھر اس طرف مڑو۔ پھر ادھر “ اور ان کی ہدایت پر چل کر ہم واقعہ عین منزل پر جا پہنچے۔

سال گزشتہ موصوف کو ہائی گیٹ لے جا رہا تھا دوہری شاہرہ پر پہنچ کر پھر بھٹکا خیال تھا فیض صاحب نے نوٹس نہ کیا ہو گا۔ کہنے لگے۔ ” بھئی اگر تم داہنی طرف نہ مڑے تو اوکسفرڈ پہنچ جاﺅ گے۔“ فیض صاحب اپنے ایام جوانی سے یہاں آتے رہے ہیں گو میں بہت سے حضرات کو جانتا ہوں جن کی واقفیت اتنی ہی ہونی چاہیے مگر وہ آپ کو نائیٹس برج سے ریجنٹ اسٹریٹ تک نہیں پہنچا سکتے۔

اس موسم سرما میں ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے فیض صاحب کے مانوس لندن کو ان کے لئے بدل کے رکھ دیا شاید وہ اب بار بار یہاں آنا پسند بھی نہ کریں ان کے لئے اس حقیقت کو قبول کرنا مشکل ہے کہ ایک چہیتا دوست جس کی وجہ سے لندن ان کے لئے اتنا کچھ تھا ، ان سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا۔ اس فروری کے ایک یخ بستہ دن محمد افضل اس دنیا سے اٹھ گئے۔ فیض ہمیشہ مرحوم کے ہاں ٹھہرتے تھے محض کچھ عرصہ قبل انہوں نے ماجد علی اور زہرہ نگاہ کے نائیٹس برج والے فلیٹ میں قیام کرنا شروع کیا تھا۔ میرا خیال ہے چونکہ محمد افضل کی صحت خراب رہنے لگی تھی فیض صاحب ان پر اپنی میزبانی کا بوجھ نہ ڈالنا چاہتے تھے پچھلی گرمیوں میں جب وہ کینیڈا گئے انیس افضل کے ہاں ٹھہریں میں افضل سے لاہور میں واقف نہ تھا کیونکہ وہ میرے زمانے سے قبل پاکستان کو خیر بار کہہ چکے تھے لیکن ان کے متعلق سن رکھا تھا۔ ٹریڈ یونین تحریک میں ان کے بہادرانہ شرکت کی اہمیت سے بھی باخبر تھا ملاقات پر کلبیت آمیز حسن مزاج کا مالک ، اکل کھرا شخص پایا خاموش طبع اور چڑچڑا۔\"large-faiz-with-alys\"

میں نے فیض صاحب سے پوچھا۔ ”بھئی نہیں یہ بات نہیں ہے۔ دراصل بے چارہ کافی مدت سے بیمار رہنے لگا ہے اس وجہ سے اسے اپنے معمولات میں ردوبدل کرنا پڑا علاج معالجے اور پرہیز وغیرہ کی وجہ سے ذرا جھنجھلاتا ہے۔ حقیقت میں بہت مختلف انسان سے پہلے تو بالکل شعلہ جوالہ تھا اور بیحد کمٹیڈ۔“

مغربی ممالک میں افضل جیسے متعدد لوگوں سے مل چلا ہوں۔ ایسے اصول پرست لوگ جو پاکستان کو ایک ترقی پسند اور روشن خیال ملک دیکھنا چاہتے تھے مگر جنہوں نے مایوس ہو کر پردیس میں سکونت اختیار کر لی وقت کے ساتھ ساتھ ان کی کلبیت میں اضافہ ہوتا رہا مالی حالات روشن تر ہوتے گئے لیکن کسی نہ کسی طور پر بحیثیت انسان ان کا قد کم ہو گیا ۔ افضل بھی انہیں لوگوں میں سے تھے لیکن فیض صاحب سے ان کی دوستی بہت گھمبیر تھی دونوں ایک کمرے میں گھنٹوں چپ چاپ بیٹھ کر بھی ایک دوسرے سے گویا رہ سکتے تھے۔ ایک پرانی اور شدید دوستی ہی اس نوع کی کیمیا کی تخلیق کر سکتی ہے۔

افضل وفات پا چکے تھے۔ فیض صاحب اس وقت لندن ہی میں تھے میں وہاں نہ تھا۔ اس لئے مجھے معلوم نہیں انہوں نے اس صدمے کو کس طرح سہا۔ ایک دوست کا کہنا ہے کہ ٹوٹ سے گئے۔ چپ لگ گئی۔ اسی اداسی کے عالم میں بیروت واپس گئے مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔ کیونکہ جب صوفی علام مصطفیٰ تبسم نے رحلت فرمائی تب بھی فیض صاحب کا یہی حال ہو ا تھا ایک عجیب قسم کی خاموشی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ایسی صابر خاموشی جس سے بے پایاں الم جنم دیتا ہے۔ میں نے صوفی صاحب کا تذکرہ چھیڑا۔ انکا انداز ان کے ساتھ گزاری ہوئی شامیں ان کی شاعری۔ ان کا مزاح ۔ ان کا افلاس جس میں انہوں نے ساری عمر گزاری۔ اور جسے انہوں نے ایک درد یشانہ صوفیانہ رنگ میں قبول کر لیا تھا۔ صوفی صاحب کے متعلق کہنے کو اتنا کچھ تھا وہ فردا فردا ہم سب کے لئے اتنے کچھ تھے۔\"large-man-of-letters\"

بالاخر فیض صاحب نے بات کی۔ کہنے لگے ” ہم لوگ محض عطائی تھے۔ Amateurs صوفی صاحب استاد فن تھے۔ ماسٹر جب بھی کوئی شک شبہ ہوتا ان کے پاس پہنچتے۔ زبان محاورہ۔ ڈکشن Syntax روزمرہ بنانے والے تھے چلے گئے۔ اب کس کے پاس جایا جائے گا۔

فیض صاحب جیسا کہ ان احباب کو معلوم ہے کبھی ”میں“ استعمال نہیں کرتے یا تو وہ غیر شخصی ”ہم“ کہتے ہیں۔ انگریزی کا Third person indefinite جب وہ کہہ رہے تھے۔ یا When One Was In Doubt One Would Go To Him ان کا مطلب یہ تھا کہ ان کا اپنا استاد دنیا سے اٹھ گیا۔ جس کے قول فیصل پر وہ اعتماد کرتے تھے اور فن شاعری پر حرف آخر سمجھ کر وہ قبول کر سکتے تھے۔

فیض صاحب لندن پہنچ کر چند لوگوں کو فون کرتے ہیں۔ انتہائی انکسار کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں فون کی گھنٹی بجتی ہے میں ریسیور اٹھاتا ہوں۔ ہلو۔؟ میں پوچھتا ہوں ۔” بھئی فیض“ سارے کام کاج چھوڑ کر فیض صاحب سے ملنے کے لئے لپکتا ہوں۔ فیض صاحب سے ملاقات میں جو اعزاز اور سربلندی مضمر ہے مجھے اس پر ہمیشہ سے فخر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments