یوم تشکر، شبِ استغفار اور عمران خان


\"farnood-01\"حق تو یہ تھا کہ آج شبِ توبہ منائی جاتی، کلمات استغفار ادا کئے جاتے، اب اگر بات یوم تشکر سے بن رہی ہے تو چلیے تشکر ہی سہی۔ تشکر کے اس جھمیلے میں تفکر کے کچھ لمحے بھی دریافت کر لیے جائیں تو کیا برا ہے۔

عمران خان صاحب کے ہاتھ باگ پہ ہیں اورنہ پاوں رکاب میں ہیں۔ ہرانگلی کو انگشتِ شہادت سمجھ بیٹھے ہیں اور ہر تسمہ دار بوٹ کو الہ دین کا چراغ۔ ہر بار ادھار کی بندوق میں چٹل کار توس بٹھا کر اعلان فرماتے ہیں کہ غالب کے پرزے اڑیں گے، خلقت پہنچ جاتی ہے مگر تماشا نہیں ہوتا۔ دو باتیں کسی نے غلط تعلیم کر دی ہیں۔ ایک یہ کہ اچھی شہرت میسر ہو تو کار حکمرانی پہ تنہا آپ کا حق ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر عوامی تائید اتنی بھی میسر ہو کہ آپ ایک سڑک بند کرسکیں تو حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کا حق آپ کو حاصل ہوجاتا ہے۔ غلط ہے، سراسرغلط ہے۔ آپ نیک نام ہیں کہ بدنام، عوام کے ہاتھ پشت پر نہ ہوں تو سیاست کا کوہ ہمالیہ سر نہیں کیا جاسکتا۔ کرکٹ اور سیاست کا اپنا اپنا چلن ہے۔ میدانوں اور ایوانوں کے اپنے اپنے تقاضے۔ کرکٹ میں امپائرکی انگلی فیصلہ کرتی ہے، سیاست میں مگر فیصلہ شہری کا انگوٹھا کرتا ہے۔ جنگ کے میدانوں میں فیصلہ بُلِٹ سے ہوتا ہوگا، مگر سیاست کے ایوانوں میں فیصلہ بیلٹ سے ہوتا ہے۔ فیصلہ ٹھیک ہے یا غلط، اس پر بحث ہوتی رہنی چاہیئے، مگر حتمی فیصلہ تو جمہور کا ہوگا۔

جنرل پرویز مشرف تک سے اختلاف فقط اصول کا ہے۔ ایسے کسی پرویز مشرف کا آئینی احترام ممکن نہیں جس نے منتخب وزیر اعظم کو زندانوں میں پھینک کر اقتدار پہ قبضہ کرلیا تھا۔ البتہ ایسے کسی بھی پرویز مشرف کے لیے دیدہ و دل فرش راہ، جو ایک سیاسی جماعت کا سربراہ ہو۔ فوج میں اگر آپ نے نام کمایا ہے، اب حالات سے نالاں ہیں، تبدیلی چاہتے ہیں، تقدیر بدل دینا چاہتے ہیں، اپنی شہرت بروئے کار لانا چاہتے ہیں تو چشم ما روشن دل ما شاد۔ عوام میں آیئے، بات کیجیے، قائل بہ فہم کیجیئے، مائل بہ کرم کیجیئے، طبل بجنے کا انتظار کیجیے۔ جمہور اگر انگوٹھا ثبت کردیتی ہے تو کس کافر نے ہاتھ روکا ہے۔ ایئر مارشل اصغر خان کا رستہ کسی نے روکا تھا کیا؟ جنرل حمید گل مرحوم کو کیا کسی نے ڈی چوک آنے سے منع کیا تھا؟ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو سیاسی جماعت بنانے اور انتخابات میں حصہ لینے سے کسی نے ٹوکا تھا؟ کیا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب پہ کوئی معترض ہے کہ وہ سیاست میں کیوں آئے؟ آیئے، سب آیئے کہ جمہوریت کی دستاویز یہی پکارتی ہے۔ ایک بات کا دھیان مگر رہنا ضروری ہے۔ اگر ایئر مارشل اصغر خان کے نمائندے انتخابات میں پٹ جاتے ہیں، جنرل حمید گل صاحب کی آواز پر ان کے فرزند اور دختر نیک اختر کو ملا کر چھ افراد باہر نکلتے ہیں، پرویز مشرف کو چترال کے حلقے سے ایک نشست کی امید ہو اور وہاں بھی ہار جاتے ہیں، ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتخاب والی شام خالی ہاتھ لوٹتے ہیں اور جناب افتخار چوہدری صاحب کی آواز کو لوگ درخور اعتنا نہیں سمجھتے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ عوام کے بیچ پارسائی کا ایک خط کھینچ دیں۔ کسی بھی جماعت کے ووٹر کو گالی دینا، جمہورکے فیصلے کو جہالت کہنا، اپنے ووٹروں کو خدا کا منتخب طبقہ کہنا دراصل اس پیدائشی حق کی تذلیل ہے جوخود آپ کو میسر ہے۔ سیاست میں اٹل حقیقت جمہور کا فیصلہ ہے۔ حق حکمرانی اس کا نہیں جو خود کو خدا کا منتخب کہتے ہیں، فقط اس کا ہے جسے عوام منتخب کرتے ہیں۔

یہ عین ممکن ہے کہ سماج کا فیصلہ غلط ہو۔ غلط فیصلے کا تجزیہ ہونا چاہیئے۔ ممکن ہے سماج ناخواندگی کے سبب غلط فیصلہ کررہا ہو۔ ممکن ہے سیاسی شعور کی کمی کارفرما ہو۔ ممکن ہے کسی بھی سبب سے عوام آپ کی بات سمجھنے سے قاصر ہو۔ سبب کچھ بھی ہو، آپ فیصلے پر سر پیٹنے کا حق تو رکھتے ہیں مگر فیصلے کا حق چھیننے کا اختیار نہیں رکھتے۔ آپ ان اسباب کے سد باب پر توانائیاں صرف کریں جس کے سبب نظام میں اور عوام میں کجی ہے۔ ہر فورم پر آواز اٹھایئے، مگر حکومت چلنے نہ دیں یہ بجائے خود ایک جبر ہے اور ناانصافی۔ استبداد تو اکثریت کا قبول نہیں کیا جاسکتا چہ جائیکہ مسترد ہونے والے قہر بن کے ٹوٹیں۔ سڑکیں بند کردینے کی طاقت اس بات پر دال نہیں کہ خلق خدا آپ کے ساتھ ہے۔ کون سی جماعت ہے جو شہر کا محاصرہ نہیں کرسکتی۔ مولانا سمیع الحق صاحب کی جے یو آئی ہو، مولانا عبدالعزیز کی لال مسجد ہو، صوفی محمد کے عقیدت مند ہوں یا شیخ رشید کا ایک حلقہ انتخاب، کس میں صلاحیت نہیں کہ وہ کاروبار زندگی کو معطل کردے؟ سکندر نامی ایک فاترالعقل شہری نے گھنٹوں اسلام آباد کو یرغمال بنائے رکھا تھا۔ پیرافضل قادری قمیص اتار کر شاہراہ دستورپہ بیٹھ جائیں یا جے سالک اپنا پنجرہ لے کر جی ٹی روڈ پہ آجائیں توخلل کیوں نہیں پڑے گا؟ ابلاغ اور فقط ابلاغ۔ اپنی بات کا ابلاغ کیجیئے اور فیصلے کے دن کا انتظار۔ ہر راستہ جو اس کے سوا ہے، وہ نظم اجتماعی کے لیے تباہ کن ہے۔ کچھ بھی گوارا کیا جاسکتا ہے، نظم اجتماعی پہ سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔

عمران خان صاحب کے سیاسی کردار پہ کوئی حرف گیر نہیں۔ سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے کا، عوام سے رابطہ کرنے کا، بات کرنے کا، اپنے خلوص کی قسم اٹھانے کا، اپنی نیک نامی کا واسطہ دینے کا اور انتخابات میں جانے کا انہیں حق تھا جوانہوں نے بھرپور استعمال کیا۔ اول اول کوئی نشست نہیں تھی، عرصے تک ایک نشست پہ رہے، اب ایک سالم صوبے کا اقتدار ان کے پاس ہے۔ برسوں کی محنت کا اتنا نتیجہ کیا کم ہے کہ عمران خان صاحب کو ایک صوبے میں وہ سب ثابت کرنے کا موقع میسر ہےجو وہ اٹھارہ برس سے کہتے آئے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کو عوام نے مسترد کردیا۔ ہوں گے بدعنوان، مگر دھاندلی کا الزام دھرے بغیر کنجیاں آپ کو سونپ کر چلے گئے۔ صوبے میں سیاہ و سفید کے آپ مالک ہیں۔ شہری آپ کو در خیبر پہ نئے نقش جماتا دیکھنا چاہتے ہیں مگر آپ تخت لاہور میں کیل ٹھونک رہے ہیں۔ ووٹر نے آپ کو دو چار تازہ پھول لینے پشاور بھیجا تھا آپ سسی کا بھمبھور لوٹنے سندھ پہنچے ہوئے ہیں۔ بروئے کار آنے کی بجائے بجٹ واپس آ رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات ہوئے مدت ہوگئی، اختیارات ابھی تک منتقل نہیں ہوئے۔ صوبے کے وزیر اعلی سرکاری ہیلی کاپٹر میں سرکار کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ صرف اس بات پر کہ پولیس نے ناکے لگائے، پرویز خٹک صاحب فرماتے ہیں کہ پختونوں کے خلاف سازش ہورہی ہے۔ اور یہ کہ باز آجاو کہیں ہم کوئی اور نعرہ نہ لگا دیں۔ سیاست میں آپ احتجاج کے لیے لاک ڈاون جیسی بھیانک اصطلاح متعارف کرواتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ہمیں احتجاج کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ نظام میں درستی آپ کا حق ہے، مگر ہے کوئی رجل رشید جو خان صاحب کو یہ بتائے کہ آئندہ انتخابات میں عوام نے آپ سے یہ قطعاً نہیں پوچھنا کہ پنجاب میں آپ نے کیا کیا؟ سوال صرف ایک ہوگا کہ پختونخوا آپ کو سونپا تھا، پختونخوا کا کیا بنا۔ اگلا انتخاب دوسروں کی غلطیوں پر جیتنے کا حق اب آپ کھوچکے ہیں، اب یہ معرکہ اپنی خوبیوں پر سر کرنا ہوگا۔ اب بھی اپنے دائرہ کاراور دائرہ اختیار میں لوٹ جائیں تو دوہزار اٹھارہ میں حقیقی سجدہ شکر بجا لانے کا کچھ امکان پیدا ہوسکتا ہے، ورنہ توبہ کا دروازہ تو کھلا ہی ہے۔ استغفار کا در بند نہیں ہوتا، جو کرلے اس کا بھی بھلا، جو نہ کرے اس کا بھی بھلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments