پتلی بائی: غلام عباس


محبت کا جذبہ پہلے پہل انسان کے دل میں کب بیدار ہوتا ہے، اس کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں۔ بعض لوگ لڑکپن ہی سے عاشق مزاج ہوتے ہیں اور بعض بلوغت کو پہنچ کے بھی اس جذبے سے بے بہرہ ہی رہتے ہیں۔

میری عمر کوئی نو دس برس کی ہوگی کہ مجھے عشق ہو گیا۔ عہد طفلی کا وہ معصوم عشق نہیں جو کھلونوں سے بہل جاتا ہے۔ بلکہ سچ مچ کا ہجر و وصال والا عشق جس میں محبوب کی یاد آہیں بھرواتی ہے۔ دل میں ہوک اٹھتی ہے۔ چہرے کا رنگ زرد رہنے لگتا ہے۔ بھوک پیاس کی سدھ نہیں رہتی۔ جس نے مجھے اس مرض میں مبتلا کیا وہ میری کوئی ہم عمر لڑکی نہ تھی۔ بلکہ بیس بائیس برس کی ایک پوری جوان عورت تھی۔ ایک خوبصورت ایکٹرس!

ان دنوں ہم جس محلے میں رہتے تھے۔ اس کے قریب ہی ایک تھیٹر تھا۔ اس کے پچھواڑے ایک گلی تھی جس میں کئی چھوٹے چھوٹے مکان تھے۔ ان مکان میں متوسط درجے کے لوگ رہا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں کچھ کمرے تھیٹر کے مالک نے اپنے ایکٹروں کے رہنے کے لیے کرائے پر لے رکھے تھے۔ اس ایکٹرس کو جو دو کمرے دیے گئے وہ ہمارے مکان کے بالکل سامنے تھے۔ اور خاص کر وہ کمرا تو جس میں وہ سویا کرتی تھی، میرے اس چھوٹے سے کمرے کے عین مقابل تھا، جو والد نے مجھے لکھنے پڑھنے کے لیے دے رکھا تھا۔ اس کا کمرا روشنی کے کچھ ایسے رخ پر تھا کہ باوجود اس چق کے جو ہر وقت اس کے دروازے پر پڑی رہتی تھی، مجھے کمرے کی ایک ایک چیز صاف دکھائی دیتی تھی۔ چناں چہ میں اپنے کمرے کی کھڑکی میں سے اسے دن رات دیکھا کرتا۔ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے، سنگھار کرتے، کھانا کھاتے، کبھی کبھی میں اپنے کمرے کی کھڑکی بند کرلیتا، تاکہ اس کے شیشوں میں سے اسے اور زیادہ آزادی کے ساتھ دیکھ سکوں۔

میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ والد کی کاروباری مصروفیتیں انہیں دن بھر گھر سے باہر رکھتیں۔ والدہ کا وقت زیادہ تر باورچی خانے میں کٹتا۔ کھانا پکانے سے فرصت ملتی، تو سینا پرونا لے بیٹھتیں۔ غرض گھر میں مجھے اس تاک جھانک سے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔

وہ ایک دبلی پتلی نازنین سی عورت تھی۔ پتلی بائی کا نام اس پر خوب پھبتا تھا۔ قد کسی قدر لمبا۔ بال سیاہی میں سنہرا پن لیے ہوئے، جو اس کی کمر تک پہنچتے تھے۔ بلور کی طرح صاف و شفاف جسم، چہرہ کندن کی طرح دمکتا ہوا، ماتھے پر سرخ بندی، نشیلی نشیلی سی آنکھیں جنہیں کاجل سے لمبا لمبا بنا لیا جاتا اور جو مصر قدیم کی عورتوں کی آنکھوں کی یاد دلاتی تھیں۔ ہاتھ پاؤں میں منہدی رچی ہوئی۔ حرکات میں ایک تھکی تھکی سی کیفیت۔ صبح کو جس وقت وہ انگڑائی لیتی ہوئی پلنگ سے اٹھتی تو اس کی لمبی لمبی لچکتی ہوئی بانہوں میں شاخوں کی سی ادا پیدا ہوجاتی۔

اس کا شب خوابی کا لباس بس باریک ململ کی ایک سفید دھوتی تھا جسے وہ بے پروائی سے اپنے گرد لپیٹے رکھتی اور جس میں سے اس کے جسم کے خطوط و خم کی ساری رعنائیاں پھوٹی پڑتیں۔ اسے پھولوں کا بہت شوق تھا۔ میں نے اس کی سنگھار میز کسی روز بھی پھولوں کے گلدستے سے خالی نہیں دیکھی۔ کبھی کبھی اس کی خواب گاہ کی کسی دیوار کی کھونٹی پر بھی پھولوں کا ہار ٹنگا ہوا نظر آتا۔ وہ خود بھی اپنے جسم کو پھولوں کے طرح طرح کے گہنوں سے آراستہ کیا کرتی۔ چنانچہ صبح کو اس کے بستر پر، گلے میں، کانوں میں، کلائیوں پر، جوڑے میں پھول ہی پھول دکھائی دیتے۔ رات بھر میں وہ باسی ہو جاتے اور صبح کو وہ انہیں نوچ نوچ کے پھینک دیتی۔ یہ وہ پھول تھے جو ہر روز رات کو اس کے مداح اسٹیج پر اس پر نچھاور کیا کرتے تھے۔

میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ایک حیرت کے عالم میں اس کی کیفیت دیکھا کرتا۔ گھنٹوں دیکھتے رہنے پر بھی سیری نہ ہوتی۔ خاص کر اتوار کو جب مجھے اسکول سے چھٹی ہوتی، تو میں اسکول کے کام کے بہانے سارے دن اپنے کمرے میں پڑا رہتا اور اس کو مختلف کیفیتوں میں دیکھا کرتا۔ اور دنوں میں جب مجھے طوعاً کرہاً اسکول جانا پڑتا، وہاں بھی میرا وقت اسی کے خیال میں کٹتا۔ کئی بار میری بے خیالی اور سبق سے عدم توجہی پر استاد میری سرزنش کرچکے تھے۔ چناں چہ مجھ کو بڑی کوشش کے ساتھ اپنا دھیان کتاب کی طرف لگانا پڑتا۔ مگر جیسے ہی اسکول سے چھٹی ہوتی، بھاگا ہوا گھر پہنچتا، اور سب سے پہلے اپنے کمرے میں پہنچ کے اپنی محبوبہ پر ایک نظر ڈالتا۔ وہ عموماً اس وقت تک ریہرسل سے آچکی ہوتی اور غسل کرکے سنگھار میز کے سامنے بیٹھی اپنے لمبے سیاہی مائل سنہرے بالو ں میں کنگھی کر رہی ہوتی۔

کبھی کبھی وہ آئینے کے سامنے بیٹھی خود اپنے حسن کا مشاہدہ کرنے میں محو ہوتی۔ وہ اپنے جسم کو گھما پھرا کے مختلف زاویوں سے اس پر ناقدانہ نظریں ڈالتی۔ ایسے میں میں چپکے سے اپنے کمرے کے دروازے میں اندر سے کنڈی لگا لیتا، اور اس کے ساتھ ہی کھڑکی کے پٹ بھی بند کردیتا تاکہ اسے شبہ تک نہ ہو کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے، اور چپکے چپکے کھڑی کے شیشے میں سے اسے دیکھتا رہتا۔ اس کا یہ انداز مجھے ان قدیم یونانی مرمریں مجسموں کی یاد دلایا کرتا، جنہیں میں نے اپنے شہر کے عجائب خانے میں دیکھا تھا۔

اس کے ساتھ کوئی مرد نہ تھا۔ بس ایک بوڑھی ماما تھی جو اوپر کا کام بھی کرتی اور ہنڈیا بھی پکاتی تھی۔ یہ کام وہ دوسرے کمرے میں انجام دیتی۔ اور میری محبوبہ زیادہ تر اپنی خواب گاہ ہی میں رہا کرتی۔ اس سے کوئی ملنے نہیں آتا تھا۔ البتہ کسی کسی شام تھئیٹر کا مالک موٹرلے کے نیچے آجاتا او رہارن بجاتا۔ وہ پہلے ہی سے تیار ہوتی اور اس کے ساتھ موٹر میں بیٹھ کے سیر کو چلی جاتی۔ ایسے موقعوں پر میں اس سے پہلے ہی گلی سے باہر سڑک پر پہنچ جایا کرتا، تاکہ قریب سے اس کو ایک نظر دیکھ سکوں۔ اس سے آنکھیں چار کرنے کی مجھے کبھی جرأت نہیں ہوئی۔ میں عموماً اسے چھپ چھپ کے یا صرف اس وقت گھورا کرتا جب وہ میری طرف نہ دیکھ رہی ہوتی۔

میرے والد پرانے خیال کے آدمی تھے اور تھئیٹر تماشے کو برا جانتے تھے۔ میں کبھی یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ مجھے تھئیٹر جانے کی اجازت مل جائے گی۔ اس لیے اپنی محبوبہ کو اسٹیج پر دیکھنے کی حسرت میرے دل ہی میں رہتی۔ البتہ میں اس کی آواز برابر سنا کرتا۔ اس کے لیے مجھے راتوں کو جاگنا پڑتا۔ پچھلے پہر جب سب سوجاتے تو رات کے سناٹے میں اس کی آواز تھئیٹر سے ہمارے گھر تک صاف سنائی دیا کرتی اور میں اس کے سریلے نغموں کو سن سن کے میٹھے سپنوں میں کھو جاتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
========================

دن پر دن گزرتے گئے اور میرا عشق بڑھتا ہی چلا گیا۔ اس کانتیجہ یہ ہوا کہ میں روز بروز دبلا ہوتا گیا۔ میرے چہرے کا رنگ زرد رہنے لگا۔ آنکھوں کے نیچے گڑھے پڑگئے۔ میں ہروقت سہما سہما سا رہتا۔ کسی سے آنکھ ملاکے بات کرنے کی مجھے جرأت نہ ہوتی۔ شاید ڈر تھا کہ کہیں میری آنکھیں میرے دل کا راز فاش نہ کردیں۔

میرے ماں باپ نے میری یہ حالت دیکھی تو سخت فکر مند ہوئے۔ والد مجھے ایک حکیم صاحب کے پاس لے گئے۔ وہ حضرت دیر تک میری نبض دیکھا کیے۔ مگر انہیں کچھ معلوم نہ ہوسکا کہ مجھے کیا مرض ہے فرمانے لگے، ”لڑکا پڑھنے میں بہت محنت کرتا ہے۔ اسے خشکی ہوگئی ہے۔ “ اور انہوں نے کئی قسم کی مرغن غذائیں میرے لیے تجویز کیں۔ میرے لیے گھر کا معمولی کھانا بھی زہر تھا۔ ان غذاؤں سے رغبت کیونکر پیدا ہوتی۔ چنانچہ والدہ کے سخت اصرار پر دوچار نوالے حلق سے اتار کے ہاتھ کھینچ لیتا۔

یہ تو گھر کا حال تھا۔ اسکول میں مجھے اور بھی مشکل پیش آتی۔ وہاں میری تندرستی کی تو کسی کو فکر نہ تھی۔ البتہ تعلیم کی طرف سے بے پروائی کسی طرح بھی برداشت نہ کی جاسکتی تھی۔ اور میری یہ کیفیت تھی کہ مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ استاد پڑھا کیا رہے ہیں۔ وہ مجھے سزائیں دے دے کے تھک گئے تھے، انہیں حیرت تھی کہ وہ لڑکا جس کو وہ ہونہار سمجھ رہے تھے، اچانک ایسا غبی کیونکر ہوگیا۔

گھر آکر جب میں کھڑکی میں سے اپنی محبوبہ کو دیکھتا تو خوشی کی ایک لہر میرے سارے جسم میں دوڑ جاتی اور میں دن بھر کی تکلیفیں بھول جاتا۔

ایک دن مجھے اسکول سے جلد ہی چھٹی مل گئی، مجھے خوب یاد ہے۔ یہ بڑا سہانا دن تھا۔ کئی روز کی مسلسل گرمی اور دھوپ کے بعد آسمان پر ابر چھایا تھا۔ ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تھی۔ میرے ساتھی تو گیند بلا اور فٹ بال لے کر خوشی خوشی کھیل کے میدان کی طرف چلے اور میں نے گھر کی راہ لی۔ جلد جلد مکان کی سیڑھیاں چڑھ کے اپنے کمرے میں پہنچا۔ کھڑکی سے جھانکتا تھا کہ میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میری محبوبہ جن دو کمروں میں رہتی تھی، وہ خالی پڑے تھے۔ چقیں اتار لی گئی تھیں اور کھلے دروازوں کے کواڑ ہوا سے ہل رہے تھے۔ میں دوڑ کر نیچے گلی میں پہنچا اور بازار کی طرف گیا، جدھر تھئیٹر کا دروازہ تھا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ تھئیٹر کے پردے اور سازوسامان چھکڑوں پر لادا جا رہا ہے۔ میں بھونچکارہ گیا۔ کمپنی کا ایک ملازم لڑکا اسباب لدوا رہا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا:

”یہ کمپنی کہاں جارہی ہے؟ “
”دوسرے شہر کو۔ “ اس نے جواب دیا۔
”وہاں سے کب واپس آئے گی؟ “
”واپس نہیں آئے گی، وہاں سے کسی اور شہر کو چلی جائے گی۔ “
”کیا یہاں پھر کبھی نہیں آئے گی؟ “
”کیا پتہ۔ شاید پانچ چھ برس کے بعد پھر آنا ہو۔ “

یہ سن کر مجھ پر جیسے بجلی سے گرپڑی۔ اس لڑکے کو میری حالت پر اچنبھا ہوا۔ وہ مجھ سے کچھ پوچھنے کو ہی تھا کہ میں جلد ہی سنبھل کر وہاں سے بھاگ آیا۔

یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ یوں بھی ہوسکتا ہے۔ میں گرتا پڑتا گھر پہنچا۔ میں نے بے جان سا ہوکے اپنے کو پلنگ پر پٹخ دیا۔ نہ جانے کب تک میں بے حس پڑا رہا۔ جب ہوش آیا تو میرا جسم تنور کی طرح تپ رہاتھا۔ کئی دن تک میری یہی کیفیت رہی۔ والد نے میرے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ آئے دن نئے نئے ڈاکٹر حکیم مجھے دیکھنے آتے۔ والدہ دیر دیر تک سجدے میں پڑی میری صحت یابی کے لیے دعائیں مانگا کرتیں۔ اور طرح طرح کی منتیں مانتیں۔ آخر خدا نے مجھے شفا دی اور میں کوئی دو مہینے کے بعد بستر سے اٹھ بیٹھا۔

ان ہی دنوں ایسا اتفاق ہوا کہ والد کو اپنا کاروبار کسی دوسرے شہر میں منتقل کرنا۔ پڑا چنانچہ ہم سب ان کے ساتھ اس شہر کو خیرباد کہہ وہاں جابسے۔ اور اس طرح تبدیلی آب و ہوا سے میں رفتہ رفتہ بالکل اچھا ہوگیا۔

اس کے بعد جو دس برس گزرے، ان میں میں نے پتلی بائی کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ اس عرصے میں میں نے اپنی تعلیم مکمل کرلی، اور والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں نے اپنے لڑکپن کے عشق کو فراموش کردیا تھا یا اس عورت کی یاد میرے دل سے محو ہوگئی تھی۔ میں اب بھی درد محبت کی اس خلش کو محسوس کرتا تھا۔ میں اب بھی اکثر اس تصور سے دل بہلایا کرتا تھا۔ البتہ اب میرے دل کو صبر آگیا تھا اور اس کی یاد لذت بخش تھی۔

جب میری عمر پچیس برس کی ہوئی تو والد نے اپنے ایک عزیز دوست کی صاحب زادی سے، جو علاوہ قبول صورت ہونے کے پڑھی لکھی بھی تھی، میرے رشتے کی بات ٹھہرائی۔ مجھے شادی کی کچھ ایسی خواہش نہ تھی مگر والدین کی خوشی کے آگے میں نے سرجھکا دیا۔ شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جب شادی میں ایک مہینہ رہ گیا تو میں نے والد سے کہا کہ میں گرمیوں کے دو ہفتے اپنے ایک دوست کے پاس پہاڑ پر گزارنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کسی قدر تامل کے بعد مجھے اجازت دے دی۔ در اصل میں تاہل کے رشتے میں جکڑے جانے سے پہلے اپنی آزادی کے آخری دن فراغت سے گزارنا چاہتا تھا۔

وہ پہاڑی اسٹیشن جہاں میں اپنے دوست کے ہاں مہمان ٹھہرا تھا، اپنے پورے شباب پر تھا۔ موسم اتنا اچھا تھا کہ پچھلے کئی برس میں دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ چنانچہ چاروں طرف سے مخلوق ٹوٹ پڑی تھی۔ کوئی پورے سیزن کے لیے، کوئی دومہینہ کے لیے اور کوئی ہفتے ہی بھر کے لیے چلا آیا تھا۔ تمام ہوٹل اور مکان سیلانیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر مرفہ الحال لوگ تھے جو نشاط اور تفریح کی تلاش میں یہاں آئے تھے۔

ان کی بیٹیاں چست لباس پہن کر گھوڑے کی سواری کرتیں۔ لڑکے جوا کھیلتے۔ بیویاں شادی سے پہلے کے معاشقوں کے ہیروؤں کو، جن کے جذبات سرد پڑچکے ہوتے، رام کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ میک اپ کرتیں اور ان سے طرح طرح کے کام نکلوانے میں ہمہ تن مصروف رہتیں اور شوہر کلب میں اپنی جوانی کے پرانے دوستوں کے ساتھ مل کر وسکی پیتے اور ایک دوسرے کو فحش لطیفے سناتے رہتے۔ جوان لڑکوں اور لڑکیوں سے کہیں زیادہ ادھیڑ عمر والوں کے رومان چلتے، اور شادی بیاہ کے مرحلے طے ہوتے۔

میرا میزبان ایک عیال دار کاروباری شخص تھا۔ اس کو اپنے ہی جھمیلوں سے فرصت نہ تھی کہ میری طرف توجہ کرتا۔ چنانچہ اس نے مجھے بخوشی اجازت دے دی تھی کہ جہاں چاہوں جاؤں اور جب چاہوں آؤں۔ اگر کھانے کے وقت پر آجاؤں تو خیر ورنہ میرا انتظار نہ کیا جائے۔ اس طرح مجھے اس مقام پر آزادی سے گھومنے پھرنے کا خوب موقع مل گیا اور میں نے دس بارہ روز ہی میں خوب سیر وتفریح کرلی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
========================

ایک دن سہ پہر کومیں ایک لمبی سڑک پر، جو ایک اونچے پہاڑ کے گرد اگرد تقریباً ہموار چلی گئی تھی، چلا جارہا تھا کہ سامنے سے دو عورتوں کو آتے دیکھا۔ یوں تو اس سڑک پر ایک سے ایک فیشن ایبل عورت نظر آتی تھی، مگر ان کا انداز مختلف تھا۔ ان کے سنگھار اور لباس میں بھڑک کم اور سادگی زیادہ تھی وہ ہلکے رنگوں کی ساڑیاں پہنے ہوئے تھیں۔ ایک ہی نظر میں میں نے اپنے بچپن کی محبوبہ تھئیٹر کی ایکٹرس پتلی بائی کو پہچان لیا۔

ہرچند وہ اب ادھیڑ عمر ہوگئی تھی اور جسم میں کسی قدر بھاری بھرکم پن بھی آگیا تھا مگر سنگھار اور چست لباس نے ابھی تک اسے جوان بنائے رکھا تھا۔ اس کاحسن آج بھی ویسا ہی نظر فریب تھا جیسا کہ پندرہ برس پہلے میں نے دیکھا تھا۔ بال ویسا ہی سیاہی میں سنہراپن لیے ہوئے، چہرہ پہلے سے زیادہ دمکتا ہوا، وہی نشیلی نشیلی سی آنکھیں جو مجھے بے خود بنادیا کرتی تھیں۔ پھولوں سے اس کا شوق بدستور قائم معلوم ہوتا تھا، کیونکہ ڈیلیا کا ایک سیاہی مائل سرخ پھول اس کے جوڑے کی زینت تھا۔

اس کو دیکھ کر میں مبہوت رہ گیا، اور پھر لمحہ بھر ہی میں میرے دل میں اپنے لڑکپن کا خوابیدہ جذبہ عشق ایک طوفان کی طرح امنڈنے لگا۔ اب میں لڑکا نہیں تھا بلکہ پچیس برس کا ایک پورا جوان تھا۔ میرے احساسات اب مبہم نہیں رہے تھے بلکہ واضح اور زیادہ گہرے ہوگئے تھے۔ اب میں بخوبی سمجھنے لگا تھا کہ ایک مرد جب کسی عورت سے محبت کرتا ہے تو اس سے کیا چاہتا ہے۔

پتلی بائی کے ساتھ جو نوجوان لڑکی تھی وہ بھی حسن و جمال میں اس سے کسی طرح کم نہ تھی۔ بلکہ شباب نے اس کے حسن کو کچھ زیادہ ہی شاداب بنادیا تھا۔ لیکن مجھ کو اس کے حسن و شباب سے کیا غرض تھی۔ میری نظریں تو اپنی محبوبہ کے پیارے پیارے چہرے ہی پر گڑی ہوئی تھیں۔ ذرا سی دیر میں وہ دونوں میرے سامنے سے گزرگئیں۔ میں پلٹا اور میرے قدم مجھے بے اختیار ان کے پیچھے پیچھے لے گئے۔ تقدیر نے یوں غیر متوقع طور پر مجھے اس کے دیدار کا جو موقع دیا تھا، میں چاہتا تھاکہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھاؤں۔ اس کو جی بھر کے دیکھ لوں۔ پھر کون جانے کب دیکھنا نصیب ہویا ممکن ہے کہ شادی کے بعد میں اس کے خیال تک کو گناہ سمجھنے لگوں۔ لیکن ابھی تک تو میں آزاد تھا۔

وہ دیر تک اس سڑک پر چہل قدمی کرتی رہیں۔ میں بھی ان سے تھوڑی دور رہ کر ان کاتعاقب کرتا رہا۔ جب کبھی وہ سورج اور بادلوں یا نیچے پھیلی ہوئی وادی کا نظارہ کرنے ٹھہر جاتیں تو میں بھی رک جاتا لیکن اس طرح کہ میری بیگانگی کا بھرم قائم رہے۔ کبھی کبھی وہ سڑک کے کنارے زمین پر لگی ہوئی کسی دکان پر چیزیں دیکھنے ٹھہر جاتیں تو میں ان سے آگے بڑھ جاتا مگر تھوڑی ہی دور جاکر لوٹ آتا۔ اس طرح مجھے اپنی محبوبہ کا چہرہ اچھی طرح دیکھنے کا موقع مل جاتا۔

غروب آفتاب کے بعد وہ سیر سے لوٹیں اور تھوڑی دیر میں ایک متوسط درجے کے فیشن ایبل ہوٹل میں پہنچ گئیں۔ میں دل میں بہت خوش تھا کہ میں نے ان کی قیام گاہ کا پتہ لگا لیا ہے۔ اس سے زیادہ میں کچھ چاہتا بھی نہ تھا۔ نہ مجھے اس کے حالات معلوم کرنے کی خواہش تھی، نہ یہ جاننے کی کہ وہ تھئیٹر یکل کمپنی میں کام کرتی ہے یا اس پیشے سے الگ ہوگئی ہے۔ میں تو فقط اس کی صورت کادیوانہ تھا جیسے کسی کو آرٹ کی کوئی تصویر عزیز ہو۔

اگلے روز دیدار کی ہوس مجھے کشاں کشاں اس ہوٹل کی طرف لے گئی۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد جس کے دوران میں میں اس ہوٹل کے پچاسوں چکر کاٹ ڈالے ہوں گے، وہ دونوں پھر نمودار ہوئیں۔ آج انہوں نے اور ہی رنگوں کی ساریاں پہن رکھی تھیں۔ میں نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پھر تعاقب کا سلسلہ شروع کردیا، اور اس وقت تک پیچھا نہ چھوڑا جب تک انہیں واپس ہوٹل میں نہ پہنچادیا۔

تیسرے دن جو اس پہاڑ پر میرے قیام کا آخری دن تھا، میری بے قراری کچھ زیادہ بڑھ گئی تھی، اورمیں نے صبح ہی سے ہوٹل کا طواف شروع کردیا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب وہ نمودار ہوئیں اور کوئی گھنٹہ بھر تک دکانوں میں خرید و فروخت کرنے کے بعد وہ پھر ہوٹل میں پہنچ گئیں۔ میرے دل نے وہاں سے جانا گوارا نہ کیا اور میں نے وہ دن اسی ہوٹل کے پاس گزارنے کا فیصلہ کرلیا۔

سہ پہر کو چار بجے وہ پھر ہوٹل سے نکلیں۔ میں انتظار کرتے کرتے تھک کے چور ہوگیا تھا مگر اپنی محبوبہ کو دیکھنا تھا کہ اچانک مجھ میں پھر چستی و توانائی پیدا ہوگئی۔ چونکہ اسے دیکھنے کا یہ آخری موقع تھا اور میرا دل اس کے قرب کامتمنی تھا، اس لیے میں نے ساری احتیاطیں بالائے طاق رکھ کے ان کے قریب قریب ہوکے چلنا شروع کردیا۔ شام ہوچکی تھی۔ ہم ایک چھوٹی سی بل کھاتی ہوئی سڑک پر چلے جارہے تھے۔ نیچے میلوں تک وادی پھیلی ہوئی تھی جس پر دھندکی چادر گہری ہونی شروع ہوگئی تھی۔ دیوار کے اونچے اونچے درختوں کے لامتناہی سلسلے سڑک کے کنارے سے شروع ہوکے نیچے کھڈوں میں دور دور تک چلے گئے تھے۔ مغرب میں سرمئی بادل شفق کے لالہ زار پر چھائے جارہے تھے، اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا اور لوگوں کی آمد و رفت کم ہوچلی تھی۔ ہوا نرم اور سبک تھی۔ میں ایک نشے کے سے عالم میں بہا چلا جا رہا تھا۔ اس وقت میرے اور ان کے درمیان پانچ سات قدم ہی کافاصلہ رہ گیا تھا۔

اچانک ایک موڑ پر پہنچ کے پتلی بائی پیچھے مڑی اور مجھے گھورنے لگی۔ میرے قدم وہیں جم کے رہ گئے اور اتنی ہمت نہ ہوئی کہ ان کے پاس سے گزرجاؤں۔ وہ نہایت غصے میں تھی۔ اس کی آنکھوں سے قہر و غضب برس رہا تھا۔ اس نے بلند آواز میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے، گویا وہ اسٹیج پر ایکٹ کر رہی ہو مجھ سے کہا: ”بدمعاش تو میری بیٹی کا پیچھا کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ میں تجھے پولیس کے حوالے کردوں گی۔ “

مجھے چکر آگیا۔ اگر میں جلدی سے ایک درخت کی ٹہنی کو نہ تھام لیتا تو میرا کھڈ میں گرپڑنا یقینی تھا۔ خدا معلوم وہ لوگ کب اور کدھر چلے گئے۔ خدا معلوم میں کب اور کس راستے سے اپنے ٹھکانے پر پہنچا۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن اپنے بچپن کے اس رومان کی یاد سے جی بہلانے کی میرے دل میں پھر کبھی خواہش پیدا نہ ہوئی۔

اس سیریز کے دیگر حصےنام دیو مالی: مولوی عبد الحق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments