علمائے دین: میڈیا پر ترجمانی کے اصول


\"alamullah\"

گزشتہ دنوں میں نے سوشل میڈیا پر ایک نوٹ پوسٹ کیا تھا، جس میں ملت اسلامیہ ہند کے قائدین کو میڈیا میں گفتگو کے طریقہ کار پر غور و فکر کی دعوت دی تھی اور یہ عرض کرنے کی کوشش کی تھی، کہ ہمارے قائدین اپنی بات میڈیا میں کیسے پیش کریں، کہ اُن کی بات زیادہ موثر، کار آمد اور فہم و فراست پر مبنی ہو۔ اس میں مَیں نے یہ بتانے کی کو شش کی تھی، کہ میڈیا خصوصاً ٹیلی ویژن کے ذریعے اُنھیں اپنی بات کہنے کے لیے تربیت لینے کی ضرورت ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ہم کسی بھی پروفیشنل کورس، آرٹ یا فن کو سیکھنے کے لیے لیتے ہیں۔ اس پوسٹ پر نوجوانوں اور بزرگوں کے علاوہ ہند و پاک کے میڈیا سے وابستہ متعدد احباب نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا اور بعض نے یہ بھی کہا، کہ اس پر مزید تفصیل سے روشنی ڈالی جائے۔

میری یہ گفتگو اسی تمہید کی تفصیل ہے۔ اس ضمن میں سلسلۂ کلام کو آگے بڑھانے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پر پیش کیے گئے اقتباس کو یہاں نقل کر دیا جائے، تاکہ اسی کی روشنی میں بات آگے بڑھائی جا سکے۔ سوشل میڈیا پر تحریر کیے گئے پوسٹ کے الفاظ کچھ یوں تھے۔

”ہمارے ملی قائدین کو اس بات کی تربیت لینے کی سخت ضرورت ہے کہ وہ میڈیا میں اپنی بات مختصرا اور ٹو دی پوائنٹ کیسے رکھیں۔ جہاں بات منٹوں میں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں نمٹانا پڑتی ہے، لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب ہمارے ملی رہنماؤں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور وہ میڈیا میں گفتگو کے لیے آتے ہیں، تو وہ یہ نہیں سمجھ پاتے، کہ ان کی گفتگو مسجد کے منبر و محراب سے نہیں بلکہ کسی چینل سے ہو رہی ہے، جن کے پاس آپ کی باتوں کے علاوہ بھی ایک دو نہیں ہزاروں خبریں موجود ہیں۔ آر ایس ایس، بی جے پی یا اس قبیل کے دوسرے نظریاتی افکار کے حامل افراد جن سے ہمیں اختلاف ہے، ہم ان پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن یہ کوشش نہیں کرتے کہ اس فن میں ان کی حکمتوں کو اپنائیں، کہ ہمارا مذہب خود ہمیں سکھاتا ہے کہ اچھی حکمت جہاں کہیں بھی ملے پکڑ لو کہ یہ مومن کی میراث ہے۔ بلاشبہ میڈیا میں کچھ افراد اور حلقے ایسے افکار کے حامل ہیں، جو ابلیسی نظام کے کارندے کہے جانے کے مستحق ہیں اور جن کا مقصد اپنی غلط بات کو بھی سچ ثابت کرنا ہے۔ جس کے لیے تیز آواز میں بات کرنا، بدتمیزی کرنا، دوسرے کا موقف واضح نہ ہو، اس لیے شور مچانا، چیخنا چلانا ان کا شیوہ ہے۔ اس میں یہ عناصر بہت آگے آگے رہتے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود جب ذکر بحث مباحثے یا دلیل کی آتی ہے، تو وہ کس قدر تیار ہوتے ہیں؟ اپنے موضوع پر کس طرح ان کی گرفت ہو تی ہے؟ یہ دیکھنا اور جاننا ہمارے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ سب ملی قائدین کو بھی سیکھنا ہوگا، تبھی وہ اپنی بات احسن طریقہ سے آگے پہنچاسکیں گے‘‘۔

گزشتہ کئی سالوں سے اس میدان میں رہ نوردی کے بعد میں نے اس بات کو بہت شدت سے محسوس کیا ہے کہ ملی قائدین اپنی بات کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ موثر انداز میں پہنچانے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ ملی تنظیموں، اداروں اور قائدین کی جانب سے دسیوں صفحات پر مشتمل پریس ریلیز اخبارات کو ارسال کر دینا، جہاں معمول کی بات ہے، وہیں میڈیا میں گفتگو کرنے کا ان کا انداز اور رویہ بھی جدید طریقوں سے میل نہیں کھاتا۔ چوں کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی پیدا کرنا نہیں چاہتے، اس لیے بسا اوقات اپنی مضحکہ خیز باتوں سے خود ہی خبر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یا لاعلمی کی وجہ سے دوسروں کو خود پر تنقید کا موقع فراہم کر دیتے ہیں۔ طلاق، خلع، دہشت گردی، برقع، گائے ذبیحہ جیسے معاملوں میں ان کی ناکام نمایندگی اس کی چند مثالیں ہیں۔

میں نے متعدد پریس کانفرنسوں، جلسوں، خطبوں اور سیمناروں میں بہت سے علما اور قائدین کو سنا ہے۔ ان کی علمیت و معتبریت پر شک بھی نہیں ہے، لیکن اُس میں اور اِس میں بہت فرق ہے۔ دونوں کے مزاج اور انداز میں تفاوت ہے۔ زمین و آسمان جیسا فرق۔ سمپوزیم، دھرنا، احتجاج، درس و تدریس میں لوگوں کے پاس بہت وقت ہوتا ہے، ناظر یا سامع پہلے ہی سے اس کے لیے مزاج بنا کر شریک ہوتے ہیں، کہ وہ انھیں اتنے گھنٹے، اور اتنی دیر سنیں گے۔ لیکن یہاں (میڈیا میں ) معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہوتا ہے۔ اِس میں محض چند سکینڈ میں اپنی بات کہہ دینی ہوتی ہے۔ ایسے کہ جو سب کو سمجھ بھی آ جائے۔ یہاں حکمت کے ساتھ فن کاری اور چابک دستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کلیہ میں استثنا ہوتا ہے، کچھ قائدین ایسے ہیں بھی جو اپنی بات رکھنے کا سلیقہ جانتے ہیں، مگر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔

خیال رہے یہاں بات صرف چینل میں ہونے والے، بحث مباحثہ، مذاکرہ یا مناقشہ کی نہیں ہو رہی، بلکہ اس میں خبر اور اس کے وہ تمام ذرائع شامل ہیں، جو میڈیا والوں کے لیے دل چسپی کا سامان رکھتے ہیں۔ دھرنا، جلوس، سماجی، سیاسی مسائل، اس پر رد عمل اور وہ سب کچھ جو حصول خبر کے ذرائع میں آتے ہیں۔ ان تمام میں دیکھا یہی گیا ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے قائدین بیش تر بری طرح ناکام رہتے ہیں۔ جس کا نظارہ صرف چینل تک ہی محدود نہیں رہتا، بلکہ وہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس، متعدد مجلسو ں اور گروپوں میں بھی اپنی اور قوم کی جگ ہنسائی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ خود ہم میڈیا سے وابستہ حضرات جب ڈیسک پر ایسی باتوں کو ایڈٹ کرا رہے ہوتے ہیں، اس وقت کس قدر صبر آزما اور اذیت ناک مرحلے سے گزرتے ہیں، اس کا تذکرہ یہاں نہیں کرنا چاہتے کہ یہ موضوع کا حصہ بھی نہیں ہے، لیکن یہ کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ ان کے رویے اور طریقہ کار کی وجہ سے بھی میڈیا میں ان کو الگ تھلگ کردیا جاتا ہے۔ کبھی تو انھیں اور ان کے مسائل کو یکسر نظر انداز کر دینے کی شکل میں، تو کبھی تربیت یافتہ افراد کی کم تلاشی کی صورت میں۔ کچھ میڈیا گھرانے عصبیت میں بھی مسلمانوں کے مسائل سے تجاہل عارفانہ برتتے ہیں، لیکن ہمیشہ ایسا ممکن نہیں ہوتا اور وہ چاہ کر بھی خبروں کو دبا نہیں پاتے۔ ایسے موقع پر خصوصا ملی قائدین سے رابطہ کیا جاتا ہے اور وہ میڈیائی ضرورتوں کو بروئے کار نہیں لاتے تو خبریں یا رد عمل اس انداز میں نہیں جا پاتیں، جس طرح جانی چاہئے۔ میڈیا والوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ آپ کی طویل گفتگو کو سنیں اور اس کو انتہائی مختصر سے وقفے میں ایڈٹ بھی کر لیں۔ پھر وہ بھی اس بات پر مجبور ہوتے ہیں کہ آپ کی متنازع باتوں ہی کو لیں جو آپ اپنے بھولے پن، بے وقوفی یا لا علمی میں کر جاتے ہیں اور جو نیوز ایجنسیوں کے ذریعے ڈیسک تک پہنچتی ہیں۔

یاد رکھیں میڈیا میں اپنی بات رکھنا ایک فن ہے اور کوئی بھی فن بغیر مشق یا ممارست کے ہاتھ نہیں آتا۔ یہاں جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہوتا ہے۔ اس کے لیے جہاں مطالعہ ضروری ہوتا ہے، وہیں یاد داشت کی پختگی، تاریخ سے واقفیت، حالات حاضرہ سے آگاہی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی، سنجیدگی، بر جستگی، متانت، دلیل، قانون دانی اور بہت سے دیگر اوصاف سے متصف ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابلاغ کے لیے زبان بھی ایسی استعمال کرنا ہوتی ہے، جسے عام لوگ سمجھ سکیں۔ یہاں آپ کو یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ چینل کو ایک صاحب علم کے ساتھ ایک عام آدمی بھی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اس لیے ایسی زبان استعمال کرنا چاہیے جو سب سمجھ سکیں۔ بھاری بھرکم اصطلاحات اور نامانوس الفاظ سے بچنا ضروری ہے۔ علما اکثر اس قدر ثقیل عربی اور فارسی سے مرکب زبان استعمال کرتے ہیں، کہ کبھی کبھی صحافی اور اینکر بھی ان کی بات نہیں سمجھ پاتے۔ یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ میڈیا میں خاص کر کیمروں کے سامنے کیسے بیٹھا جائے۔ تھکاوٹ، بے زاری، اونگھنا، نیند، جمائی سے کس طرح اجتناب کیا جائے۔ کیسے آنکھ، کان، ناک اور بدن کے مختلف حصوں کو نہ کھجایا جائے۔ چشمہ، ٹوپی، کرتا، کالر وغیرہ کو بار بار آن اسکرین ٹھیک نہ کریں۔ اس سے ناظرین پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح کیمرے کے سامنے آتے ہی بالکل پتھرکی مورت بھی نہ ہوجائیں کہ آپ کی تصویر غیر ذی روح معلوم ہونے لگے۔

کچھ مزید امور دھیان میں رکھنے کے ہیں کہ جب بھی آپ سے کوئی صحافی کچھ سوال کرے پہلے تو اس پر تھوڑا غور کریں، سمجھ میں نہ آئے تو دوبارہ پوچھ لیں، یا مزید وضاحت کی درخواست کریں، یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، جتنا اور جو پوچھا جائے اسی کا جواب دیں۔ بات کو بے وجہ گھما پھرا کر، سیاق و سباق سے سمجھانے کی کوشش نہ کریں۔ اگر پریس کانفرنس یا ماس میڈیا سے مخاطب ہونے جا رہے ہیں، تو کوشش کیجیے کہ ایک نہیں دو چار لوگ ہوں، جو موضوع پر اچھی گرفت رکھتے ہوں۔ کچھ قانونی ماہرین بھی ساتھ ہوں تو اچھا ہے۔ پریس کانفرنس میں مختلف قسم کے سوالات آتے ہیں، اگر کوئی ایسا سوال آ جائے جس کا جواب نہ بن پڑے، تو آپ ایک دم سے پریشان نہ ہو جائیں، بلکہ اپنے سوال کا رخ اپنے دوسرے معاون کی جانب کر دیں۔ کبھی کبھی صحافی اپنی بات آپ کے حلق میں ڈال کر آپ سے وہ بات کہلوانا چاہتا ہے جو وہ سوچ رہا ہوتا ہے، یا اس نے اپنی اسٹوری کو ایک شکل دینے کے لیے پہلے ہی سے اپنے ذہن میں جواب تلاش کر لیا ہوتا ہے، تاکہ وہ خود قانونی چارہ جوئی سے بچ سکے یا اپنی خبر کو مزید سنسنی خیز بنا سکے۔ اس طرح کی چیزوں اور رویوں سے چوکنا رہیں۔

ایسے ہی مواقع ہوتے ہیں، جب آپ کو بہت حاضر دماغ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ ہر سوال کا جواب دیں ایسا کوئی ضروری بھی نہیں ہے۔ نہ سمجھ میں آئے تو ”بعد میں ملیے، ہمارے آفس آئیے، پروگرام کے بعد تفصیل سے بات کرتے ہیں“ جیسے جملے کہہ کر آپ اس کو ٹال دیں۔ بہتر ہے کہ ہر ملی تنظیم، کم از کم بڑی تنظیمیں اپنے میڈیا ترجمان رکھیں۔ ان کو تربیت دیں۔ ہر کوئی میڈیا کے سامنے نہ آئے تو بہتر ہے۔ جب آپ میں سے کسی سے، کسی بھی مسئلے پر بات چیت کے لیے میڈیا کی جانب سے رابطہ کیا جائے، اور آپ اس موضوع کے ماہر نہیں ہیں تو کسی دوسرے ماہر سے ان کا رابطہ کرائیں۔ بات کرنے والے کی رہنمائی کریں۔ آپ کی نظر میں کوئی مناسب شخص جو اس کا جواب دے سکتا ہو، یا اس نے اس موضوع پر کام کیا ہوا ہو، تو اس تک کیسے پہنچا جائے، اس سے رابطے کے وسائل بتائیں، تاکہ ملت کے مسائل بہتر انداز میں میڈیا میں جا سکیں۔

بحث مباحثے میں حصہ لینے جا رہے ہوں تو پینل میں اور کون کون لوگ ہیں، یہ پوچھ لیں۔ اس سے آپ کو موضوع پر تیاری کرنے میں مدد مل جائے گی۔ مباحثے سے متعلق خبر اور مواد پہلے دیکھ لیں۔ پانچ دس مجوزہ سوالات بھی ذہن میں قائم کر کے اس کے جوابات بہتر انداز میں تلاش لیں۔ ممکن ہو تو چھوٹے چھوٹے نوٹس بنا لیں۔ محض وکی پیڈیا پر انحصار نہ کریں۔ کچھ اور معتبر ذرائع بھی دیکھ لیں۔ گزٹیر، مردم شماری رپورٹ، گزشتہ، پیوستہ سالوں کے پیشانی، اخبارات کے تراشے، مضامین، تاریخی حوالہ جات وغیرہ کی تیاری کا اہتمام کریں۔ وقت ہو تو ماہرین سے چیدہ چیدہ نکات پر بات کر لیں۔ آج کل فون، واٹس ایپ وغیرہ اس کے بہترین ذرائع ہیں۔ اسمارٹ فون ساتھ رکھیں جس میں انٹرنیٹ بھی ہو۔ اس کا استعمال کرنا سیکھیں تاکہ ضرورت کے وقت آپ اس سے بہتر طور پہ استفادہ کرسکیں۔ جدید ذرائع ابلاغ ٹویٹر، فیس بک، انسٹا گرام سے خود کو جوڑیں۔ دیکھیں دنیا میں کیسے کیسے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اگر اس مسئلے پر گفتگو کی جائے گی تو اس کا کیا جواب ہو گا۔ اخبارات، رسائل و جرائد نیز نئی نسل کا اس بارے میں کیا رجحان ہے۔ عام طبقہ اس بارے میں کیا سوچتا ہے۔ اس سے ملک اور قوم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے کیا فوائد ہو سکتے ہیں اور کیا نقصانات۔ یہ سب جاننے کی کوشش کریں گے، تو پریشانی میں نہیں پڑیں گے۔

یاد رکھیں یہ زمانہ ’اسپسلائزیشن‘ کا ہے۔ ہر میدان یا ہر فن سب کے لیے نہیں ہوتا۔ کچھ چیزیں خداداد بھی ہوتی ہیں بس انھیں نکھارنا پڑتا ہے۔ اس سے دل چسپی رکھنے والے افراد کی چھان بین کرنا پڑتی ہے۔ آپ میں سے بات میڈیا میں کون بہتر انداز میں رکھ سکتا ہے، اس کی تلاش کریں۔ نوجوانوں کو مواقع فراہم کریں۔ ان کو تربیت دیں۔ اس پر خرچ کریں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ چیزیں ہر ایک کے لیے نہیں ہوتیں، لیکن جو آپ کی ترجمانی کر رہا ہے، اسے ان ذرائع کے استعمال اور معلومات فراہم کرانے کی ضرورت ہے۔ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آپ کا ترجمان ایک سے زائد زبانیں جانے اور ان زبانوں کے اخبارات، رسائل و جرائد مستقل اپنے مطالعے میں رکھے۔ اس سے الگ الگ خیالات اور اپروچ کو جاننے کا موقع ملے گا۔ زمانے کا یہ رنگ ہے کہ دوسروں کی باتوں کو بھی سنیے، جانیے اور اہمیت دیجیے۔ لوگ بھی آپ کو اہمیت دیں گے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments