تبلیغی جماعت…. اور کوئی کام بھی نہیں آتا


\"farhanaفرحانہ صادق

ایک خبر کے مطابق حکومت نے تبلیغی جماعت کو تعلیمی اداروں میں اپنی سرگرمی سے روک دیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے شاعر غلام محمد قاصر نے کہا تھا

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

ویسے تو ایک عمومی خیال یہ بھی گردش میں ہے کہ تبلیغی جماعتوں پر کسی بھی طرح کی پابندی کا کوئی حکم عملی معنوں میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ، اور ان میں سے کوئی بھی جماعت اپنے گھروں کو واپس نہیں آئے گی…. کیونکہ تبلیغی جماعت کا رویہ اور طریقہ ایسا ہے جس میں کوئی منطقی یا قانونی رکاوٹ پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم اگر بالفرض ان میں سے کچھ جماعتیں واپس آ بھی جاتی ہیں تو یہ بات ضرور فکر طلب ہے کہ تبلیغی جماعتوں کی ایک بڑی کھیپ گھر لوٹنے کے بعد کیا کرے گی….

کیا حکومت نے اپنے اقدام کے رد عمل میں ہونے والے کسی ممکنہ مضر اثر ( سائڈ افیکٹ) کے سد باب کے لئے کوئی منصوبہ بندی کر رکھی ہے یا یہ قدم بھی حکومتی تجربہ کی بھینٹ چڑھ جائے گا….

اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ تبلیغی جماعت سے کس شعبہ ہائے زندگی اور طبقے کے لوگ منسلک ہیں….

تبلیغی جماعت میں عموما تین طرح کے لوگ گئے ہوئے ہیں۔

زندگی سے فرار نوجوان، اپنے گناہوں سے تائب ، معافی کے طلب گار امیر کبیر لوگ۔ ان کے علاوہ پٹھان بزرگوں کی ایک بڑی تعداد جن کی طبیعت کے ساتھ تبلیغی جماعت مناسبت رکھتی ہے۔ وہاں وہ اپنے روایتی حجروں کی طرح قہوے کی محفلیں لگاتے ہیں اور مختلف مذہبی امور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں….

ان میں سے جو امیرو کبیر لوگ ہیں ان کا گشت اپنے محلے اور مسجد تک محدود ہوجائے گا یا وہ انفرادی طور پر کسی دوسرے ملک جہاں اس قسم کی پابندی نہیں۔ وہاں کا ویزہ لگوا کر باہر نکل جائیں گے اور غیر ملکی جماعتوں کے ساتھ مل جائیں گے….

فارغ بزرگ اپنے اپنے چوپالوں کو ذریعہ تبلیغ بنا لیں گے اور پولیس کی جانے والی کسی بھی انتہائی مداخلت کی صورت میں خود کو گرفتاریوں کے لئے پیش کر دیں گے اور جیل جا کر قیدیوں میں تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیں گے کہ شاید یہی اللہ کا حکم تھا….

اب آتے ہیں تیسری قسم کی طرف ، زندگی سے بے زار وہ بے روز گار نوجوان جن کے سروں پر جماعت نے ہاتھ رکھا اور ماہانہ وظائف مقرر کئے
اب آتے ہیں تیسری قسم کی طرف ، زندگی سے بے زار وہ بے روز گار غریب نوجوان جن کے سروں پر جماعت کے امیر تبلیغی اراکین نے ذاتی طور پر ہاتھ رکھا اور ماہانہ وظائف مقرر کئے تاکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات پوری کر سکیں۔ گھروں کو واپسی کے بعد وہ ان وظائف سے محروم ہو جائیں گے اور یہی وہ لوگ ہوں گے جو حکومت کے اس اقدام کی ناکامی کا اصل سبب بنیں گے۔

یہ بات درست ہے کہ ہر دہشت گردی کے پیچھے ایک نظریاتی سوچ کارفرما ہوتی ہے مگر غربت اور افلاس جیسے عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا….

اگر حکومت ، پاکستان کو ایک فلاحی اورپرامن ریاست دیکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے کچھ اور اقدامات بھی مطلوب ہیں جن میں غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ سر فہرست ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
23 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments