ارہر کا کھیت: رشید احمد صدیقی


ارہر کا کھیت دیہات کی زنانہ پارلیمنٹ ہے۔ کونسل اور اسمبلی کا تصور یہیں سے لیا گیا ہے گاؤں کا چھوٹا بڑا واقعہ یہاں معرض بحث میں آتا ہے۔ فلاں کی شادی کب اور کہاں ہو رہی ہے۔ داروغہ جی کیوں آئے اور کیا لے کر گئے۔ پٹواری کی بیوی نے اس سال کون سے نئے زیور بنوائے۔ رکمینا کے بچے کیوں نہیں پیدا ہوتے اور سکھیا کے حمل کیسے ٹھیرا۔ ایک نے کہا میری گائے کے بچھیا ہو گی۔ دوسری بولی پہلوٹھی کی بچھیا ہو چکی ہے اب کے بچھوا ہوگا۔ اس پر اختلاف آرا ہوا اور ہمارے لیڈروں کی طرح دونوں بھول گئیں کہ دراصل کس شغل میں مصروف تھیں اور اب کیا ہو رہا تھا۔ ایک غوغا بلند ہوا۔ بھگدڑمچ گئی۔ کھیت کے چاروں طرف سے مرد عورت بچے، گیدڑ، کتے، لومڑی، بن بلاؤ نکلنے بھاگنے لگے، جیسے اسمبلی میں بم گرا ہو۔

ایک روز مقررہ وقت سے نصف گھنٹہ پہلے کلاس پہنچ گیا۔ معلم کی حیثیت سے کلاس میں تنہا پایا جانا پانے والوں کے لیے بڑی دلچسپی کا موجب ہوتا ہے۔ جیسے کسی غیر متوقع مقام پر کسی نادرالوجود جانور کا ڈھانچہ مل جانا۔ ایسی صورت میں ہر اس گزر جانے والے کو مخاطب کرنا اور اس سے اظہار برتری کرنا ضروری ہو جاتا ہے جس کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ یہ ہماری ہیت کذائی پر سوچنے کا اہل ہے۔ اس اثنا میں ایک کتا سامنے سے گزرا اور ہم نے اس طرح سے للکارا اور آمادۂ ”نقص امن“ ہوئے گویا اردو پڑھانے کے علاوہ یونیورسٹی نے ہم کو کتوں کے دفعیہ کے لیے تھا نہ دار بنا دیا تھا۔

پھر ایک بہشتی سامنے آ گیا۔ ہم نے انتہائی سر پرستانہ لہجہ میں پوچھا کیوں، اس طرف کا دروازہ کھل جانے سے تم لوگوں کو آنے جانے میں بڑی آسانی ہو گئی ہوگی؟ اس نے نہایت انکسار اور متشکرانہ انداز میں ہامی بھری۔ ابھی یہ تکلفات ختم نہیں ہوئے تھے کہ ایک خوانچہ والا دکھائی دیا۔ بولا میاں اس دروازے کی کنجی آپ ہی کے پاس رہتی ہے۔

دروازہ کھلنے سے بڑا آرام ہو گیا۔ (خوانچہ کے اندر جو سر پر رکھا ہوا تھا کچھ ٹٹولتے ہوئے ) خدا آپ کو سلامت رکھے یہ لیجیے بریلی کا بڑا تحفہ امرود ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ یونیورسٹی نے معلمین کے لیے کس مصلحت کی بنا پر گاؤن پہننا ضروری قرار دیا ہے۔ اتنے میں ایک طرف سے حاجی بلغ العلا اس طور پر جھپٹتے ہوئے نکلے گویا کملی اور داڑھی کے علاوہ

عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے
حاجی صاحب کا عربی نام ”بلغ العلے ٰ“ اور فارسی ”جریب زیتونی“ ہے، کچھ لوگ ”سابق دیوانہ ہمدرد“ ”حال ابولوالجنون“ کہتے ہیں۔ کچھ دونوں۔ خشت النپرایہ، پرزور لگاتے ہوئے ان دنوں ”قانون مسعودی“ کا ترجمہ کر رہے ہیں۔

ملتے ہی فرمانے لگے جلدی سناؤ جلدی۔ میں نے کہا کیا؟ فرمایا کوئی اچھا سا شعر۔ میں نے کہا مثلاً
وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد سے مردے نکل پڑے
یہ مری جبین نیاز تھی کہ جہاں دھری تھی دھری رہی!
گردن ہلا کر ”بجلوہ ریز ئی کملی“ و ”بہ پر فشانئی ریش سکوت سخن شناس“ کا اظہار کیا میں نے کہا کوئی موضوع بتائیے تو مضمون لکھوں۔ فرمایا۔

”ارہر کا کھیت“
دریافت کیا کیوں جناب! اس شعر کا یہ معاوضہ، سخن فہمی کی داد دیتا ہوں، کملی کو حاجی صاحب نے جناب ”کراماً، کے سر سے اٹھا کر“ کاتبین پر ڈال دیا (میں نے سہولت کی خاطر ان ”تسمہ پا“ بزرگوں کے نام علیحدہ کر دیے ہیں ) اگر کوئی صاحب ان کے نام و نشان، حسب نسب وطن اور مشاغل کی بابت اپنا ذخیرۂ معلومات وسیع کرنا چاہتے ہوں تو نیاز صاحب سے رجوع کریں۔ امید ہے کہ نیاز صاحب باب الاستفسار کے ’جن‘ نمبر میں اس پر اظہار خیال فرمائیں گے۔ فرمایا نواب صاحب کہاں ملیں گے۔ میں نے کہا نواب مزمل اللہ خاں صاحب کو یہ شعر سنائیے گا۔ کہنے لگے نہیں جی وائس چانسلر صاحب، نواب مسعود یار جنگ صاحب بہادر، میں نے کہا ان کو سنانا ہے تو پھر یہ سنائیے گا۔

ترا کہ زور ببازوئے تیغ زن با قیست
بگیر تیغ کہ آں حسرت کہن باقیست
فرمایا یہ کیا، میں نے کہا اس لیے کہ
من آں علم و ہنر را باپر کا ہے نمی گیرم
کہ ازتیغ و سپر بیگانہ سازو مرد غازی را!

حاجی صاحب قبلہ نے کچھ اکتا کر، کچھ بے اختیار ہو کر فرمایا ارے میاں یہ سب تو ہوا۔ کلاس میں بیٹھ کر تمھارا لکچر سنوں گا۔ میں نے کہا اور کلاس کی ڈسپلن کا کون ذمہ دار ہو گا۔ فرمایا، السلام علیکم!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments