مجید نے دوست کی دعوت کی۔ ہوشنگ مرادی کرمانی کی کہانی


ہم آپس میں اسی بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ ملازم نے چینی مٹی کے دو بڑے پیالوں میں فالودہ لا کر ہمارے سامنے میز پر رکھ دیا۔
ابراہیم نے کہا، ”کئی سال ہو گئے ہیں اس طرح کا فالودہ کھائے ہوئے۔ ہم لوگ آج کل جہاں رہتے ہیں، وہاں اس طرح کا فالودہ نہیں ملتا۔ “

ہم بہت خوشی سے فالودہ کھا رہے تھے کہ، ”واہ واہ! کتنا مزیدار ہے۔ مزہ آ گیا ہے“۔ اور پھر میں بلبل زبانی کرنے لگا اور مزے مزے کی کہانیاں سنانے لگا۔ اسی دوران اچانک میری نظر فالودے اور آئس کریم کی ریٹ لسٹ والی تختی پر پڑی۔ میں نے دیکھا کہ فالودے کی قیمت دوسری جگہوں کے مقابلے میں ایک ’قران‘ زیادہ ہے۔ میں نے دل میں کہا، ”خیر ہے کوئی بات نہیں۔ “ پھر پیسوں کی طرف متوجہ ہوا۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دیکھا کہ خدا کی قدرت کہ جیب میں ایک بھی قران موجود نہیں ہے۔

کپڑے بدلتے وقت، پیسے دوسری قمیص سے نکال کر جیب میں ڈالنا بھول گیا تھا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ اس قضیے کا سبب کیا ہے تو ٹھنڈا اور میٹھا فالودہ میرے منہ میں زہرِ مار کی طرح کڑوا ہو گیا۔ گلا جکڑا گیا۔ میں کرسی سے ٹیک لگانے کے لئے پیچھے ہوا چمچ ہاتھ سے چھوٹ گئی اور میں نے اپنا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھ لیا۔

ابراہیم نے دیکھا کہ میں بولتے بولتے اور فالودہ کھاتے اچانک رک گیا ہوں تو اسے حیرانی ہوئی اور کہا، ”کیا ہوا ہے مجید؟ “
میں نے خود کو فورا اس حالت سے باہر نکالا اور اس وجہ سے کہ مہمان پریشان نہ ہو اور یہ کہ وہ فالودے سے لطف اندوز ہوتا رہے تو کہا،

”کچھ نہیں۔ بس تھوڑا سر چکرایا ہے اور آکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ہے۔ ہمیشہ اسی طرح ہوتا ہے۔ ٹھنڈا اور میٹھا فالودہ کھانے سے سر چکراتا ہے، اب ٹھیک ہو گیا ہے۔ تم نوشِ جان فرماؤ۔ “ اور دوبارہ فالودے کی چمچ بھر کر منہ کی طرف بڑھائی لیکن میں نے دیکھا کہ یہ ممکن نہیں ہے اور میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا ہے۔ جیسے کسی نے میرا گلا جکڑ رکھا ہو۔ اب مزید یہ ہوا کہ ہاتھ بھی کانپنے لگے اور اوپر نہیں اٹھ رہے تھے۔

میں نے فالودے سے بھری چمچ واپس رکھی اور کنکھیوں سے فالودہ فروش کی طرف دیکھا۔ میں یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ اس کی شکل کیسی ہے ”کیا اس کے سامنے التماس کی بھی جا سکتی ہے کہ نہیں؟ میری بدبختی، اس کی شکل ہیبت ناک، غصے دار اور ڈراؤنی تھی۔ موٹی گردن، چھوٹا قد اور بدمزاج۔ موچھیں گھنی جن کی نوکیں اوپر کو اٹھی ہوئی، ویسی ہی جیسی سینما کے پردے پر میں نے دیکھ رکھی تھیں۔ اس کے بازو اور چھاتی ابھرے ہوتے تھے گویا کسی سنگ تراش نے انھیں تراشا ہو۔ اس کی تلخ نگاہ کسی بھی آدم زاد کے پتے کو پانی کر سکتی تھیں۔

بڑی مشکل اور بے بسی کی حالت میں، میں نے دو چار چمچ فالودہ کھایا۔ فالودے کا اب پہلے والا مزہ نہیں رہا تھا۔ کڑوا، بدمزہ اور بالکل بے لطف ہو چکا تھا۔ سامنے دیوار ہر لگے شیشے میں میں نے دیکھا کہ میرا رنگ چقندر کی مانند گہرا لال ہو چکا ہے۔ مجھے ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے۔ سر تپ رہا تھا۔ منہ خشک ہو چکا تھا۔ سانس باہر نہیں آ پا رہا تھا۔ میں نے منہ میں جمع شدہ تھوک کو نگلا اور تھوڑا مسکرایا اور بے خود باتیں کرنا شروع کر دیں تاکہ ابراہیم کو یہ محسوس نہ ہو پائے کہ میری اس وقت ہوئی حالت کس سبب سے ہے؟

میں انکھوں کے کونوں سے فالودہ فروش کی طرف بھی دیکھتا جا ریا تھا۔ ہر بار، دیکھنے پر وہ پہلے سے زیادہ بد اخلاق تر، بد جنس تر اور بے رحم تر نظر آتا۔ خاص طور پر جب وہ اپنے ملازم کو ڈانٹتا کہ ’سست کیوں ہوئے جا رہے ہو اگر پھرتی نہ دکھائی تو میں ٹھڈے مار کر دکان سے باہر پھینک دوں گا‘ تو میرا دل بیٹھنے لگا اور میری رگوں اور جلد میں خوف دوڑنے لگا۔

عالم خیال میں، اس طرح کہ زبردستی فالودہ کھا رہا ہوں اور باتیں کر رہا ہوں۔ فالودہ فروش کو دیکھتا ہوں۔ ہماری میز کی طرف آیا ہے۔ مجھے میری گردن سے پکڑ کر، بالکل بلی کے بچے کی طرح ہوا میں بلند کیا۔ میز پر رکھا۔ ابراہیم کے سامنے، فالودے کے پیالے کو میرے سر پہ انڈیل کر خالی کیا۔ ایک بار مزید، عالم خیال میں، میں نے دیکھا کہ فالودہ فروش نے ایک بڑا سا برتن فالودے کا بھر کر میرے سامنے رکھا۔ میرے چہرے کو کالا کیا۔ میرے سر پر مسخروں کی نوک دار ٹوپی رکھی اور لوگ میرے گرد جمع ہونے لگے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ عام طور پر خالی جیب آدمی کو فالودہ کھانے اور ساتھ میں ایک مہمان کو بھی فالودہ کھانے کی دعوت دینے والے کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔ اس کے سر پہ کیا افتاد پیش آتی ہے۔ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال سے میرا سامنا پہلی بار ہوا تھا۔ سکول میں ملنے والی سزا میرے سامنے تھی۔ مجھے طرح طرح کے ڈراؤنے خیال ڈرانے لگے۔ کبھی ابراہیم کے ساتھ بات کرنے سے میں ان خیالوں سے باہر آتا لیکن پھر وہی عجیب و غریب فکریں مجھے گھیر لیتیں۔

میں نے دیکھا کہ فالودہ فروش نے میرے کپڑے اور جوتے اتروا کر گروی رکھ لئے ہیں۔ تاکہ میں گھر جا کر پیسے لاؤں اور انہیں گروی سے چھڑواؤں۔ میں نے دیکھا کہ میں سڑک پر کپڑوں اور جوتوں کے بغیر دوڑ رہا ہوں اور اس حالت میں لوگوں سے اور ابراہیم سے شرم محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے دوبارہ فالودہ فروش کی طرف دیکھا۔ کتنی سخت مزاج، خونی آنکھیں تھیں اور بھویں ایک خاص زاویے پر سکیڑی ہوئی تھیں جس سے آنکھیں مزید خوفناک لگ رہی تھیں کہ اس سے بات کرنے کے لیے شیر کا جگرا ہونا چاہیے۔

ابراہیم مزے سے اپنا فالودہ کھائے جا رہا تھا۔ اسے آئس کریم کھانے کی خواہش ہوئی تو بولا، ”کیسا رہے گا اگر ہم آئس کریم بھی منگوا لیں، ٹھیک ہے؟ لیکن اس کے پیسے میں دوں گا۔ “

اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک تومان کا نوٹ نکالا، میں نے فورا اس کے ہاتھ کی کلائی پکڑی اور کہا، ”ہمارے درمیان کیا طے ہوا تھا؟ تم میرے مہمان ہو۔ کافی عرصے بعد ملے ہو۔ میں یہ بات قبول نہیں کروں گا کہ تم اپنا ہاتھ یوں اپنی جیب میں ڈالو۔ “ اور ساتھ ہی میں نے کانپتے ہوئے ہاتھ کے ساتھ فالودہ فروش کے اس ملازم لڑکے کو اشارہ کیا کہ وہ دو آئس کریم بھی لے آئے۔ آئس کریم پلک جھپکتے ہی میز پر آ گئی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، ”حساب زیادہ ہوتا جا رہا ہے، مجید آج تم بدبخت ہو کر رہ گئے ہو۔

” آئس کریم کی پہلی چمچ ہی منہ میں ڈالی کہ میری آنکھیں بے خودی سے بھر آئیں اور آنسوں نے پلکوں کو بھر دیا۔ آئینے میں دیکھا کہ ابھی آنسو بس بہنے ہی والے ہیں۔ چنانچہ تسمے باندھنے کے بہانے سر جھکا کر میز کے نیچے کیا تاکہ آنسو پونچھ سکوں۔ میرا دل چاہتا تھا کہ وہیں میز کے نیچے ہی رونا شروع کر دوں، لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ سر کو آہستہ آہستہ میز کے نیچے سے اوپر اٹھایا، ابراہیم نے میرے آنکھوں کی سرخی اور پلکوں پر جن میں ابھی کچھ آنسو باقی تھے، دیکھا۔ میں نے پہل کرتے ہوئے کہا،

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments