سرکاری اسکول: تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں


وقاص شاہد

\"waqas-shahid\"

دُنیا کی دیگر اقوام کی طرح پاکستانیوں میں بھی بحثیت قوم، جہاں بے شمار خوبیاں ہیں، وہیں چند ایک ایسی کم زوریاں ہیں جن کی بدولت ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ \’\’تحقیق کا فقدان\’\’ انھی خامیوں میں سے ایک قابل ذکر ہے۔ ریسرچ یا تحقیق کا فقدان ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب ہم من گھڑت اور سنی سنائی باتوں پر محض اس لیے یقین کر لیتے ہیں، کیوں کہ ہمیں تحقیق کی عادت نہیں۔ ماضی میں ہمارے یہاں یہ خیال کیا جاتا رہا ہے، کہ سرکاری اسکولوں کی حالت بہت تشویش ناک ہے۔ ان میں اساتذہ کی کمی، عمارات کی بد حالی، نامناسب تعلیمی ماحول اور طالب علموں کے لیے سہولتوں کی عدم دستیابی کا دور دورہ ہے۔ معاشرے میں ایک خاص ذہنیت کے لوگوں کی جانب سے سرکاری اداروں خصوصا تعلیمی اداروں کے بارے میں منفی تاثر کو اجاگر کیا جاتا رہا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی سرکاری اسکولوں کے حوالے سے ان موضوعات کی تشہیر کی جاتی ہے، جس سے سرکاری تعلیمی اداروں کے بارے میں منفی رویہ قائم ہونے میں آسانی ہو، لیکن ہم نے آج تک یہ نہیں سوچا کہ ہر چیز کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ اب تعمیری پہلووں سے صرف نظر کرنا اور منفی پہلووں کو اجاگر کرنا یقیناً ناانصافی ہے۔ تصویر کے دونوں رخ دیکھ کر اپنی رائے قائم کی جائے، تو یہ زیادہ مفید ہو گا۔ درج ذیل سطور میں ہم سرکاری اسکولوں کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

صوبہ پنجاب میں سرکاری اسکولوں کی کل تعداد چھے لاکھ کے قریب ہے، جن کے متعلق مصدقہ معلومات یوں ہیں۔
ہائر اسکینڈری اسکول: سا ڑھے چھے لاکھ طلبا ( بیس ہزار سے زائد اساتذہ)
ہائی اسکول: چھتیس لاکھ طلبا، گیارہ لاکھ اساتذہ
اسکینڈری اسکول: بایئس لاکھ طلبا پچہتر ہزار اساتذہ
پرائمری اسکول: اڑتیس لاکھ طلبا پچانوے ہزار اساتذہ
مسجد مکتب اسکول : پچہتر ہزار طلبا، پندرہ سو سے زائد اساتذہ

دوسری طرف اگر صوبائی دارالحکومت لاہور اور راجن پور جو نہایت کم ترقی یافتہ اور پس ماندہ ضلع گردانا جاتا ہے، کے سرکاری اسکولوں کا موازنہ کیا جائے تو لاہور میں اسکولوں کی کل تعداد 1252 ہے، جن میں سولہ ہزار اساتذہ، پانچ لاکھ سے زائد طلبہ، جب کہ راجن پور کے 1262 سرکاری اسکولوں میں پانچ ہزار سے زائد اساتذہ دو لاکھ کے لگ بھگ طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے، کہ راجن پور جیسے دور افتادہ ضلع میں بھی حکومت فروغ تعلیم کے لیے کس حد تک کوشاں ہے۔ صوبہ \"schools2\"پنجاب میں چودھری پرویز الہی کے دور حکومت میں فروغ تعلیم کے لیے کئی قابل قدر اقدامات اٹھائے گئے۔ \’ پڑھا لکھا پنجاب\’\’ کے نام سے مہم شروع کی گئی، جس کے تحت میٹرک تک تعلیم اور کتابیں مفت کر دی گئیں اور پہلی مرتبہ اعلی ٰتعلیم یافتہ نوجوان ایجوکیٹرز بھرتی کیے گئے۔ اسی دور میں اساتذہ کی تربیت کے ادارے قائم ہوئے۔ یہ بات نہایت خوش آیند ہے کہ موجودہ حکومت نے چند ایک کے اضافے کے ساتھ انھی پالیسیوں کے تسلسل کو یقینی بنایا ہوا ہے۔ حال ہی میں تیس ہزار ایجوکیٹرز، جن میں اسی فی صد سے زائد سائنس گریجویٹ ہیں، کی بھرتی کو نہایت شفاف انداز میں مکمل کیا ہے۔ جب کہ گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی جانب سے بیاسی ہزار نئے اساتذہ کی تقرری کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ ان پر عزم نوجوانوں سے حکومت کو بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ اینول سٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے، کہ ضلع لاہور کے دیہی علاقوں کے ۶۔۵۰ فی صد بچے سرکاری اسکول، جب کہ باقی نجی اسکولوں یا مدارس وغیرہ میں پڑھتے ہیں۔ سرکاری اسکول میں چھپن فی صد لڑکیاں پڑھنے کے لیے جاتی ہیں۔ اس سروے میں اساتذہ کی قابلیت کو بھی جانچا گیا ہے، جس کے مطابق سرکاری اسکول کے 73 فی صد اساتذہ نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے۔ جب کہ دوسری طرف نجی شعبہ تعلیم میں بی اے قابلیت رکھنے والے اساتذہ کی تعداد 63 فی صد ہے۔ نجی شعبے میں پڑھانے والے اساتذہ کی تربیت کا بھی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ ٹیوشن کا رجحان بھی سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت نجی اداروں میں زیادہ ہے۔ جس کی وجہ وہ اسکول انتظامیہ ہے جو اپنے ہی بچوں کو اسکول ٹائم کے بعد ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب کہ گورنمنٹ سیکٹر کے بچوں کو ایسی صورت احوال کا سامنا نہیں ہے۔ کثیر الجماعت معلمی کے حوالے سے بھی نجی شعبہ آگے ہے۔ جس کی وجہ ان کے پاس کلاس روم کی کمی ہے۔ اس وجہ سے انھیں ایک ہی وقت میں ایک ہی کمرے میں ایک سے زائد کلاسوں کو بٹھا کر پڑھانا پڑتا ہے۔ گورنمنٹ کے تعلیمی اداروں میں بلڈنگ (کشادہ کمرے) مفت کتابیں و تعلیم، کھیل کا میدان اور تربیت یافتہ عملہ موجود، جب کہ نجی تعلیمی اداروں کی اکثریت میں یہ تمام سہولیات ناپید ہیں۔ چند عشرے پہلے گورنمنٹ کے اسکولوں میں اجارہ داری قائم تھی۔ بچوں کی تعداد بھی کم تھی اور اساتذہ بھی پڑھانے سے جی چراتے تھے، لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ تمام سرکاری اسکول کے اساتذہ کی ہر تین ماہ بعد کلسٹر سنٹروں میں ٹریینگ ہوتی ہے، جس میں ڈی ایس ڈی کے تربیت یافتہ ماسٹر ٹرینرز اساتذہ کو جدید تدریسی طریقوں کے مطابق تربیت دیتے ہیں۔ اب سرکاری اسکولوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا تقرر کیا جا رہا ہے۔ جن میں سے اکثریت یونیورسٹیوں کی فارغ التحصیل ہیں۔ ان کی انڈکشن ٹریننگ پر بڑی تعداد میں رقم خرچ کی جاتی ہے۔ اساتذہ کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے بجٹ کے علاوہ تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے، جس کی بدولت نوجوان طبقے میں اس شعبہ کو اختیار کرنے کا خاص جذبہ نظر آتا ہے۔

اساتذہ اور طلبہ کی سو ف یصد حاضری کو یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ کا نظام سخت کیا جا رہا ہے۔ معروف ماہر تعلیم اور استاد قوی احمد علوی کا کہنا ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ عملے کی بدولت معاشرے میں موجود اس اثر کو زائل کیا جا سکتا ہے، کہ سرکاری اسکولوں کی حالت نا گفتہ بہ ہونے کی وجہ سے ان میں پڑھائی نہیں ہوتی اور لوگ بھاری فیسیں ادا کر کے اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب کا اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، صوبے میں تعلیمی نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے عین مطابق ڈھالنے میں مصروف عمل ہے۔ اسکولوں میں آئی ٹی لیبز اور ای بکس کا اجرا اس کی واضح مثالیں ہیں۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور یہاں کے عوام بھی زیادہ خوش حال نہیں، لیکن نا مساعد حالات کے باوجود حکومت نے سرکاری سطح پر اعلی ٰ تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں، جن میں عام آدمی کے بچے بھی داخلہ لے کر اپنے مستقبل کو تاب ناک بنا سکتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے تمام عناصر کی بیخ کی جانی چاہیے، جو محض اپنے کاروباری مقاصد کے حصول کے لیے سرکاری اسکولوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ اگرچہ حکومت نظام تعلیم اور ملک میں خواندگی کی شرح کو بہتر بنانے کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی بھی کر رہی ہے، لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تعلیم کے نام پر پیسے بٹورنے کے عمل کو جاری رکھا جائے۔ یہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں بات کرنے کا مقصد خدانخواستہ نجی شعبے کی تحقیر نہیں، بلکہ سرکاری اسکولوں میں پائے جانے والے مثبت پہلووں کے بارے میں عوام میں موجود ابہام کو دور کرنا ہے۔ لیکن ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ من گھڑت اور سنی سنائی باتوں پر یقین کرنے کے بجائے سرکاری اسکولوں کے بارے میں خود سے تحقیق کر لی جائے۔ کیوں کہ اب وہاں کے حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ تعلیمی شعبہ میں حکومت اربوں روپے کے فنڈز لگا کر عوام کا سرکاری اسکولوں سے اٹھا ہوا اعتماد بحال کروا کے چاہتی ہے، کہ عوام اسکولوں میں آئیں اور دیکھیں، کہ ہم فروغ تعلیم کے لیے کس حد تک کوشاں ہیں! لیکن بدقسمتی کہ ہم تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments